Home » قصہ » پہلی ادائیگی ۔۔۔ شاہ محمد مری

پہلی ادائیگی ۔۔۔ شاہ محمد مری

۔1917کا اکتوبر بڑا طوفانی تھا، آسمان سلیٹی رنگ کا تھا۔ ہوا کے جھکڑ سمولنی انسٹی ٹیوٹ کے باغ کے درختوں کو زور زور سے ہلا ڈالتے تھے۔ اور عمارت کے اندر وسیع وعریض راہداریوں اور مختصر فرنیچر والے ہال میں اس زور شور سے کام ہورہا تھا جس کی مثال دنیا نے نہ دیکھی تھی۔

           اقتدار دو روز قبل سوویتوں کے ہاتھوں میں آچکا تھا۔ سرما محل پرفوجیوں اور مزدوروں کا قبضہ ہوچکا تھا۔ کیرنسکی کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔مگر ہم سب جانتے تھے کہ یہ محنت کشوں کے ارمانوں اور ان کی ایک نئی انجانی حکومت کے قیام کا محض پہلا زینہ تھا۔

           بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی سائیڈ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں سکڑی بیٹھی تھی۔ کمرے کے درمیان میں ایک سادہ سی میز پڑی تھی۔ دروازوں اور کھڑکیوں پر اخبار چسپاں تھے اور فرش پر کچھ کرسیاں رکھی تھیں اور باقی جگہ پر اخبار بچھے تھے۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ میں وہاں کیوں گئی تھی لیکن اتنا یاد ہے کہ لینن نے مجھے کوئی سوال پوچھنے کا موقع ہی نہ دیا۔ جب انہوں نے مجھے دیکھا تو فوراً فیصلہ کر لیا کہ مجھے اس کام سے کہیں زیادہ مفید کام سرانجام دینا چاہیے جو میں سوچ رہی تھی۔

           ”فوراً جائیے اور سوشل سیکورٹی کی وزارت سنبھالئے۔ یہ کام فوری نوعیت کا ہے“۔

           لینن پر سکون بلکہ بہت خوش تھا۔ وہ کسی بات پر مذاق کرتا تھا اور پھر اسی لمحے دوسر ے لوگوں سے باتیں کرنے لگتا۔

          مجھے یاد نہیں کہ میں وہاں اکیلی کیوں گئی تھی۔ لیکن مجھے اکتوبر کا وہ مرطوب دن خوب یاد ہے جب میں کاز انسکا یا روڈ پہ واقع سوشل سیکورٹی کی وزارت کے گیٹ پر گاڑی سے اتری۔ ایک طویل قامت، سفید ریش، مرعوب کن دربان نے گیٹ کھولا اور سر سے پاؤں تک میرا جائزہ لیا۔

           ”یہاں انچارج کون ہے؟“ میں نے پوچھا۔

          ”درخواستیں دینے والوں کی ملاقات کا وقت ختم ہوچکا ہے“ رعب دار سنہرے بالوں والے باوردی بوڑھے نے مجھے جھاڑتے ہوئے جواب دیا۔

          ”میں یہاں کسی قسم کی امداد کے لیے درخواست دینے نہیں آئی۔ ہیڈ کلرکوں میں سے کوئی ہے؟“

           ”میں تمہیں آسان روسی زبان میں بتاتو چکا ہوں۔ درخواستیں ایک سے تین بجے تک وصول کی جاتی ہیں۔ اب تو دیکھو چار سے بھی اوپر ہوچکے ہیں“۔

میں اصرار کرتی رہی اور وہ منع کرتا رہا۔ اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ ملاقات کا وقت ختم ہوچکا تھا اور اُسے یہ حکم تھا کہ کسی کو اندر نہ آنے دیا جائے۔

           میں نے منع کے باوجود سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش کی مگر وہ دیوہیکل ضدی بوڑھا دیوار کی طرح میرے سامنے کھڑا ہوگیا اور مجھے ایک قدم بھی آگے جانے نہ دیا۔

           اور یوں میں بے نیل و مراد واپس لوٹ آئی۔ مجھے ایک میٹنگ میں جانے کی جلدی تھی۔ ان دنوں میٹنگیں اہم اور بنیادی چیزیں ہوتی تھیں۔ شہر کے غریبوں اور فوجیوں کے درمیان ”’تخت یاتختہ“ کی فیصلہ کن بحثیں ہورہی تھیں۔ آیا فوجی وردیوں میں  ملبوس مزدور اور کسان اقتدار کو قائم رکھ سکیں گے۔ یا بورژوازی کا پلہ بھاری ہوگا۔

          اگلے روز اعلیٰ الصبح میرے فلیٹ کی گھنٹی بجی جس میں کہ میں کرنسکی کی قید سے رہائی کے بعد رہ رہی تھی۔ گھنٹی بار بار بجائی جارہی تھی۔ جب دروازہ کھلا تو وہاں ایک کسان کھڑا تھا۔ پکا کسان، پوستیں پہنا ہوا پھٹے ہوئے پرانے جوتے، لمبی داڑھی، ایک مکمل انسان۔

          ”کیا وہ کولنتائی، عوامی وزیر، یہاں رہتی ہے؟۔ میں نے اس سے ملنا ہے۔ میرے پاس اس کے نام اُن کے چیف بالشویک کا خط ہے، لینن کا خط“۔

           میں نے چٹ دیکھی۔ واقعی یہ لینن کے ہاتھ کی تحریر تھی۔

           اسے سوشل سیکورٹی فنڈ سے اتنی رقم دے دیں جتنے کا کہ اس کا گھوڑا تھا“۔

           اس نے اپنے کسانوں والے مخصوص دھیمے انداز میں اپنی پوری رام کہانی سنائی۔ زار کے زمانے میں،فروری انقلاب سے ذرا پہلے اس کا گھوڑا جنگی بیگار میں لیا گیا۔ انہوں  نے اس سے اس کے گھوڑے کا ”اچھا معاوضہ“ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ایک عرصہ گزرا، معاوضے کا نام ونشان نہ تھا۔ اس لیے وہ کسان پیٹروگراڈ چلا آیا اور دو ماہ سے عبوری حکومت کے دفاتر کے چکر لگاتا رہا۔ لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ بوڑھے آدمی کو ادھر سے ادھر،اُس دفترسے اِس دفتر خوار کیا گیا۔ اس کا صبر، اس کا پیسہ سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ پھر اچانک اسے بالشویکوں کے بارے میں پتہ چلا۔ اس نے سنا کہ وہ لوگ مزدوروں اور کسانوں کو ان کی وہ تمام چیزیں واپس کر رہے ہیں جوزار بادشاہ اورجاگیرداروں نے جنگ کے دوران اُن سے چھپنی تھیں۔ صرف ایک چیز کی ضرورت تھی اور وہ چیز تھی، چیف بالشویک لینن کا ایک رقعہ۔ اور ہمارے اس کسان نے لینن کو سمولنی میں ڈھونڈ نکالا۔ صبح ہونے سے بہت پہلے اسے جگالیا اور اس سے ایک رقعہ لے لیا۔ اس نے یہ رقعہ صرف مجھے دکھالیا مگر اسے میرے حوالے کرنے کے لیے قطعاً تیار نہ تھا۔

           ”رقعہ میں اُس وقت تمہارے حوالے کروں گا جب پیسے مجھے مل جائیں گے۔ اُس وقت تک اسے میں اپنے پاس رکھوں گا“۔

           میں اس کسان اور اس کے گھوڑے کے لیے کیا کرسکتی تھی؟۔ وزارت ابھی تک عبوری حکومت کے سول ملازمین کے ہاتھ میں تھی۔ وہ بھی عجیب دن تھے۔ اقتدار سوویتوں کے ہاتھ میں تھا۔ کابینہ بالشویکوں کی تھی لیکن حکومت کے ادارے عبوری حکومت کے سیاسی خطوط پر چل رہے تھے۔

           ہم وزارت پر کس طرح قبضہ کرتے؟۔ طاقت سے؟۔تب تو کلرک لوگ بھاگ جاتے اور میں بغیر سٹاف کے رہ جاتی۔

           ہم مختلف فیصلوں پر پہنچے۔ ہم نے جونیئر (ٹیکنیکل) ملازمین کی ٹریڈ یونین کی میٹنگ بلوائی جس کا چیئرمین میکنگ ایوان گو روف تھا۔ یہ ایک مخصوص نوعیت کی ٹریڈ یونین تھی۔ اس میں مختلف پیشوں کے لوگ شامل تھے جو کہ وزارت میں صرف ٹیکنیکل کام کرتے تھے۔ پیغام رساں، نرسیں، مکینک، پرنٹر آپریٹر وغیرہ۔

          انہوں نے صورتحال پر بحث کی۔ وہ اس پر کاروباری انداز میں بحث کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک کونسل چنی اور اگلی صبح وزارت پر قبضہ کرنے روانہ ہوگئے۔

           ہم اندر چلے گئے۔سنہرے بالوں والے دربان کو بالشویکوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی اور وہ میٹنگ میں بھی نہیں آیا تھا۔ اسے اچھا تو نہ لگا مگر اس نے ہمیں روکا بھی نہیں۔ جب ہم سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو ہمیں لوگوں کا ایک ہجوم سیڑھیاں اترتے ہوئے ملا۔ کلرک، ٹائپسٹ، اکاؤنٹنٹ، سیکشن آفیسر۔ وہ بہت جلدی میں تھے۔ انہوں نے ہم سے نظریں تک نہ ملائیں۔ ہم اندر آئے اور وہ باہر نکلے۔ سول سروس کے ملازموں کا سبوتاژ شروع ہوچکا تھا۔ وزارت میں بہت تھوڑے سے لوگ باقی رہ گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ہم بالشویک لوگوں کے ساتھ کام کرنے کوتیار ہیں۔

          ہم تمام کمروں میں گئے۔ سب کے سب خالی تھے۔ ٹائپ رائٹر بے مصرف پڑے تھے۔ کاغذات یہاں وہاں بکھرے پڑے تھے۔ کتابیں اٹھائی جاچکی تھیں۔ تالے بندتھے اور چابیاں غائب۔ تجوریوں تک کی چابیاں نہ تھیں۔

           معلوم نہیں چابیاں کس کے پاس تھیں؟۔ پیسے کے بغیر ہم کس طرح کام کرسکتے تھے؟۔ سوشل سیکیورٹی ایک ایسا ادارہ ہے جس کا کام بند نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں یتیم خانے تھے، معذور فوجی، مصنوعی اعضاء بنانے والی فیکٹریاں،ہسپتال، سینٹو ریم، جزامی لوگوں کی کالونیاں، اصلاح خانے، لڑکیوں کے ادارے، اور نابیناؤں کیلئے رہائشی مکانات وغیرہ شامل تھے۔ یہ ایک وسیع دائرہ عمل والا کام ہے۔ ہر طرف سے مطالبے اور شکایتیں آتی ہیں اور چابیاں غائب۔ پھر سب سے بڑا مسئلہ تو وہ کسان بنا ہوا تھا جس کے پاس لینن کا رقعہ تھا۔ وہ ہر صبح تڑ کے دروازے پر آن موجود ہوتا۔

 ”میرے گھوڑے کے معاوضے کا کیا بنا؟۔کیا عمدہ جانور تھا!۔ اگر وہ اتنا توانا اور محنتی نہ ہوتا تو میں اس کے معاوضے کیلئے اس قدر سرگرداں نہ پھرتا“۔

           دو دن بعد چابیاں لوٹا دی گئیں۔ سوشل سکیورٹی کی عوامی وزارت سے جو پہلا فنڈ ادا کیا گیا وہ ایک گھوڑے کا معاوضہ تھا جسے زار بادشاہ کی حکومت نے ایک کسان سے زور اور دھوکہ سے چھینا تھا۔ اس گھوڑے کیلئے اس مستقل مزاج کسان کو پورا معاوضہ دیا گیا جس کی ہدایت لینن کے رقعہ پر درج تھی۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *