Home » پوھوزانت » نفسیاتی مرض، ڈپریشن ۔۔۔ ڈاکٹر مبین اختر میر وانی

نفسیاتی مرض، ڈپریشن ۔۔۔ ڈاکٹر مبین اختر میر وانی

                نفسیات  ایک ایسی سائنس ہے جس میں انسان کے دماغ، ذہن، خیالات، احساسات، کردار اور اس سے سرزد ہونے والے مختلف افعال پر بحث کی جاتی ہے۔

                 دماغ کو انسانی جسم کے اعضاء کا سرتاج کہا جاتا ہے جو جسم کے تمام اعضاء کو کنٹرول کرتا ہے۔ انسانی سوچ سے لے کر جسمانی مشقت تک تمام افعال دماغ کے مرہون منت ہیں یعنی دنیا کا سارا کا روبار سائنس کی ترقی  و ایجادات سب دماغ ہی کے مرہون منت ہیں۔ اگر انسان کا دماغ کمزور ہوجائے تو اعصابی یا نفسیاتی ہی نہیں جسمانی بیماریاں بھی جڑ پکڑنے لگتی ہیں۔

                 جس معاشرے میں معاشی ناہموار یاں، تحفظ کی کمی اور عدم برداشت جیسی کیفیات پیدا ہوجائیں ایسے معاشروں میں شعبہ نفسیات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

                 ویسے دیکھا جائے تو ہمارا پورا معاشرہ نفسیاتی بیماریوں کی زد میں ہے اور مہنگائی بے روزگاری کے زد میں ہے۔اور شعبہ صحت کی زبوں حالی نے ہر دوسرے، تیسرے شخص کو ڈپریشن یا Anxiety(بے چینی) کا شکارکر دیا ہے۔

                 بنیادی طور پر نفسیاتی بیماریوں کو دوحصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 1سائیکوسس جس میں انسان حقیقی دنیا سے دور ہوتا ہے جیسے عام زبان میں پاگل کہتے ہیں جو نفسیاتی بیماریوں کا صرف ایک فیصد ہوتے ہیں۔ مثلاً شیزو فرینیا.

۔2۔ نیوروسس جس میں انسان حقیقی دنیا سے جڑا ہوا ہوتا ہے اور 99فیصد نفسیاتی بیماریاں اسی میں آتے ہیں جن میں پاگل پن نہیں ہوتا ہے مثلاً ڈپریشن اور Anxiety۔

۔ 99فی صد نفسیاتی بیماریوں میں کوئی پاگل پن نہیں ہوتا یہ کسی نارمل انسان کو بھی ہوسکتے ہیں اور انہیں علاج کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

                 نفسیاتی بیماریوں میں ڈپریشن اور Anxiety سب سے زیادہ تشخص ہونے ولے مرض ہیں اور ذہنی معذوری میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ یوں تو کبھی کبھی ہر شخص اداس اور غمگین ہوجاتا ہے لیکن جذبات کی یہ کیفیت اگر کافی دن رہے اور اس کے ساتھ احساس جرم بھی ہو تو یہ ڈپریشن کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔

                 ڈپریشن کے اکثر مریضوں کو توجہ مرکوز کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ چڑ چڑا پن، نا اُمیدی، بیچارگی، بے یارو مدد گار ہونے کی کیفیت اور اپنے کو قصور وار سمجھنے کی حالت اس میں شامل ہیں۔ حتیٰ کہ خودکشی کے خیالات بھی ذہن میں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ چونکہ ڈپریشن پورے جسم کی بیماری ہے اس لیے جسم میں اور مرض بھی لاحق ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ جیسے کہ کچھ لوگوں کی بھوک اُڑ جاتی ہے۔ کچھ کاوزن بڑھ جاتا ہے، بعض لوگوں کو جسم کی طاقت ختم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، جس سے اِن کے تمام حرکات میں سستی اور آہستگی آجاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ چڑ چڑا پن اور پریشانی میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔اکثر کو رات کو سونے میں مشکل پیش آتی ہے۔ پھر بہت ہی صبح آنکھ کھل جاتی ہے۔ اور دوبارہ نیند نہیں آتی۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر وقت سوتے رہنا چاہتے ہیں۔

                 ڈپریشن دو مخصوص وجوہات کی وجہ سے زیادہ پھیلتا ہے۔

۔1معاشی عدم توازن

۔2تعلقات میں فاصلہ

                ڈپریشن دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 1990میں ڈپریشن دنیا کے امراض میں دسویں نمبر پر تھا۔ 2006میں یہ چوتھے نمبر پر آگیا تھا۔اور2020میں یہ دوسرے نمبر پر ہوگا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ مرض کتنی تیزی سے دل، شوگر اور کینسر جیسے موذی امراض کے مقابلے میں زیادہ تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے 44فی صد لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ 15سے 29سال کی عمر کے لوگوں میں اس کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عام طو رپر 10فی صد ڈپریشن کے مریض خودکشی کر لیتے ہیں۔یہ ہر سال، ہر عمر کے لوگوں کے لیے عالمی سطح پر خودکشی، اموات کی 20اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔اس وجہ کی بنا پر خودکشی عالمی سطح پر ایک انتہائی سنجیدہ اور اہم مسئلہ ہے۔ خودکشی اور خود سوزی ایسے مسائل ہیں جن کے ساتھ بہت سارے نفسیاتی ومعاشرتی عناصر جڑے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ غربت وافلاس، بے روزگاری، مالی مسائل، باہمی جھگڑے اور آپسی تنازعات، تعلقات میں مشکلات،بچپن میں کسی قسم کی زیادتی یا کسی غفلت کا شکار یا پھر امتحانات کا دباؤ اور فیل ہوجانے کا خوف وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ موذی جسمانی بیماریاں جیسا کہ کینسر، ایڈز و غیرہ اور نفسیاتی محرکات مثلاً مایوسی، نا اہلیت یا منفی سوچ کا ہونا بھی اس میں شامل ہے۔

                 ڈپریشن کی طرح بعض اوقات انسان بے چینی کا بھی شکار ہوجاتا ہے جسے ”Anxiety“ کہا جاتا ہے  بے چینی ایک قدرتی جذبہ ہے لیکن اگر حد سے زیادہ بڑھ جائے تو ہماری زندگی پر اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ اس کی نمایاں خصوصیات میں ذہنی تناؤ محسوس ہونا،پریشان کن خیالات اور جسمانی تبدیلیاں جیسے کہ بلڈپریشر کا بڑھنا، پسینہ آنا، کپکپاہٹ یا دل کی دھڑکن کا تیز ہونا، ایسا محسوس ہونا جیسے کہ دل کا دورہ پڑ رہا ہے۔ وغیرہ شامل ہیں۔بے چینی کی شکایات بہت عام ہیں جو کہ بہت پریشان کن ہوسکتی ہیں۔ یہ کیفیات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں زیادہ پائی جاتی ہیں جہاں مناسب تعاون اور علاج تک رسائی کاآسانی سے نہ ملنا، معاشرتی عقائد، اور ذہنی صحت کے مسائل سے جڑی بدنامی لوگوں کو مدد حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سب ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہیں۔ لوگوں کو اپنے نفسیاتی بیماریوں کے لیے مدد حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔

                اگر ہم چاہتے ہیں کہ اداسی اور پریشانی کے بوجھ کو کم کیا جائے تو پھر اس سے جڑی علامات اور وجوہات کی مکمل آگاہی ضروری ہے۔

                 ہمارے معاشرے کا ہر فرد ایسے مریض کی بحالی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ وہ ایسے کہ اُس کی بات مکمل تو جہ سے سنیں۔ اکثر اوقات ڈپریشن اور  Anxietyکے مریض اتنی سی بات سے ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں جب کوئی ان کی بات پوری توجہ سے سنتا ہے۔

                ایسے مریضوں پر الزام تراشی یا تنقید ہر گز نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس سے ان کی حالت اور خراب ہوسکتی ہے۔ بس ان کو اپنے مسائل حل کرنے میں آہستہ آہستہ ان کی رہنمائی کریں۔ اور ایسے مریضوں کی کام یا تعلیم کی طرف لوٹنے میں ان کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ وہ اپنے ارد گرد میں دلچسپی لے اور کچھ نہ کچھ مصروفیتیں اختیار کرے مثلاً روز مرہ کا کام، ہلکی ورزش اور سیرو غیرہ۔

                 اس کے علاوہ میڈیسن اور سائیکو تھراپی (باتوں) کے ذریعے سے علاج کروایا جاتا ہے۔ جن کے لیے ماہر نفسیات کے ہاں رجوع کر کے مدد لی جاسکتی ہے۔

                 عالمی ادارہ صحت (WHO) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کیا گیاکہ کسی بھی معاشرے میں موجود دس ہزار ذہنی مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر کا ہونا بے حد ضروری ہے۔اگر اپنی اعداد و شمار کا پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو یہاں  لاکھوں ذہنی مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر دستیاب ہو تو غنیمت تصور کیا جاتا ہے۔

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *