Home » پوھوزانت » آخر یہ غربت ہے کیا چیز؟ ۔۔۔ رمضان بلوچ 

آخر یہ غربت ہے کیا چیز؟ ۔۔۔ رمضان بلوچ 

نہ جانے مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ آج اگر “غربت” نام کی کسی چیز کا وجود نہ ہوتا تو ہماری یہ دنیا زیادہ پرامن اور آسودہ حال ہوتی۔ زندگی زیادہ آسان اور پرکشش ہوتی۔ پھولوں کی رنگت زیادہ نکھرتی۔ معطر خوشبوؤں اور مسحورکن موسیقی سے فضا زیادہ مہکتی۔ اپنے مارکسی دوستوں سے “بہت بڑی معذرت” کے ساتھ ہم یورپ میں سکینڈینوین ممالک کی مثال ہی دے سکتے ہیں جہاں (ہماری معلومات کے مطابق) معاشرہ انسانی اقدار اور لطیف احساسات کی بنیادوں پر استوار ہے۔ وہاں لوگ خوشحال اور مطمئن ہیں۔ پرامن ہیں۔ وہاں زندگی (وہیں کے رہائشیوں کے لیے) آسان اور پرکشش ہے۔ پھولوں کی رنگت نکھری ہوئی اور فضا خوشبوؤں اور دلفریب نغموں سے مہکتی ہے۔ ہمارے لیے تو یہ سب آسائشیں اور آسانیاں انہونی سی ہیں جو ہماری “دًم نکلنے والی خواہش” تو ہوسکتی ہے یا پھر ایک حسین خواب لیکن آنکھ کھلتے ہی تلخ حقیقت ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہم دنیا کے جس حصہ میں رہتے ہیں وہ “تیسری دنیا” کے ٹائٹل کے ساتھ مشہور (یا بدنام) ہے۔ ہم تیسری دنیا کے تیسرے درجے کے لوگ ایک گلے سڑے بدبودار اور استحصال زدہ معاشرے میں  غربت کی لکیر کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے ہیں جو کئی نسلوں سے جاگیرداروں۔ سرداروں۔ سرمایہ داروں۔ وڈیروں۔ ملکوں اور بے رحم ریاستی اہلکاروں کی تجوریوں کو “گرم” رکھنے کے لیے بلا تعمل ایندھن بنتے چلے آرہے ہیں گویا

 

بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پاؤں

رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے۔

 

بات “کورونا وائرس” کی وبا کے دنوں کی بھی نہیں ہے کہ تین مہینوں کے “ہلکے پھلکے” لاک ڈاؤن سے غریب طبقے کی زبوں حالی۔ بیچارگی اور بیکسی کی داستانیں زبان زد خاص و عام ہوچکی ہیں۔ جب سے اس دنیا میں آنکھیں کھولی ہیں ہم نے اپنے آس پاس غربت اور افلاس کی ہیبتناکیوں اور تباہ کاریوں کو برقرار اور مستحکم تر ہوتے دیکھا ہے۔  ہر دور میں (سنہری اور تاریک بشمول) ہمارے “رنگ برنگی” حکمرانوں نے امن کی بجائے جنگ۔ معیاری تعلیم و صحت اور غریبوں کی خوشحالی کی بجائے خوشنما خوابوں کی پرورش اور اپنے جیسے پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کے لیے لوٹ مار کے نت نئے راستے کھولنے ہی کو غنیمت جانا ہے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ مجموعی طور پر غربت۔ افلاس اور محرومی کی سطح کی لکیر نیچے ہی کی جانب گامزن ہوتی جارہی ہے۔ ہم جیسے لوگوں کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دل کی جگہ “پتھر” لگائے گھومتے پھرتے ہیں۔ اب ہم بھی غربت کی بھیانک شکل دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے۔ دل دہل جاتا ہے اور جسم کانپ اٹھتا ہے جب غریب مزدورں کی جھکی ہوئی کمر پر نظر پڑتی ہے۔ جب میلے کچیلے لباس  (جسے ہم اپنی ثقافت کی شان سمجھتے رہے ہیں) میں شریف خاندانوں کی خواتین پھٹے پرانے برقعہ میں اپنے تین چار معصوم بچوں کا ہاتھ پکڑ کر “روٹی کی تلاش” میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔

کافی عرصہ پہلے مفکر۔ دانشور اور مصنف ڈاکٹر شاہ محمد مری کی ایک کتاب نظر سے گزری تھی جس میں ایک قبائلی لڑائی (جو خون آلود صدیاں گزار کر شاید اب بھی جاری ہے) کا ذکر ہے جس میں ایک بیٹے کے دونوں بازو کاٹ کر اور اس کی ماں کے حوالے کرکے یہ کہا جاتا ہے کہ اب ان سے اپنے کھیت میں ہل چلائے! بعد میں جب اس ماں سے پوچھا جاتا ہے کیا دنیا میں اس سے بدتر کوئی اور لمحہ بھی آسکتا ہے؟۔ کچھ دیر تو وہ خاموش رہتی ہے پھر جواب دیتی ہے: “ہاں! وہ لمحہ ہے غربت۔۔۔!!” بقول ڈاکٹر صاحب کے ہماری دھرتی کی ماں نے ایک لفظ میں مارکس کے پورے فلسفہ کو سمجھا دیا!

اسی واقعہ سے ملتا جلتا  ایک مشہور “فقیری مکالمہ” بھی ہے۔ اس فقیر سے جب ایک پڑھے لکھے آدمی (عموماً آجکل ہمارے “پڑھے لکھے” حضرات ہی ایسا سوال اٹھاتے ہیں) نے پوچھا کہ ہندو ہو یا مسلمان۔ جو بھیانک ترین جواب ملا وہ کچھ یوں تھا: “بھوکا ہوں صاحب!”

مادر تھریسا انسانی بھلائی کے کاموں کے حوالے سے کافی اچھی اور نیک شہرت رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ہم کبھی کبھی یہ سوچتے ہیں کہ بھوکا۔ ننگا اور بے گھر ہونا ہی غربت ہے۔ صرف ایسا نہیں ہے۔ جس کو نہ چاہا جائے۔ جس سے کوئی پیار نہ کرے۔ جس کا خیال نہ رکھا جائے اور جس کی کوئی پرواہ نہ کرے تو یہ صورت حال بھی بہت بڑی غربت کی نشاندہی کرتی ہے۔ مادر تھریسا نے شاید انسانی احساسات کی بات کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ  انسانی خوشیوں کا سب سے بڑا دشمن غربت ہی ہے چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ کم سے کم ہم اپنے معاشرہ کی بات کرسکتے ہیں کہ یہاں واقعی ایسا ہی ہے۔

انسانی احساسات کو کچلتے ہوئے اپنی بھیانک صورت میں غربت ہمارے درمیان کھلے عام  اپنی موجودگی کا ثبوت فراہم کرچکی ہے بلکہ موذی مرض کینسر کی طرح پھیل چکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا کے دانا لوگ کینسر کا علاج مستقبل قریب میں نکال ہی لیں لیکن ہمارے جسم سے چپکی ہوئی یہ غربت کی بلا کیسے دور ہوگی۔  یہ بات طے ہے کہ ہمارے ہاں نئے نئے چہروں کے ساتھ جو  نظام رائج الوقت ہے اس سے مثبت نتائج کی توقعات رکھنا ہی بے سود اور خام خیالی ہے۔ ہمارے باعلم سکالرز۔ دانشور اور مفکر ایک ایسے متبادل سائنٹیفک نظام کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں جس کے مطابق  پیداواری وسائل بجائے مخصوص افراد کے صحیح معنوں میں عوامی قوتوں کے ہاتھوں میں ہوں۔ جس میں انصاف و مساوات کا بول بالا ہو۔ جس میں انسانی اقدار کی پاسداری ہو اور جس میں امن و آشتی کو مقدم سمجھا جاتا ہو اور جنگ صرف اور صرف غربت کے خلاف ہی ہو۔ ہمارے نوجوانوں کو ان مفکروں کی باتیں سننی اور پڑھنی چائییں تاکہ مستقبل میں ایک روشن خیال معاشرہ کی تعمیر و ترقی کے پروسس میں اگر ضرورت پڑے تو وہ اپنا شعوری کردار ادا کرسکیں۔

جون 1998 میں اقوام متحدہ کی جانب سے غربت ختم کرنے کے بارے میں ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں دنیا کے 117 ممالک (بشمول پاکستان) کے نمائندوں نے دستخط کئے تھے۔ مختصراً اس میں کہا گیا: بنیادی طور پر  (عام آدمی کی) دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھانے اور اپنی پسند سے فیصلہ کرنے کے حق سے محرومی۔ انسانی عزت و وقار کی پامالی۔ ایک خاندان کو پیٹ بھر کھانے۔ مناسب لباس۔ سکول اور ہسپتال کی سہولتوں سے محروم رکھنے کی پالیسی۔ یہ سب عناصر مل کر غربت کے احساس کو جنم لینے کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح افراد۔ گھروں۔ طبقوں کو عدم تحفظ اور بے بسی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب انہیں تمام سہولتوں بشمول صاف پانی اور صحت وصفائی سے محروم کرکے ان کو محدود حد میں رکھتے ہوئے انہیں ناپسندیدہ اور غیر مستحکم ماحول اور تشدد کی جانب دھکیلنا ہے۔ لہذا تمام ممبرز ممالک کو غربت کے خاتمہ کے لیے منصوبہ بندی اور متحرک پروگرامز طے کرنے چاہییں۔

اس کے بعد کیا ہوا ہم نہیں جانتے۔ ہوسکتا ہے ہمارے ملک میں کاغذات اور ریکارڈ میں غربت کا “کافی حد” تک قلعہ قمع کیا جاچکا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہاں سڑکوں۔ گلیوں اور ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں غربت ایک Predator کی طرح غریبوں کے سفاکانہ صفایا میں بے حد “مصروف” ہے۔ ان قسمت کے ماروں۔ لاچاروں اور مظلوموں کی شاید بس یہی ایک تمنا رہ گئی ہے:

 

اک آس ہے ایسی بستی ہو

جہاں روٹی زہر سے سستی ہو

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *