Home » کتاب پچار » یورو پین نوابادیات کے ایبوریجنل ادب پر اثرات ۔۔۔ نسیم سید/تبصرہ:گلنا کوثر

یورو پین نوابادیات کے ایبوریجنل ادب پر اثرات ۔۔۔ نسیم سید/تبصرہ:گلنا کوثر

                طاقتور ہونے کی خواہش جانداروں میں فطری طور پر پائی جاتی ہے۔۔۔۔ زندگی کی بقا  کے لیے یہ ضروری بھی ہے۔۔۔۔ انسان کے ہاں البتہ یہ اکثر ایک جنون کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔۔۔۔ یوں ایک بڑی سطح پر انسان طاقتور اور کمزور دو گروہوں میں بٹے نظر آتے ہیں اور اگر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا جائے تو ظالم اور مظلوم کی کشمکش کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے جہاں جس کا زور چلا وہ پیچھے نہیں ہٹا۔۔۔۔۔ نسیم سید کی کتاب”یوروپین نو آبادیات کے ایبوریجنل ادب پر اثرات“ایک طرف اس نظریے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی نظر آتی ہے اوردوسری طرف ان آوازوں کی گونج ہمیں سناتی ہے جنہیں دبانے اور مٹانے کی ہر کوشش ناکام رہی۔۔۔۔ مجھے یہی لگتا ہے اول اول ان کی دلچسپی صرف ان آوازوں تک رہی ہو گی۔۔۔۔ ایک شاعر روح صدیوں کے سفر پر موجود کسی دوسری شاعر روح سے ہمکلام ہوئی۔۔۔۔ ہنرمند انگلیوں نے گم شدہ لفظوں کا باطن ٹٹولا اورایک بھیانک سچائی کو طشت از بام کر کے رکھ دیا۔۔۔۔ گمان ہے کہ بعد ازاں انہیں قدیم گیتوں اور نظموں میں موجود کرب نے بیقرار کیا اور یہیں سے ایک کھوج شروع ہوئی جس کے نتیجے میں اس کتاب کی صورت نہ صرف ہم تک یہ بھولے بھٹکے نغمے پہنچے بلکہ ان کے پس منظر سے بھی آگاہی ہوئی۔۔۔۔

                کتاب کا پہلا حصہ ہمیں شمالی امریکہ اور کینیڈا کے حقیقی باشندوں کی تاریخ بتاتا ہے۔۔۔۔ اول اول یہ خطے برفانی علاقوں سے ہجرت کرنے والے لوگوں سے آباد ہوئے۔۔۔۔ ہزاروں برس قبل گلیشئیرز پگھلنے کے نتیجے میں یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں ان علاقوں میں آ کر بس گئے۔۔۔۔

                ”برفانی زمینوں پر زندگی کی کٹھنائیاں جھیلنے والوں کو اس نقل مکانی کے بعد نئی سرزمین پرسبز جنگل اور ان جنگلوں میں موجود جنگلی پھل تو غذا کے لئے وافر مقدار میں ملا ہی لیکن ان جنگلوں میں جنگلی گھوڑے بھی موجود تھے دیگر جانوروں کے ساتھ۔ ان جنگلی گھوڑوں کو کیسے سدھایا کیسے ان پر سواری کا ہنر آیا یہ کہنا مشکل ہے۔لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ان گھوڑوں کو قابو کرنا اور ان پر سواری کرنا ان کا مقدر ہوا جنگلی گھوڑوں پر لگام ڈالنے کا ہنر بھی سیکھ لیا۔یوں میلوں کا سفر پیدل طے کرنے کی بجائے اب سواری پر طے کیا جانے لگا۔“

آگے چل کر ان مقامی باشندوں نے فصل اگانا سیکھا اور جیسا کہ نسیم ہمیں بتاتی ہیں اس زمانے میں عورتیں ہر میدان میں فعال رہیں۔ وہ محنت کش تھیں فصلیں اگاتیں گھڑ سواری کرتیں۔خوراک کو محفوظ کرنے کے طریقے انہیں معلوم تھے۔ یہاں ایک طرح سے مادر سری نظام رائج تھا۔جہاں عورت کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔بہرحال ان لوگوں کی زندگی خوشگوار اور پرسکون تھی۔

                 کتاب میں ترجمہ شدہ شاعری کا ایک حصہ اس دور کے گیتوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ جن سے ہمیں ان لوگوں کی فہم و فراست اور تخلیقی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے ان کے فلسفہ حیات سے آشنائی ہوتی ہے۔یہ لوگ اپنے گردوپیش کا مکمل شعور رکھتے تھے۔ ان کے جذبات اور احساسات کی سطح کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

”میری ساتھی

میرے بکھرے دانے چن کے

کتنے پیارسے

دانہ دانہ پھر سے

مجھے پروتی ہے

میرے بدن کے دکھ سکھ سارے

اپنے اوپر ڈھوتی ہے

آنسو میرے ہوتے ہیں

لیکن میری ساتھی

میرے سارے آنسو روتی ہے“

۔۔۔۔۔۔۔۔

”یہ کیسی آہٹ ہے

کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے

کہ جیسے گہری خموشیوں سے نکل کے کوئی

دبے دبے پاؤں

میری خلوت میں چل رہا ہے

میرا صنم ہے کہ

یہ خدا ہے؟“

لیکن یہ امن یہ سکون یہ دھیمی رفتار سے چلتی ہوئی زندگی جلد ہی دنیا کی نظروں میں آ گئی۔ کتاب ہمیں تفصیل سے یوروپینز کے یہاں آکر قابض ہونے کی کوششوں کے بارے میں بتاتی ہے۔ اور یہ بھی کہ بالاخر سترھویں صدی کے اختتام تک یوروپینز یہاں مکمل قابض ہو گئے۔یہ دور مقامی لوگوں پر بہت کڑا تھا انہیں مٹانے اور نیست و نابود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔

                ”ان لوگوں کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کے جانوروں کی طرح کھونٹوں سے باندھ دیا گیا، عورتوں کو ریپ کر کے انہیں قتل کر دیا جاتا۔ بہت سی تصاویر گواہ ہیں کہ کس طرح انڈینز سر سے پیر تک موٹی موٹی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور نو آبادیاتی آقاؤں نے ان زنجیروں کو پکڑا ہوا ہے۔ تسلط کاروں کے پاس ہتھیاربھی تھا اور وہ ذرائع بھی رکھتے تھے جس کے ذریعہ عوام کی سوچ پر اثرانداز ہو سکیں لہذا ان کے بارے میں بڑے وثوق سے بارہا یہ اعلان کیا گیا کہ یہ جنگلی جانور ہر طرح کی انسانی صلاحیت سے محروم ہیں۔ یہ جانوروں کی طرح بولنا نہیں جانتے کیونکہ قدرت نے انہیں انسانوں والی یہ صفت دی ہی نہیں۔ مسیحی مشنری ان اعلانات میں اور ان یقین دہانیوں میں پیش پیش تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ قدرت کے عذاب کے مستحق جانور ہیں جن کے لیے بیماری کی صورت میں عذاب اتر رہا ہے یہ جنگلی بہت جلد اپنی موت آپ مر جائیں گے“

کتاب کا یہ حصہ دردناک تفصیلات اور واقعات پر مشتمل ہے۔ حیران ہوں نسیم نے کیسے جی کڑا کیا ہو گا ان تفصیلات کے کھوجنے اور پھر انہیں کاغذ پر اتارنے کے لیے بہت حوصلے کی ضرورت ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب کسی طرح سے مقامی باشندوں کے وجود کو ختم نہ کیا جا سکا تو ایک اور منصوبہ بنایا گیا جس کے تحت بچوں کو ماں باپ سے چھین کر زبردستی بورڈنگ ہاؤس میں رکھ کر ان کی برین واشنگ کی جاتی۔ان سے ان کی زبان، اقدار، تہذیب سب چھین لیے جاتے مردوں کو کھیتوں اور عورتوں کو گھروں کے کاموں پر مامور کر دیا جاتا۔ ان کے شہری حقوق مکمل طور پر غصب کر لیے جاتے۔

ظلم اور جبر کی طاقت ایک بڑی حقیقت سہی لیکن ایک طاقت سہنے والے کے ہاں بھی پائی جاتی ہے۔

”وہ بچے جنہوں نے دس اور بارہ سال ان سکولوں میں بغیر اپنے ماں باپ سے ملے گزارے اور انڈینزسے انسان بننے کے عمل میں جس تشدد سے گزرے جو ویرانہ اپنے اندر سمیٹا اس کا گواہ حقیقی باشندوں کا فکشن، ان کی شاعری اور ان کے مضامین ہیں“

”ماں زمیں پر بیٹھی

ہچکیوں سے رو رہی ہے

پھر وہ اچانک اٹھتی ہے

اور نوکیلے بوٹ والوں

کے پیروں سے لپٹ جاتی ہے

نوکیلے بوٹ والوں نے

اس کے سر پہ زور کی ٹھوکر لگائی

وہ مجھے اور میرے بھائی کو

گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے ہیں

میری آنکھوں میں گیلی لکڑیاں جل رہی ہیں“

کتاب کا دوسرا حصہ ایسی ہی دل چیر دینے والی نظموں کے تراجم پر مشتمل ہے۔ نسیم کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے شاعری کا ترجمہ شاعری میں ہی کیا ہے۔ نظموں کی اصل روح ان کی کیفیت کو ان تراجم کے ذریعے باآسانی گرفت میں لیا جا سکتا ہے۔ یہ کام بہرحال مشکل ہے اور میرے حساب سے نسیم ہی اسے انجام دے سکتی تھیں۔ یہ تراجم گویا کنجی ہیں اور جب یہ در واہوتا ہے ہم اپنے آپ کو اسی جہان میں موجود محسوس کرتے ہیں۔ان رنجوں ہزیمتوں اور تکلیفوں کو سہتے اپنے جسموں کوملغوبے میں بدلتے دیکھتے ہیں۔یہ نظمیں خود کو بار بار پڑھوانے پر مکمل قدرت رکھتی ہیں۔ شاعری بھی کیسی طاقتور چیز ہے۔ گو کہ کتاب کے پہلے حصے میں موجود نثر ہمیں اس دور کی مکمل معلومات فراہم کرتی ہے لیکن یہ نظمیں جیسے ہاتھ پکڑ کر ان موسموں کے حوالے کر دیتی ہیں۔

”حالانکہ اس سفید گیٹ کے اندر سوائے سفیدالنسل کے

کوئی داخل نہیں ہو سکتا

مگر تم کو داخل ہونا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہاری سانسیں ٹوٹ رہی ہیں

مگر یاد رہے کہ تمہاری انگلی میں

تمہاری ماں کی انگوٹھی ہے“

بہت سی نظمیں اس تسلط سے پہلے کے زمانوں کی بھی ہیں۔ ان ساری نظموں میں ایک نظم ایسی بھی ہے کہ جب میں اس تک پہنچی کافی دیر تک میرا جی یہیں رکا رہا۔ ایسی روانی ایسی چابکدستی۔ آپ بھول ہی جاتے ہیں کہ یہ کوئی ترجمہ ہے۔ مجھے لگا نسیم یہ نظم ترجمہ کرنے کو یقینا کسی اور قالب میں جا بیٹھی ہیں:

”سفید نازک پروں کے جیسی

یہ برف والی زمین پیروں تلے ہیمیرے

اک عمر سے اس پہ چل رہا ہوں

مگر مجھے ایسا لگ رہا ہے

زمین پیروں تلے نہیں ہے

یہ گنگناتا حسین دریا

یہ میرے مشکیزے اک زمانے سے بھر رہا ہے

مگر میں پیاسا ہوں

پیاس سے جسم جل رہا ہے

حسین و نازک مری منگیتر

میں اس سے ملتا ہوں روز۔۔۔۔ لیکن

نہ جانے کیوں مجھ کو لگ رہا ہے

کہ جیسے وہ ہے۔۔۔۔

مگر نہیں ہے!۔

میرا اور اس کتاب کا ساتھ کوئی ڈیڑہ برس پرانا ہو چلا ہے۔ اس دوران میں نے اسے چار مرتبہ پڑھ ڈالا ہے۔ اور ہر مرتبہ یہ مجھے بہا لے گئی ہے۔ ایسی کتابیں کم کم لکھی جاتی ہیں۔ انہیں شیلفوں میں بند نہیں رہنا چاہیے۔ اگر کسی طرح ہاتھ لگے تو ضرور پڑھیے۔ آپ کے جی سے بھی یہی دعا نکلے گی کہ سلامت رہیں ایسے زمانے دہرانے والے اور تاریخ کی پراسرارگہرائیوں سے سچائی کے موتی ڈھونڈ لانے والے۔۔

 

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *