Home » پوھوزانت » اُمید ۔۔۔ شان گل

اُمید ۔۔۔ شان گل

اندرونِ ملک (سائبیریا)جلا وطنی

 

چودہ ماہ جیل، اور چار تفتیشوں کے بعد 13 فروری 1897 میں لینن کوتین سال کے لئے مشرقی سائبیریا میں جلا وطنی گزارنے کی سزا دی گئی۔

وہ دنیا کے جہنم کے لیے ”دراز سفری ٹرین“میں بیٹھا۔ اسے اب تک معلوم نہ تھا کہ برفانی وسیع وعریض سائبیریا میں اس کی ”جیل جاہ“ کس نام کے گاؤں میں ہے۔ اسے وسطی سائبیریا میں کراسنو یارسک تک تو جانا تھا۔ آگے کی خبر آگے!۔

قیدی کچھ روز بعد کرا سنویا رسک پہنچا۔ مگر یہاں اسے دو ماہ تک رکنا پڑا۔ اس لیے کہ آگے دریائے ینسی موسم بہار تک برف بن جاتا تھا۔

اپریل میں اُسے معلوم ہوا کہ اُسے دور دراز ایک گاؤں جلاوطن کردیا گیا۔  انقلاب نامی جرم کی سزا میں اسے ”میٹھا“ تو کھانا ہی تھا۔ لہذا روانگی۔ دریا میں بھاپ سے چلنے والے جہاز میں چار دنوں کے سفر کے بعد وہ مینو سِنک پہنچا۔ وہیں تو اسے ”جلاوطنی کے آداب“ والی لسٹ مہیا ہونی تھی۔ آگے کے چالیس میل گھوڑ اگاڑی پہ۔ مئی 1897میں لیننینی سئی صوبے کے مینو سینسک ضلع کے گاؤں شو شینسکوئے پہنچ گیا۔ یہی وہ جگہ تھی جوسزا دینے والوں نے پولیس کی کبھی بھی نہ ختم ہونے والی نگرانی میں اس کی جلا وطنی کے لئے مقرر کی تھی۔ اس زمانے میں یہ ایک بھولا بسرا سائبیریائی گاؤں تھا۔یہ گاؤں نزدیکی ریلوے سٹیشن سے بھی 200میل  دور واقع تھا (1)۔

یہاں ڈاک جمعرات اور منڈے کے روز ملتی تھی او رہنگامی حالت میں خاندان کو تار بھی بھیجا جاسکتا تھا۔ جلا وطنی میں آٹھ رو بل ما ہوار وظیفہ ملتا تھا۔ یہ رقم خوراک، لباس اور مکان کے کرایہ جیسی حقیر ضرورتیں پوری کرتی تھی (2)۔

خاندان میں صرف لینن ہی وزارتِ داخلہ کے قہر کا شکار نہ ہوا۔ اس کے چھوٹے بھائی دیمتری کو بھی انقلابی تحریک میں شمولیت کی بنا پر 1897 میں ماسکو یونیورسٹی سے خارج کردیا گیا۔ اسے گرفتار کرکے ”تُولا“ میں جلا وطن کردیا گیا۔پھر حکام نے لینن کی بہن ماریا کو بھی انقلابی سرگرمی کی بنا پر گرفتار کرلیا اور اُسے نژنی نووگاراد میں جلا وطن کردیا گیا۔ ان سب کی بے چاری بیوہ ماں کبھی اِس جلا وطن اولاد کے پاس ہوتی،کبھی دوسرے کے۔(3)

مگرجلا وطنی میں براہ راست انقلابی سر گرمیوں سے الگ ہو کر بھی لینن نے اپنی رجائیت، جوش و خروش اور زندہ دلی کو نہیں چھوڑا۔ وہ زورشور سے مطالعہ کرتا رہا اور اس نے سائیبریائی دیہات کی زندگی اور کسانوں کی حالت کو بغور دیکھا۔(4)۔

”جب میں سائیبریا میں جلا وطنی کی حالت میں تھا مجھے وکالت کرنی پڑی۔ لیکن میں پوشیدہ وکیل تھا کیونکہ سرکاری طور پر میں جلا وطن تھا اور اس حالت میں یہ ممنوع تھا۔ پھر بھی کوئی دوسرا وکیل نہ تھا اس لئے لوگ میرے پاس آکر اپنے کاموں کے بارے میں کہتے تھے“۔(5)۔

اس جلاوطن کی نگرانی پر مامور پولیس مین نے ایک رپورٹ میں لکھا:”سارا وقت لکھتا رہتا ہے۔۔“سائبیریا میں تین سالوں میں لینن نے 30سے زیادہ تصانیف کیں۔ سب کے سب عظیم تھیورٹیکل اور سیاسی اہمیت کی۔ (6)۔

لگتا ہے شاہی ایوانوں نے اِن آدرشی روحوں کے لیے مکمل اور غلطی سے پاک منصوبہ بندی کر رکھی ہو۔

لینن نے جلاوطنی میں ایک خط لکھا جس میں اُس نے نارژداسے اس کا رشتہ مانگا۔  شوشینسکوئے سے لینن نے کروپسکایا کو لکھ کر کہا کہ آجائے اور اُس کی بیوی بن جائے۔ کروپسکایا نے سادگی، حتی کہ ایک حد تک روکھے پن سے جواب دیا۔اگر مجھے ایک بیوی بننا ہی ہے تو ایسا ہی سہی“۔ یہ ایک ایسا جواب تھا جسے لینن ہمیشہ دہراتا تھا (7)۔

دیکھیے، لینن گیا سزا کے بطور سائبیریا۔ اُس وقت سخت ترین سزا یہ ہوتی تھی کہ کسی کو اس کے ماحول، حلقہِ کار اور شہری سہولتوں سے اکھاڑ کر ہزاروں میل دور مشکل ترین موسمی وسہولیاتی دنیا میں جلاوطنی کیا جائے۔ دوسری طرف کروپسکایا  نے لینن سے ملنے کے بعد ”ورکنگ کلاس کی نجات کے لیے جدوجہد یونین ”کی بنیاد رکھنے میں مدد کی۔ وہ بڑھ چڑھ کر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھی کہ1896 گرفتار ہوگئی۔ یعنی جس وقت لینن جیل سے جلاوطنی پہ جانے کیے نکلا، تو کروپسکایا بھی  جیل میں تھی۔

جیل سے رہائی ملنے والوں کی بہت سخت جاسوسی ہوتی تھی مگر اس کے باوجود لینن ”مجھے خفیہ خطوط لکھ کر باہر کی دنیا کے بارے میں بتاتا تھا۔“۔اس سے قبل جب لینن کو سائبیریا جلا وطن کیا جارہا تھا تو اس نے کروپسکایا کو ایک خفیہ خط لکھا جو کہ کروپسکایا کی ماں نے بیٹی کو پہنچایا۔ اس میں مشورہ دیا گیا کہ اگر کروپسکایا بھی جلاوطن کردی جائے تو وہ دونوں ایک ہی جگہ پر جلاوطنی کاٹ سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ مشہور کردیا جائے کہ وہ دونوں منگیتر ہیں۔

کروپسکایا بھی جلد رہا ہوگئی۔ اس لیے کہ ایک قیدی عورت نے خود کو آگ لگادی تھی جس سے سرکار نے خوفزدہ ہو کر ساری عورتوں کو رہا کردیا۔ مگر اس پابندی کے ساتھ کہ وہ شہر سے باہر نہیں جائیں گی”جب تک کہ ان کے کیسز کا فیصلہ نہیں ہوتا“۔ (8)۔

اور یہ فیصلہ ہو ہی گیا۔ کروپسکایا کوتین سال کے لئے مغربی سائبیریا کے یورا لز میں ”اوفا“ کے دور دراز گاؤں میں جلا وطن کیا گیا۔

یوں اس بہادر خاتون نے لینن کو اپنا منگیتر قرار دیا اور سرکار کو درخواست دی کہ وہ      جلا وطنی کی سزا اُس کے ساتھ گزارے گی۔یہ ملائم فکشن حکام نے قبول نہیں کیا اور انہوں نے  اصرار کیا کہ وہ اسی صورت اکٹھے رہ سکتے ہیں جب وہ شادی کرلیں۔ یوں کروپسکایا نے اس شرط پر شوشنسکوئی گاؤں میں اپنے ”منگیتر“لینن کے پاس ٹرانسفر کرالیا۔کہ وہ وہاں جلد شادی کرلیں گے۔

میں والدہ کے ساتھ اپنے خرچ پر منیوسنسک گئی۔ ہم یکم مئی 1898کو کراسنو یار سک پہنچے جہاں سے ہمیں سٹیمر کے ذریعے یینیسی جانا تھا۔

مغرب کے وقت ہم شوشینسکوئی پہنچے جہاں لینن رہتا تھا۔ وہ شکار کے لیے باہر گیا ہوا تھا۔ ہمیں اُس کے ”ہَٹ“ پہنچادیاگیا۔۔ لینن کا کمرہ گوکہ بڑانہ تھا مگر بہت صاف تھا۔ مجھے اور ماں کو کاٹیج کا بقیہ حصہ دیا گیا۔ کاٹیج کا مالک اور اس کے پڑوسی نے ہمارے گرد مجمع بنایا، وہ اوپر سے نیچے ہمیں غور سے دیکھنے لگے اور سوالات کرنے لگے۔چاروں طرف گاؤں کی لڑکیاں جمع ہوگئیں۔ اور بالوں کوعجب قسم سے گندھی ہوئی لینن کی اس منگیتر لڑکی کو دیکھنے لگیں (9)۔ بالاخر لینن شکار سے واپس ہوا۔وہ اپنے کمرے میں روشنی دیکھ کر حیران ہوا۔ مکان کے مالک نے اسے شرارت میں بتایا کہ آسکرا لیگزنڈر ووچ نامی جلاوطن نشے میں دھت گھر آیا اور اس کی کتابیں تتر بتر کردیں۔ ولا دیمیر نے قدم تیز کیے۔اسی وقت میں باہرنکلی۔۔۔اُس رات ہم گھنٹوں تک باتیں کرتے رہے“(11)۔ کروپسکایا اس کے لیے کاغذ، دستانے، ہیٹ، سوٹ اور بہت ساری کتابیں لائی۔یہ صرف دو محبوبوں کا ملاپ نہ تھا بلکہ تو دوکامریڈوں کا ملنا تھا۔ لینن کی زندگی اور اس کا روٹین بدل گئے۔ اُس وقت کے بعد عاشقوں کا یہ جوڑا موت تک کبھی جدانہ ہوا۔

یہ دو کمروں کا کرائے کا کاٹیج تھا۔ اسی کاٹیج (جھونپڑی نما مکان) کے مقدر میں تھا کہ اُسی میں دونوں سیاسی ورکرز کو اپنی محبت کو شادی میں بدلنا تھا۔ جون1898میں اس نے حکام سے اپنی شادی کی اجازت کی درخواست دے دی۔ فن لینڈ کے ایک ”ہم جلاوطن“نے جوڑے کے لیے کاپر کی دوانگوٹھیاں بنائیں۔

 

 حوالہ جات

 

۔1۔    او بیچکین اور دوسرے۔   لینن مختصر سوانح عمری۔1971۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو۔ صفحہ37

۔2۔    رابرٹ سروس۔ لینن، سوانح عمری۔ پین بکس۔2000۔ صفحہ113

۔-3 رابرٹ سروس۔ لینن، سوانح عمری………… صفحہ116

۔4۔    او بیچکین اور دوسرے۔   لینن مختصر سوانح عمری۔1971۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو۔ صفحہ38

۔-5او بیچکین اور دوسرے۔   لینن مختصر سوانح عمری۔1971۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو۔صفحہ۔38

۔6۔ولادی میر ایلیچ لینن۔ لائف اینڈ ورک۔1975نووستی پریس ایجنسی۔ ماسکو۔ صفحہ28

۔7۔ ڈیوڈ شب۔۔ صفحہ 51

۔۔ memoirs۔8۔۔ صفحہ 16

۔9۔ اے لائف ڈی ووٹڈ۔۔ صفحہ31

۔memoirs۔۔10۔۔ صفحہ 33

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *