Home » پوھوزانت » ادب اور طبقاتی جدوجہد ۔۔۔ جاوید اختر

ادب اور طبقاتی جدوجہد ۔۔۔ جاوید اختر

                ادب صرف ذریعہ تفریح ہی نہیں بلکہ معاشرے میں طبقاتی سٹرگل کو آگے بڑھانے، انسانی اقدارکو فروغ دینے اور معاشرتی تبدیلی لانے کا بہت بڑا وسیلہ بھی ہے۔ جمالیات میں طبقاتی جدوجہد کی کہانی رہا ہے۔ جب ہم عالمی ادب کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں دو قسم کاادب ہر دو ر میں ایک دوسرے کے مد مقابل دکھائی دیتا ہے۔ عوام دشمن ادب اور عوام دوست ادب۔ یونان میں غلام داری کے زمانے میں جہاں اسکائلس اور سوفوکلیز پیریکلیزکے شاہی دربار میں بیٹھ کر تقدیر پرستی کے فلسفے کو رواج دے کر اپنے ڈراموں میں بادشاہت اور غلام داری کاجواز پیش کررہے تھے۔ وہاں یوری پیڈیز اپنے ڈراموں میں غلاموں اور عورتوں کی نجات کی بات کررہا تھا۔ وہ اپنے ہم عصر ڈرامہ نگاروں کے برعکس جنگ مخالفت کرکے امن، محبت اور آشتی کا پرچار کررہا تھا۔

                  جب ہم نشاۃ ثانیہ کے زمانے میں یورپی ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہاں بھی دوقسم کے ادب باہمدگر برسر پیکار دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف رومن کیتھولک کلیسا اور شاہی دربار میں پیدا ہونے والا عوام دشمن ادب اور دوسری طرف عوام دوست ادب۔ اول الذکر ادب فرسودہ جاگیرداری، بادشاہت اور رومن کیتھولک کلیسا کی نمائندگی کررہا تھا۔ جب کہ موخر الذکر ادب جاگیرداری، کلیسائی حاکمیت، مطلق العنان بادشاہت اور فرسودہ سوچ کی مخالفت کررہا تھا۔ جس کے تحت بوکیشیو، دانتے، اراسمس، کیکسٹن اور کئی دیگر ادیب اور شاعر دقیانوسی کیتھولک سوچ اور جاگیرداری کو چیلنج کررہے تھے۔ اور نئی فکر، نئے سرمایہ دارانہ نظام کی بات کررہے تھے، جس کی پاداش میں انہیں بہت سی قربانیاں بھی دینی پڑیں۔

                انگلستان میں 1688ء میں جب شان دار انقلاب برپا ہوا تو جیمز دوم کی بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا اور کرامویل کی رہنمائی میں بورژوا جمہوری پارلیمنٹ کو فتح حاصل ہوئی۔ اس وقت جہاں بہت سے ادیب اور شاعر مطلق العنان بادشاہت کی بحالی کے لیے لکھ رہے تھے، وہاں جان ملٹن جمہوریت اور عوام کے حقوق کے لیے قلمی جدوجہد میں مصروف تھا۔ اسی طرح امریکی قومی جمہوری انقلاب کے زمانے میں ٹامس پین، جیفر سن، بینجمن فرینکلن اور کئی دیگر دانشوروں کی برطانوی سامراج کے خلاف اور امریکی قومی آزادی کے لیے قلمی جدوجہد عالمی عوامی ادب کا ورثہ ہے۔

                انقلاب فرانس کی حمایت میں دیدرو، مونٹیسکو، والٹئر، ولیم گوڈوین اوراس کے ساتھیوں کی قلمی کاوشیں بھی عوامی ادب کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ نپولین کے عروج کے زمانے میں جہاں فوسکولو ”نپولین بونا پاٹ بحیثیت نجات دہندہ“ ایسے قصیدے لکھ رہا تھا، وہان وکٹر ہیوگو اسے نپولین پستہ قامت کہہ کر اس کی ہجو گوئی کررہا تھا، اسی زمانے میں ایمل زولا نے “I Accuse You” نامی کتابچہ لکھ کر اس کی فوجی حکومت پر کڑی تنقید کی۔ اناطول فرانس،فلابیراور بالزاک نے بھی یہی کچھ کیا۔ 1871ء میں پیرس کمیون کے قیام کے وقت یوگینی پوئٹے نے ”انٹرنیشنل“ نامی ترانہ لکھ کر دنیا بھر کے محنت کشوں کو عالمی ترانے سے نوازا۔ پیرس کمیون کے دفاع کے لیے بہت سے ادیبوں کی ناقابل فراموش قربانیوں سے تاریخ کے اوراق سرخ ہیں۔

۔1825ء میں روس کی دسمبر سٹ تحریک سے وابستہ پشکن، کرائیلوف، لرمٹوف اور کئی دیگر شاعروں اور ادیبوں کی قلمی جدوجہد جاگیرداری اور زار شاہی اور روسی آرتھوڈکس کلیسا کے خلاف عوامی جدوجہد کا سنہری باب ہے۔ پشکن نے ”کپتان کی بیٹی“ ایسا ناول لکھ کر پغاچوف کی سربراہی میں جاگیرداری اور زار شاہی کے خلاف کسانوں کی بغاوت کو روسی انقلاب کا سنگ میل بنا دیا۔ اسی طرح لرمنٹوف نے “A Hero of Our Time” ایسا ناول لکھ کر روسی عوام کو رومانوی ولولہ فراہم کیا۔ انیسویں صدی میں 1861ء میں اصلاحات کے زمانے میں بیلسنکی، چرنی شوفسکی،ڈوبریلوف، گوگول،چیخوف ترگنیف، ہرزن،لیوٹالسٹائی اور گونچا روف کی عوام دوست تحریریں جاگیرداری اور زار حکومت کے لیے مسلسل خطرہ بنی رہیں۔

                جنگ عظیم اول کے دوران فرانسیسی ادیب ہنری باربسے کے دو ناولوں ”زیر آتش“ اور ”روشنائی“ نے سامراجی جنگ کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ جنہوں نے یورپی عوام پر واضح کردیا کہ یہ جنگ سامراجی قوتوں کی باہمی جنگ ہے۔ جس میں عوام مفت میں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اسی طرح امریکی ادیب اوپٹان سنکلئیر کے ناول ”جمی ہنگنز“ نے بھی یہی پیغام دیا۔

                جنگ عظیم اول کے زمانے میں ہمارے ہاں رحم علی مری نے برطانوی فوج میں بلوچوں کی جبری بھرتی کے خلاف خوب صورت  مزاحمتی نظمیں لکھ کر برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی۔ اس سے ذرا پہلے گدو ڈوم نے بھی یہی کیا۔ اورملا مزار بدوزئی نے چار زبانوں میں ”لاٹ ئے بگھی“ کے عنوان سے نظم لکھ کر برطانوی سامراج اور اس کے کاسہ لیس سرداروں پر کڑی تنقید کی تھی۔ یوسف عزیز مگسی کی تحریک نے بھی قلمی اور عملی طور پر اس فریضے کو اپنا وطیرہ بنایا۔

۔1905ء تا1908ء ایران میں تمباکو احتجاج کی تحریک ہو یا مشروطیت کی تحریک ہو،یا تودہ تحریک قا چاری عہد سے لے کر خمینی عہد تک ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی عوامی حقوق، خواتین کے حقوق اور قومی حقوق کے لیے قلمی جدوجہد اور بے شمار قربانیاں قابل ذکر ہیں۔ ادیب پیشاوری،ملک الشعراء بہار، ایرج مرزا، عشقی، عارف قزوینی، ابو القاسم لاہوتی، صادق ہدایت اور کئی دیگر ایرانی دانشوروں نے کیا ستم تھے جو نہیں سہے لیکن وہ عوام کے حقوق کی نمائندگی سے ہر گز باز نہیں آئے۔

۔1905ء کے ناکام روسی انقلاب سے لیکر اکتوبر 1917ء کے بالشویک انقلاب تک اور اس کے بعد میکسم گورکی، مایا کوفسکی، ایلیا اہرنبرگ،شولوخوف فیدن، لونا چارسکی اور کئی دیگر روسی ادیبوں اور دانشوروں کی ادبی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔

                اسی طرح شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی سب سے بڑی تاریخی قربانی اور جدوجہد 1930ء کے انقلاب سپین کے وقت دیکھی جاسکتی ہے۔ جب فاشسٹ جنرل فرانکو نے سوشلسٹ انقلاب کو سبوتاژ کرکے فوجی حکومت قائم کردی تو دنیا بھر کے دانشوروں نے اس کے خلاف انٹرنیشنل برگیڈ بنایا، جس میں ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے قلم کے ساتھ ساتھ بندوقیں بھی سنبھال لیں اور کئی ایک نے جن میں جان کارنفورڈ،رالف فاکس، لوئی کلائیو، جولین بل اور کرسٹو فر کاڈویل نے اپنی قیمتی جانون کا نذرانہ بھی پیش کیا۔

                برصغیر میں برطانوی عہد میں ترقی پسند تحریک کے اراکین نے برطانوی سامراجیت، جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف عوام دوست ترقی پسند ادب پیدا کیا۔ پھر تقسیم ہند کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ظہیر کاشمیری، حبیب جالب، گل خان نصیر، ماما عبد اللہ جان جمالدینی، آزات جمالدینی، ڈاکٹر خدائے داد، بابو عبد الرحمن کرد، نادر قمبرانی اور کئی دیگر نے اس تحریک کی مشعل جلائے رکھی۔ ان دانشوروں میں سے کئی ایسے بھی ہیں، جنہوں نے طویل مدتوں تک قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں۔ ساہیوال جیل اور قلی کیمپ سے مچھ جیل تک اس بات کی شاہد ہیں کہ انہوں نے کتنی جسمانی اور ذہنی ایذائیں بھگتی ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے دوران ادیبوں اور دانشوروں کی فاشزم کے خلاف اور اب تک عالمی سرمایہ داری کے خلاف ان کی یہ جدوجہد جاری ہے،جو قابل ذکر ہے۔

                عالمی ادب کے اس اجمالی اور سرسری جائزے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ ہر دور میں دو قسم کا ادب باہم دست و گریبان رہا ہے۔ ابھی تک تیسری قسم کا ادب بنی نوع انسان نے پیدا نہیں کیا ہے۔ لیکن ادب برائے ادب، وجودیت، جدیدیت، اور مابعد جدیدیت کے داعی غیر جانبداری اورمعاشرتی مسائل سے لاتعلقی کا دعویٰ کرکے خود کو تیسری قسم کے ادیب کہتے رہے ہیں۔ حالاں کہ غیر جانبداری کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا ادب بھی عوام دشمن ادب کے زمرے میں آتا ہے کیوں کہ وہ سماج میں عوام دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے۔ ایسا ادب خالی اور کھوکھلی لفاظی اور بے مواد و بے معنی تشبیہات و استعارات پر مبنی ہوتا ہے۔ جیسا کہ بقول شکیب جلالی۔ ”چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دوکان میں“ کا مترادف ہوتا ہے۔ عوام سے دوری ایسے ادب کو اس کے لفظ و معانی کے رشتوں سے کاٹ کر بے مغز، مہمل و مبہم بنادیتی ہے۔ ہر چند کہ ایسے ادیب و شاعر ابہام و امہال کو کمال فن سمجھتے ہیں اور دیکھا جائے تو ابہام اظہار و ابلاغ کی کمی اور ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔

         ایسے ادیب و شاعر سرکار، دربار اور سردار کی جانب سے مزین ہر جلسے، مشاعرے اور مذاکرے میں مہمان خصوصی کی مسندوں پر براجمان دیکھتے جاتے ہیں۔ وہ ہر تنظیم کے رکن ہوتے ہیں حالاں کہ ان میں سے کسی کے بھی وفادار نہیں ہوتے۔

                سنگت اکیڈمی آف سائنسز ایسے ادب کو عوام کی طبقاتی جدوجہد کے لیے خطرناک اور زہر ہلاہل سمجھتی ہے کیوں کہ وہ عوامی ادب میں یقین رکھتی ہے۔ کیوں کہ یہ پوری پیڈیز کی طبقاتی جدوجہد سے لے کر آج تک جاری طبقاتی جدوجہد کی تحریکوں کا تسلسل ہے۔ لہٰذا یہ عوامی ادب کو گزشتہ تین عشروں سے فروغ دے رہی ہے اور اس طرح یہ عالمی و قومی ادبی ورثے کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کی وہ امین ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *