Home » قصہ » تین لڑکے ۔۔۔ ویراپانووا/شاہ محمد مری      

تین لڑکے ۔۔۔ ویراپانووا/شاہ محمد مری      

                عالیشان گھر کے گیٹ پہ تین لڑکے کھڑے ہیں۔ مارس کے میدان کے کونے پہ واقع یہ کوٹھی ان پرانی حویلیوں میں سے تھی جن کی دیوار یں زرد اور ستون سفید رنگ کے تھے۔ یہ اگست کا گرم دن تھا۔ تعطیلات اور تتلیاں پکڑنے کا آخری ہفتہ تھا۔ یہ بہت اچھی گرمیاں تھیں مگر افسوس کہ اب ختم ہونے والی تھیں۔

                ”میرا خیال ہے ایک سگریٹ پیا جائے“ وٹکانے کچھ سوچ کر کہا اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔ ساشکا نے ایک سگریٹ لیا۔

”تم بھی لے لونا“ وٹکانے یورچک سے کہا

                ”نہیں، شکریہ“ یورچک نے جواب دیا ”میں نے سموکنگ چھوڑ دی“۔

                ”واقعی؟ نیک بن رہے ہوکیا؟“۔

                ”ہاں ہاں نیک بن رہا ہوں“۔

                وہ لاغر اور دبلا پتلا تھا۔ اس کی رنگت پیلی تھی اور اس نے عینک لگا رکھی تھی۔ وہ بمشکل وٹکااور ساشکا کے کندھوں تک پہنچتا تھا۔ جب اس کی ماں کوپتہ چلا کہ وہ سگریٹ پینے لگا ہے (وہ گرمیوں میں  دیہات میں رہتے تھے اور ماں نے دیکھا کہ جھاڑیوں سے دھواں نکل رہا ہے) تو وہ اس طرح زور زور سے روئی جیسے کہ یورچک نے خودکشی کی ہو۔ یہ بات یورچک کیلئے ناقابل برداشت تھی۔ اس نے اسی لمحہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی مسرت کو قربان کر دے گا تاکہ اس کی ماں دوبارہ رو رو کر ہلکان نہ ہوجائے۔

”اسے مت ترغیب دو“۔ ساشکانے وٹکا سے کہا“ اس نے سگریٹ چھوڑ دی تو سمجھ لو کہ وہ نہیں پیئے گا“۔

                ”نہیں نہیں میں اسے ترغیب نہیں دلا رہا ہوں،میں نے تو محض اسے سگریٹ پیش کیا تھا“

                ”ٹھیک ہے۔ یہ پہلے سگریٹ پیتا تھا اب اس نے چھوڑ دی۔ یہ آسان کام نہیں ہے، اس کے لیے تو کردار کی پختگی چاہیے“۔

                ویسے تو ان دونوں کو یورچک سے ہمدردی تھی اس لیے کہ اس کی ماں مخبوط الحواس تھی۔ مگر وہ یورچک کی بڑی عزت کرتے تھے۔ محض اس لیے نہیں کہ وہ کردار کا پکاہے بلکہ ان کے خیال میں وہ وسیع  مطالعہ رکھتا تھا اور اس کے پاس علم بہت تھا۔ آپ اس سے کچھ بھی پوچھیں وہ جواب دے گا۔ اگر جلد نہ بھی دے سکے تو دوسرے دن اس کے پاس آپ کے سوال کا جواب ضرور ہوگا۔ وہ اُسے بہت پسند کرتے ہیں اور پیار سے اُسے ”چشمکو“ کہتے ہیں۔

                اس گھر کے سامنے تنگ سڑک کے ساتھ ساتھ ٹرام کی پٹری جاتی ہے اور پٹری کی دوسری جانب ایک خوبصورت پارک ہے۔ جس میں لیموں کے درخت ہیں، چھوٹی اور خوبصورت جھاڑیاں ہیں اور گھاس سے سجے سجائے پلاٹ ہیں۔ پارک کے اوپر نیلے آسمان کی چھتری ہے جس کے نیچے سفید بادل تیر رہے ہیں۔ گیٹ سے دور نظر دوڑائیں تو آپ کو کیروف کا پل اور نیوا دکھائی دیں گے۔ وہیں پر سووروف کا مجسمہ ایستادہ ہے۔ ہیلمٹ اور پیٹی دار کوٹ پہنے ایک خوبصورت جو ان آدمی کا مجسمہ جس کے پٹھے ننگے اور مضبوط تھے۔ وٹکا اور ساشکا کا خیال تھا کہ یہ جنرل سووروف کا مجسمہ تھا مگر یورچک کہتا ہے کہ وہ جنگ کا دیوتا مارس ہے۔وہ کہتا ہے کہ اس پارک کو مارس کا میدان اس لیے کہتے ہیں کہ اس میدان میں پیر یڈ ڈرل ہوا کر تاتھا اور وہاں کوئی چیز اگتی نہ تھی۔ فوجیوں کے بوٹوں نے میدان کو چٹان جیسا سخت بنادیا تھا۔

                لیکن بچوں نے تو وہ وقت نہیں دیکھا تھا۔ وہ جب سے سمجھ بوجھ کے قابل ہوگئے تھے اس دن سے انہوں نے دیکھا کہ مارس کا میدان ہمیشہ سرسبز رہتا۔ کئی قسم کے پھول ہر وقت کھلے ہوتے۔ مائیں اور نرسیں بنچوں پر بیٹھی ہوتی تھیں اور بچے کھیل رہے ہوتے۔ نظم وضبط برقرار رکھنے کیلئے خاص قسم کی عورتیں ہوتی تھیں اور اگر انہیں کچھ خرابی نظر آتی تو وہ سیٹی بجا دیا کرتی تھیں۔ یہ عورتیں عقابی نظروں سے بڑی عمر کے بچوں پر نگاہ رکھتی تھیں کیونکہ ان کا ہمیشہ یہی خیال ہوتا تھا کہ بڑے لڑکے صرف ڈسپلن توڑنے کیلئے آتے ہیں۔

                مارس کے میدان میں ماضی کی محض ایک چیز باقی تھی اور وہ تھیں پرانی سولہ بتیاں۔ ان کی لالٹینیں عجب شکل کی تھیں۔ شام کو جب سارا میدان چھوٹے چھوٹے بلبوں سے روشن ہوجاتا تو یہ پرانی سولہ بتیاں ایک خاص قسم کی مدہم اور کمزور روشنی دیتیں۔ لگتا تھا یہ روشنی کسی دوسری دنیا سے آرہی ہو۔ لالٹینیں میدان کے عین درمیان میں واقع اجتماعی قبروں کے ارد گرد لگی ہوتی تھیں۔

                ان قبروں ے ارد گرد ایک چھوٹی پختہ دیوار بنی ہوئی ہے جس پہ کئی کتبے لگے ہوئے ہیں۔ یہ طویل کتبے ہیں۔ ہر ایک کئی سطروں پر مشتمل ہے۔ کچھ پہ  بڑے حروف سے عبارتیں ہیں جبکہ کچھ کی عبارتیں چھوٹی حروف والی ہیں۔

                قبرستان میں داخل ہونے کیلئے دیوار میں چاروں طرف دروازے موجود ہیں۔ یہاں انقلاب کے شہدا ء دفن ہیں۔ لیکن یہ تو بہت پرانی بات ہے۔ ان بچو ں بلکہ ان کے والدین کی پیدائش سے بھی پہلے کی بات ہے۔

                قبروں کے اوپر ایک ابدی مشعل جلتا ہے۔ یہ گیس سے جلنے والی مشعل ہے جو زیر زمین پائپ کے ذریعے لائی گئی ہے اور جس کے آخری سرے میں شعلہ جلتا ہے۔ لینن گراڈ کے گیس کے ماہرین ہمیشہ اس کا معائنہ کرتے رہتے ہیں تاکہ یہ مناسب طور پر کام کرتا رہے۔

                یہ دراصل ایک عام سی چیز ہے اور اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ لڑکے تو ایک ایسے شہر میں رہتے ہیں جس نے نیوکلیئر قوت سے کام کرنیوالا برف شکن تعمیر کیا ہے۔وہ بیرونی خلا اور مصنوعی سیاروں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کیلئے ایک گیس برنر محض ایک گیس برنر ہوتا ہے۔ بس۔ جہاں تک دائمی مشعل کی بات ہے تو اس کا مطلب ان کیلئے محض یہ ہے کہ لینن گراڈ کے گیس ماہرین اپنے فرائض عمدگی سے ادا کر رہے ہیں۔

                یورچک نے انہیں بتا یا کہ دیوار پہ لکھے ہوئے طویل کتبے لونا چرنسکی نے لکھے تھے۔ کامریڈ لونا چرنسکی ایک عوامی وزیر تھا۔ اس بات کو بھی کئی برس ہوگئے تھے اور اُن دنوں ہمارے پاس ریلوے انجمن نہیں ہوا کرتے تھے۔ جو تھے بھی تو سب کے سب پرانے اور ٹوٹے پھوٹے۔ امریکنوں نے ہمیں ایک سو نئے انجن دینے کی پیشکش کی تھی بشرطیکہ ہم اس کے عوض انہیں گرمائی باغوں کے گردلگا ہوا جنگلہ دے دیں۔

                ”میں ہوتا تو ضرور دے دیتا“ وٹکا بولا۔

                ”اچھا؟“۔

                ”ہاں۔ یہ تو عمدہ پیشکش تھی“۔

                ”تو تمہارا خیال ہے کہ یہ ایک اچھی قیمت تھی، ایک سوریلوے انجن؟“

                ”ہاں ہاں یہ تو بہترین قیمت تھی“۔

                ”تمہارا دماغ خراب ہے“۔

                ”کیوں؟“وٹکا نے پوچھا۔

                ”اس لیے کہ ہم جتنا چاہیں انجن بناسکتے ہیں۔ ہم نہ صرف بھاپ کے انجن بنا رہے ہیں بلکہ ڈیزل اور بجلی کے انجن بھی بنا رہے ہیں لیکن وہ جنگلاتو دنیا میں یکتااور اچھوتا ہے۔ لونا چرنسکی کا بھی یہی خیال تھا اور اس نے عوامی کیساروں کی کونسل میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ جنگلا نہیں دیا جائے گا“۔

                ”تمہارا مطلب ہے کہ پوری دنیامیں اس جیسا جنگلا موجود نہیں ہے؟“ ساشکا نے پوچھا۔

                ایک جانب گرمائی باغ اپنے جنگلے کے ساتھ واقع ہیں جس کی قیمت ایک سوانجنوں سے بھی زیادہ ہے اور دوسری جانب میخائلو فسکی باغات ہیں۔ اگر آپ گیٹ سے نکل کر بائیں طرف مڑجائیں تو پاور ورکرز کلب کی جانب چند ہی قدم کے فاصلے پر ہر شام ایک فلم شوہوتی ہے۔ مزید آگے جائیں تو پل کے اس پارپیٹر او رپال کا قلعہ ہے۔ قلعہ اور دریا کے بیچ ریت کی ایک تنگ سی ساحل ہے۔ اسے شمالی ہواؤں سے قلعہ کی دیوار بچاتی ہے۔ لوگ وہاں تیرتے ہیں اور سن باتھ لیتے ہیں۔ وٹکا وہاں اپریل سے سن باتھ لینا شروع کرتا ہے۔ اپریل میں اگر سورج نکلا ہوا ہو تو بھی ریت برف کی طرح ٹھنڈا ہوتا ہے۔ آپ کو اس پہ لیٹنا نہیں چاہیے ورنہ سردی سے مرجائیں گے۔ تمام لوگ خواہ بوڑھے ہو یا جوان قمیص اتار کر کھڑے ہو کر سن باتھ لیتے ہیں۔ ایک صابر اور بہادر ہجوم ہوتا ہے۔

                اگر آپ ابھی بچے ہیں تو آپ اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ انسان کی زندگی کس طرح گزرتی ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ آپ کے والد سات آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد آرام کریں گے مگر جب آپ بڑے ہونے لگیں گے اور خود گیٹ کے باہر آنے جانے لگیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ لوگ کس طرح وقت گزارتے ہیں۔ مثلاً چوک پر ہر روز موٹر سائیکل والے ڈرائیونگ کا امتحان دے رہے ہوتے ہیں۔ اور ممتحن جو کہ ملیشیا کا ممتحن ہوتا ہے کسی کو موٹر سائیکل سے ”8“ بناتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ وہاں پہ لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ بوڑھے جوان سب دائرے میں کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے ان کے پاؤں زمین میں گڑھے ہوں۔ وہیں کھڑے کھڑے تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ابھی ابھی کام سے فارغ ہوکر سیدھا وہاں پہنچے اور ان کے کپڑوں پر ابھی تک انجن کا گریس یا چونا لگا ہوتا ہے۔ کسی اور نے بیکری کا چکر لگایا ہوتا ہے اور تھیلے میں ماں کیلئے ڈبل روٹی خرید کے وہاں کھڑا ہے۔ ماں ڈبل روٹی کا انتظار کر رہی ہوگی لیکن وہ اس دنیا میں کھویا ہوا ہے۔

                ساشکا اکثر نیوسکی پہ واقع ٹکٹیں فروخت کرنے والے کی دکان میں جایا کرتا تھا۔ یہ دکان عموماً لوگوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ بوڑھے بھی وہاں پائے جاتے ہیں۔ دھکم پیل کرتے ہوئے دکان میں داخل ہوتے ہیں۔ پھر سگریٹ پینے باہر نکلتے ہیں۔ وہ سکول کے لڑکوں سے ٹکٹیں بدلتے ہیں۔ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پہ بحث کرتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ افریقہ میں کتنے نئے ممالک ظہور میں آئے ہیں۔ساشکا کہتا ہے کہ اِن لوگوں کو ایسی باتوں کے بارے میں اتنی معلومات ہوتی ہے جتنا کہ جغرافیہ کے ایک پروفیسر کو۔

                میخائلو فسکی باغ کے ساتھ لوگوں نے ایک شطرنج کلب بنا رکھا ہے۔ وہ اپنے ساتھ ذاتی شطرنج سیٹ لاتے ہیں اور وہاں کھیلتے ہیں۔ ان کے گرد شائقین کا ایک ہجوم ہوتا ہے۔ وہ ٹورنامنٹ بھی منعقد کرتے ہیں۔ یہاں لوگ بھی یورچک کی عزت کرتے ہیں۔ ان سنجیدہ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آکر ٹورنامنٹ میں حصہ لے۔ وہ بھی اکثر ان ٹورنامنٹوں میں شامل ہوجاتا۔

                ہاں تو یہ تینوں لڑکے وہاں گیٹ پر کھڑے مارس کے میدان کے اس پاردیکھ رہے ہیں۔ راستوں پر لوگوں کی چہل پہل ہے، مائیں نرسیں بیٹھی باتیں کر رہی ہیں۔

                سبزلان پر سرخ فراک پہنے ایک ننھی لڑکی اور سفید قمیص پہنے ایک چھوٹا سالڑکا پھول چن رہے ہیں۔ صفائی کرنے والی (جو ابھی ابھی گلی کی صفائی کے لیے گھر سے نکلی تھی) گم سم کھڑی ہوگئی اور دھوپ سے بچنے کی خاطر ابرؤوں پر ہاتھ رکھے تعریفی نگاہوں سے موڑ کی جانب سے آنے والی کالی کالی کار موٹروں کو دیکھ رہی تھی۔ ان کا پورا کارواں چلا آرہا تھا۔ ایک کے بعد دوسرا۔

                ”کتنے زیادہ ہیں“ ساشکا نے کہا۔

                کار موٹروں کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے آرہی ہیں۔ تنگ گلی تقریباً بند ہوجاتی ہے۔ وہ بڑی احتیاط سے ٹرام کی پٹڑی پر چڑھ جاتے ہیں اور آتی ہوئی ٹرام کور کنا پڑتا ہے۔

”پولینڈکے باشندے ہوں گے“ یورچک کہتا ہے۔

”تمہیں کیسے معلوم ہوا؟“ وٹکانے پوچھا۔

”اخبار میں لکھا تھا“۔

”ہاں ریڈیو پر بھی اعلان ہوا تھا“۔ساشکا نے کہا ”پولینڈ کا وفد ہے“۔

”وہ بھی پھول چڑھانے آئے ہیں“یورچک کہتا ہے ”اور دائمی شعلے کو اپنے ساتھ پولینڈ لے جائیں گے“

”دائمی شعلے کو لے جائیں گے؟ یاد گار کے طور پر؟“وٹکا نے پوچھا۔

”وہ اسے نہیں لے جائیں گے۔ وہ محض ہماری مشعل سے ایک شعلہ جلائیں گے اور اسے اپنے ساتھ لے کر جائیں گے“۔

                موڑ کاریں کچھ تو سڑک پر رک گئیں اور کچھ میدان کے اس طرف۔ دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے کی آواز یں آئیں۔ لوگ باہر آئے۔ دونے ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ باقی سلیٹی رنگ کے برساتی کوٹ پہنے ہوئے ہیں۔ دو آدمی پھولوں کے بہت بڑے گلدستہ کو مزاروں کے گرد دیوار تک لے آتے ہیں۔

                راہ گیررک کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ مائیں اور نرسیں بچوں کی انگلیاں پکڑے ہر طرف سے جلدی جلدی مزاروں کی جانب آتی ہیں۔ وہ لوگ دیوار کے قریب جمع ہوگئے ہیں۔ جن دو آدمیوں نے ٹوپیاں پہن رکھی تھیں انہوں نے بھی دوسروں کی طرح اپنے سر ننگے کر دیے اور ہوا ان کے بالوں سے کھیلنے گلی۔ سبز جیکٹ والا یقینا ترجمان ہوگا۔ وہ باتیں کر تا جاتا ہے۔ اور ہاتھ سے اشارے کرتا جاتا ہے۔ (وہ ضرور کتبوں کے ترجمے کر رہا ہوگا)۔ جبکہ باقی وفد ارد گرد کھڑا سن رہا ہے۔ پھر گروپ میں سے ایک آدمی نکلتا ہے اور ڈگ بھرتا ہوا درمیان کی طرف جاتا ہے۔جہاں دائمی مشعل روشن ہے۔ دوسرے اس کے پیچھے قطار بنائے چلتے جاتے ہیں۔ جب وہ شعلے کے پاس پہنچ جاتا ہے تو ایک گھٹنے کے بل جھک جاتا ہے اور ا س کے بعد وہ لڑکوں کو نظر نہیں آتا کیونکہ دوسرے لوگ راستے میں کھڑے ہوتے ہیں۔

                لیکن جو کچھ انہوں نے دیکھا تھا، انہیں پسند آیا اور فخر اور مسرت کے احساسات ان کے چہروں پہ نمودار ہوتے ہیں۔ انہیں اس آدمی کا طرز بہت پسند آیا جو ایک گھٹنے کے بل جھکا تھا اور سفید بالوں والا اپنا سرجھکا لیا تھا۔ کس قدر عمدہ اور شاندار طرز تھا۔ انہوں نے اب تک کسی کو اس کی طرح تعظیماً جھکتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے محض تاریخی ناولوں میں ایسی چیزیں پڑھی تھیں۔

                 لیکن جس چیز نے انہیں متاثر کیا وہ یہ تھا کہ یہ آدمی ان کے اجتماعی مزاروں کے سامنے جھکا تھا۔ وہ اُن کے اپنے لینن گراڈ کی گل زمین پر تعظیماً جھکا تھا اور نیوا کی طرف سے آنے والی ہوائیں اس کے سفید بالوں سے کھیلی تھیں۔

                سب لوگ خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔  راہ گیر، بچے لینن گراڈپاور مزدور اپنے کلب کی دوسری منزل سے۔۔۔۔لیکن اب پولینڈ کا گروپ الگ الگ ہوگیا اور سفید بالوں والا آدمی دوبارہ نظر آنے لگا اور واپس کار موٹروں کی جانب جانے لگا۔ وہ اپنے سینے کے سامنے دائیں ہاتھ سے ایک چیز پکڑے ہوئے اور بائیں ہاتھ سے اس کی حفاظت کر رہا تھا۔ یہ وہ مشعل ہوگا جو انہوں نے ہمارے مشعل سے روشن کیا۔ وہ اسے اپنے ملک لے جارہے ہیں۔ سفید بالوں والے آدمی کے پیچھے پیچھے دوسرے آدمی ہیں۔ کار کے دروازے کھلتے ہیں۔ وفد کے اراکین اندر بیٹھ جاتے ہیں۔سبز جیکٹ والا ترجمان بھی۔

                اور بس۔ گاڑیاں روانہ ہوجاتی ہیں اور ان کا عالیشان جلوس چلاجاتا ہے۔ ٹرام بھی روانہ ہوتا ہے۔ مائیں اور نرسیں اپنے بچوں کی طرف واپس ہوتی ہیں۔

                تینوں لڑکے جیبوں میں ہاتھ ڈالے مزاروں کی جانب خاموشی سے ٹہلتے جاتے ہیں۔ وہ ان مزاروں کے قریب آتے ہیں۔ موسم خواہ گرمیوں کا ہویا سردیوں کا وہ تقریباً ہر روز اس گرینائٹ کی بنی ہوئی دیوار اور اس پر لونا چرنسکی کے لکھے ہوئے کتبے کو دیکھا کرتے تھے لیکن کسی نے بھی کبھی ان کتبوں کو غور سے نہیں پڑھا تھا۔ حتی کہ یورچک نے بھی نہیں۔ گیارہ بارہ برس کی عمر میں کوئی بھی قبروں پر لکھے کتبوں کو پڑھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا۔

                لیکن اب وہ آہستہ آہستہ دیوار کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اور ہر کتبے کو احتیاط سے پڑھنے کیلئے رک جاتے اور ان مقدس اور رعب وار سطروں کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھتے۔ لڑکے یہ جاننا چاہتے تھے کہ پولینڈ والے ان مزاروں پر کیا پڑھ رہے تھے اور ہمارے مارس کے میدان سے کیا چیز اپنے ساتھ پولینڈ لے گئے۔

جدوجہد میں ان تمام بہادروں کے،

ناموں کو نہ جانتے ہوئے،

جنہوں نے ان سب کے لیے اپنا لہو گرایا۔

انسانی نسل،

ان انجانے ناموں کا احترام کرتی ہے۔

ان کی یاد

اور ان سب کے احترام میں،

یہ پتھر لگایاگیا ہے

کہ یہاں ثبت رہے

پیڑھیوں تک

                وہ خاموشی کے ساتھ زیر لب پڑھتے رہے۔ ساشکاتیوری چڑھاتا ہے، وٹکا کے گلابی ہونٹ سستی سے کھلتے ہیں، وہ جمائی لیتا ہے۔ یورچک کے چھوٹے منہ پر انتہائی غورو فکر کے تاثرات ہوتے ہیں  وہ ان الفاظ کے معنی سمجھنے لگتا ہے۔

لافانی ہے، وہ

جان دیتا ہے جو، واسطے

ایک عظیم مقصد کے

وہ، جو دیتا ہے

لوگوں کے واسطے زندگی۔جو

جو محنت کرتا ہے،

جنگ کرتا ہے اور مرجاتا ہے

عمومی بھلائی، عوامی فلاح کے لیے

ابد تک وہی زندہ رہتا ہے

لوگوں کے درمیاں۔

                سفید قمیص والا لڑکا اور سرخ فراک پہنی ہوئی لڑکی ان بڑے لڑکوں کو کتبے پڑھتے غور سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ شاید کسی اور واقعہ کے پیش ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ شاید کوئی اور شخص ایک گھٹنے کے بل نیچے جھک جائے! لیکن بڑے لڑکے محض سگریٹ کے ٹکڑے اپنے منہ میں سے نکال کر جیبوں میں واپس

ڈالتے ہیں۔

تم مزدورجاگے

استحصال کی گہرائیوں سے،

غربت اور جہالت سے،

آزادی اور خوشحالی

جیتنے کی خاطر۔

تم خیر پہنچاؤ گے

پورے نوع انساں کو

اور اسے آزاد کردو گے

غلامی سے۔

                وہ دیوار کے اندر کی طرف جاتے ہیں۔ پولینڈ والوں کی طرف سے لایا گیا بڑا گلدستہ کونے میں رکھا ہوتا ہے۔ ایک چھوٹے چوکور پلیٹ فارم کے درمیان والے کھڈے میں دائمی مشعل روشن ہے۔ دھوپ میں ہوا کے جھونکوں میں یہ اس طرح لگتا ہے جیسے کہ سنہرے اور قرمزی رنگ کا پرچم ہو۔ یہی وہ مشعل ہے جس کے حصول کے لیے پولینڈ والے یہاں آئے۔ وہ مشعل جس پہ ہر وقت گیس کے آدمی نظر رکھتے ہیں تاکہ یقین کر لیں کہ یہ ہمیشہ کے لیے روشن رہے گا۔

ستم رسیدہ نہیں بلکہ

ان پتھروں کے نیچے،

ہیرو،

آرام فرما ہیں۔

تمہارے تمام احسان مندوں کی آل اولاد کے،

دلوں میں تمہارا نصیب

غم نہیں، بلکہ

رشک جگائے گا۔

تم ان سرخ اور ہولناک ایام میں

شان سے زندہ رہے

اور مرے ایک وقار کی موت۔

                لڑکے سوچتے ہیں کہ گیس کے آدمیوں کو واقعی اس کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور جب اس میں کوئی چیز پھنس جائے تو انہیں اسے صاف رکھنا چاہیے۔ ورنہ تو یہ مشعل نہ جل پائے گا۔

                اور اگر یہ کسی دن بجھ جائے تو کیا ہوگا۔ جب اسے بادوباراں کا طوفان بجھادے تو کیا ہوگا۔ اگر ہوا اسے بجھادے گی تو لوگ پھر اسے روشن کریں گے اور ضرورت پڑی تو پھر روشن کریں گے۔ ہاں بے شک یہ ایک دائمی مشعل ہے، دائمی مشعل۔

                اورقبر کے پتھراُن سے نرم آواز میں بولیں گے، انہیں مرنے والے کے بارے میں بتائیں گے۔

”یہ سفید گارڈوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مرگیا“

”اسے دائیں بازو کے سوشلسٹ انقلابیوں نے قتل کردیا“

”محاذ پہ مارا گیا“

”سفید گارڈروں کے ہاتھوں مارا گیا“

”پہاں وہ لوگ دفن ہیں جو فروری انقلاب کے دوران ہلاک ہوگئے تھے اور وہ لوگ جو کہ عظیم اکتوبر1917کے انقلاب کے دوران“

تم جنگ پہ گئے،

چند لوگوں کی،

دولت، اقتدار اور علم کیے خلاف۔

اور تم باوقار طور پر مرگئے تاکہ

دولت، اقتدار اور علم میسر ہو،

تمام انسانوں کو۔

                تینوں لڑکے جیبوں میں ہاتھ ڈالے مزاروں سے دور جاتے ہیں۔ ہاں یہ ٹھیک ہے، وہ سوچتے ہیں کہ غیر ملکیوں کو ایسی باتوں کا نوٹس لینا چاہیے اور بیرونِ ملک لے جانا چاہیے، ہاں بالکل ایسا ہونا چاہیے۔ وہاں کیا لکھا ہوا تھا؟۔ تم شان سے زندہ رہے اور باوقار موت مرے۔ ان سرخ اور ہولناک دنوں میں۔ ”لیکن ہولناک کیوں؟“ وٹکانے پوچھا۔

                لیکن اس کے دوست اس لمحے اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے۔یورچک نے اپنے پیلے ہونٹ یہ دکھانے کیلئے سختی سے بند کرلیے کہ وہ بولنا نہیں چاہتا۔ گویا کہہ رہا ہو کہ ”وٹکا تم خود سوچو، خود اپنے دماغ سے سوچو، اگر ہوسکے تو۔۔۔۔“

                لڑکے خاموشی سے ہموار سڑک پہ خوبصورت لیموں کے درختوں کے درمیان چل رہے ہیں اور وہ شریف ونجیب الفاظ ان کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔

                 وہ وقت پہ چلے گئے۔ ایک عورت سیٹی لیے مزاروں کے پاس پہنچے والی تھی۔ اُس نے ان لڑکوں کو دیکھا تھا اور جس قدر اس کی طاقت تھی، بھاگ کراُن کی طرف آئی تھی۔ اس نے خود بھی یہی سوچا اور بعد میں نرسوں اور ماؤں کو بھی بتایا کہ لڑکے اس بڑے گلدستے سے پھول چرانے آئے ہوں گے۔ لیکن وہ چلے گئے اور گلدستہ کو کچھ نہ ہوا۔ وہ عورت بلاوجہ بھاگ کر وہاں تک جانے پہ خود کو بہت کوسنے لگی۔ سرخ فراک میں چھوٹی اور سفید قیمص میں ملبوس چھوٹا لڑکا واپس چلے گئے۔ انہیں کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ ان کے سمجھنے کا وقت ابھی آیانہ تھا۔ چھوٹی بچی اپنا سرخ فراک پھیلا کر نیچے بیٹھ گئی۔ وہ ایک بڑا سرخ پھول لگتی تھی۔

                اور وہ دونوں،لڑکا اور لڑکی سرسبز گھاس کے پلاٹ پر کھلتے ہوئے دوپھول لگتے تھے۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *