Home » پوھوزانت » عطا سے بات کرو ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

عطا سے بات کرو ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

فروری ہے زمستان ہے، برف باری ہے، وشت وبیاباں، کو وہ صحرا، شاشان برسی کے موقع پر بولان و چلتن کی زیبائی ہے دل کی عطا گہرائی ہے، سنگانی سر کے سر، بولان وچلتن کے عاشق کو بے خودی میں پکارے جارہے ہیں، کہ رگ جان میں اُترگیا ہو جیسے، ہر در دووا بن گیا ہو جیسے کہ تم کبھی جدا ہوئے ہی نہیں، کبھی بچھڑے ہی نہیں۔

عطا شاد دل میں کتنے دکھ درد تکلیف لیے شاد رہے آباد رہے۔ دل پہ ”بندن کا دارے“ سر سبز و شاداب رہے۔ دیکھنے میں عطا سے زیادہ شاد تھے اور شاد سے زیادہ عطا دکھائی دیتے تھے اور تھے ہی عطا۔ اس لیے ہم عطا کو شاد سے اور شاد کو عطا سے جدا کر ہی نہیں سکتے۔ عطا کاش تجھے اپنی زندگی کی خوبصورتی کا خود پتہ ہوتا۔ خود کو قطرے میں دیکھ پاتے، خواب ہوئے اور سب کو بیدار کیا، خود پتہ ہوتا، خود میں رہے ساری زندگی، پکارتے رہے، گاتے رہے، لکھتے رہے، شعورو آگہی وطن سے عشق و محبت اور اپنی مٹی کی خوبصورتی میں ڈھل گئے۔ دل کو نشانہ بننے نہیں دیا اور دل کو ہمیشہ نشانے پر رکھا۔ دلربا بھی رہے تو حسینوں کی طرح۔ ہم عطا سے ملے، بیٹھے کاش کہ اُس کا جلوہ بھی دیکھ پاتے ہم عطا کے نہ رہے اور عطا ہمارا نہ رہا دل، دماغ، صحراؤں، ریگستانوں میں بھٹکتا رہا۔ عطا کی شاعری جانے اور سمجھنے والی شاعری ہے، عطا کا شمار لمحاتی شاعروں میں نہیں ہوتا۔۔۔

”سوچوں تو شعاعوں سے تراشوں تیرا پیکر چھولوں تو وہی برف کا انسان ہی رہ جائے گا“

پروفیسر مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں،”عطا شاد کی شاعری لکھنواور  دہلی دونوں جگہوں کا حسن رکھتی ہے۔ اتنی تازہ، نرم، لمس اور نئے عہد کیلئے گوش برآواز شاعری، اتنی دور ہونے کے باوجود دلی اور لکھنو کے اتنے قریب ہے یہ دوسری عجیب بات ہے  جو مجھے عطا شاد کے ہاں ملی زبان اور بیان کا استادانہ صرف ان کی نظموں میں ہے اور غزلوں میں بھی“۔ کلاس کے اُستاد نے محمد اسحاق کو عطا محمد اور عطا محمد نے شاعری کی دنیا میں خود کو عطا شاد سے متعارف کروایا، عطا شاد کی شاعری میں صحرا، زمین، تنہائی، آفتاب، مہتاب،عشق، اذیت، لب، نشمین، زخم جیسے الفاظ بہت ملیں گے جس سے اُس کی حقیقی زندگی کے اور اق کا بخوبی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

مجھے یہ دکھ کہ مجھے عشق نے اذیت دی

مجھے  یہ غم کہ نہیں روح تک چھبن کا نشہ

شاعری کی دنیا میں بلوچی اور اردو شاعری میں بہت بڑا مقام حاصل کیا۔ آپ انتہائی ذہین تھے، ماضی میں کھوجانے کے بجائے حال میں رہتے تھے اور پوری زندگی حال ہی میں گزار دی مستقبل کا کبھی نہیں سوچا، کیوں آپ رنگ، نسل، ذات اور مذہب سے بالا تر ہو کر انسان کیلئے سوچتے تھے، خواہشات خواب کی مانند تھیں اور خود خواب ہوئے ہمیں بیدار کیا خود حال میں رہے اور نوجوانوں کو مستقبل کی راہ دکھائی۔ عطا شاد کی شاعری کا ایک پہلو اپنی زمین اپنے وطن سے محبت اور عشق کا ہے جو انہوں نے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے، ان کی سوچ اور فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عطا شاد ایک عجیب شخص جو صحراء میں کھو گیا، آفتاب ہوا مہتاب بن کر چھا گیا دلوں میں۔ مشکل اور کٹھن حالات میں بھی یکساں انسان تھے، ہمت حوصلہ کے ساتھ جہاں آسمان بھی جھک گیا وہاں عطا شاد چلتا رہا، بادل بن کر گرجتا رہا،بارش بن کر برستا رہا، وفا کی، وفا کی چاہت کبھی نہ کی۔ آپ رواجوں سے بالاتر ہوکر لکھتے رہے۔ اپنی آنکھوں میں کسی کے دل کو  بسائے ہوئے خود کو سزا اور جزا کیلئے پیش کرتے رہے۔عطا شاد کتنی بڑی شخصیت کتنے بڑے شاعر اور اُتنا ہی بے ضرر انسان ہر محفل میں ہر جلوے میں جلوہ گر، دل کو پلکوں پر بٹھا کر خود کو سزا دیتے رہے۔

عطا شاد کی مستانہ نگاہوں نے ہمیشہ اُن کے دل کی عکاسی کی ہے۔ خود کو دل سے قریب، آئینے سے دور، شمع کی مانند پروانے کی طرح جلتے رہے۔ کوئٹہ کی سڑکوں سے لے کر ادارہ ثقافت تک بلدیہ ہوٹل سے لے کر بلوچی دنیا کے دفتر تک جہاں نظر دوڑائے عطا شاد کو پاتے، فقیر انہ زندگی اور فقیری مزاج، کرب سے گزرے کرامات سے پہلے۔ کرامات کے اس شاعر کے مطلق بیرم غوری لکھتے ہیں:

”ہم کو جلنا تھا کسی اور سحر کی خاطر

ہم کو منظور تھا کب تیز ہوا سے بجھنا

وقت سے پہلے ہی تبدیل کیسے ہیں موسم

دل کے بالے کو بھی تھا تیری عطا سے بجھنا

فیض احمد فیض سے لے کر پروین شاکر تک سب کے قریب رہے۔ عطاؔ ایک انٹرویو میں پروین شاکر سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے سکول کے زمانے میں شاعری شروع کی۔ اس وقت مکران میں ایک ہی سکول تھا۔ شہر میں آیا تو اس شوق کو آسانی سے آگے بڑھایا، ابتدا میں اُردو شاعری کی۔ کالج کے زمانے میں بلوچی زبان کا مطالعہ کرنے کے بعد بلوچی شاعری شروع کی۔ عطا شاد کہتے ہیں ”یہ سوچا نہیں جاتا شاعری کس زبان میں کی جانی چاہیے۔ یہ فیصلہ تو لمحہ اور inspirationہی متعین کرتا ہے۔

عطاشادکہتے ہیں شاعر بننے کا جو تسلسل ہے اس دوران میں یقیناinspireرہا ہوں۔ شاعر کی ایک رُو، ایک خواب، ایک مشق ہے۔ زبان کا بولنا کافی نہیں شاعری کیلئے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابتداء میں شاعری میرا شوق تھا، اب لفظ میرے اندر رچ بس کر میرے inspirationکا حصہ بن گئے ہیں۔ عبدالکریم بریالے عطاشادؔ کے متعلق لکھتے ہیں ”عطا شاد اُردو شاعری میں بلوچستان کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتے ہیں، کرب کے اس سفرمیں انہوں نے اُردو شاعری کے جوپیکر تراشے ہیں اور اس نگار خانے کو درد، آلام طلب، درد ناک پکار، احتجاج اور زمستان کی برفاب آلود فضاؤں کو داخلی آگ کی جس تپش سے گرم کیا ہوا ہے وہ ایک ابدی استعارہ ہے جو پہاڑوں کی طرح سدا جاگ رہا ہے، چشمے کی طرح صاف اور جھرنے کی مانند زور شور سے زندہ اور پیاسی نگاہوں کی طرح اُمید سراب کی ابدی طلب سے ”سنگاب“ بنادیا ہے جس سے اُردو شاعری میں یہ آواز زندہ رہے گی۔

گھر کے باہر ہے زمستان، بہت سردی ہے

یہیں رہ جاؤ میری جان! بہت سردی ہے

عطاشادؔ بہت بلند پایہ کے شاعر، ”بہت درد نکلے بہت پاس ہوکر“ یہ عطا شاد ہی تھے جنہوں نے خوشبو کو بھی چھو کر دیکھامٹھی میں کرنین سمیٹیں بو سے لئے چاندنی کے سورج میں سائے کو دیکھاہوا سے گفتگو بھی کی صداؤں کا ہر روپ دیکھا رنگ کا عکس دیکھا عکس کا رنگ پہناقطرے میں دجلے کو دیکھا اور جلے میں قطرہ نہ پایاخود کو نہ سوچا نہ دیکھا

تجھو کو ہر زاویہ سے جذب نظرکروں

اپنی تکمیل کروں تجھ کو مکمل دیکھوں

عطاء شاد ہمیں مکمل دکھانا چاہتا تھا شاید اُس کی آواز تھی اس عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ اپنی تکمیل کر کے خود کو ادھورا چھوڑدیا۔ عطا شاد نے جو  لکھا جو کہا اُنہیں بہت پذایرئی ملی۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن عطاء شاد پر کام کتنا ہوا۔ اُن کا پورا کلام شائع ہوچکاہے۔ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اس Thought کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔عطاء شاد کے سچ کو عام لوگوں تک رسائی کی ضرورت ہے عطاء شاد کے بہت دوستوں نے اُن کیلئے لکھا ہے پروگرام ترتیب دئیے ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر جو کچھ عطا شاد کے حوالے سے اُنکی لکھی ہوئی نظموں غزلوں اور بہت کچھ جوانہوں نے ڈراموں کی شکل میں لکھا اُنہیں ترتیب دینے کی ضرورت ہے یکجا کرنے کی ضرورت ہے چھوٹے سے بڑے ادبی فورمز میں اُنہیں بحث کرنے کی ضرورت ہے ہمارے جو دانشور سال میں اکٹھا ہو کر اپنے محبوب اور محبت کرنیوالے شاعروں انسانوں اور عقیدت مندوں کے جس طرح دن مناتے ہیں۔ اُنہیں یکجا ہو کر ان رہنماؤں کے مشن اور جدوجہد کو ایک سمت دینا ہوگی۔ ایک ترتیب دینی ہوگی لائبریریوں کی شکل میں اسٹڈی سرکل کی شکل میں اور مختلف پروگراموں کے پلیٹ فارموں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس حقیقت، اُس فکر، سوچ، نظریہ کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس کا بہت فقدان ہے۔ کتنے لوگ ان سے واقف ہیں، عوام کا کتنا حصہ ان کی زندگی کے مطابق اور اُس سوچ اور خواب کے حوالے سے جو ان رہنماؤں نے اپنی قوم اور لوگوں کیلئے دیکھے، لکھے اور کیسے دکھ درد اور تکلیفیں برداشت کیں۔ لیکن قلم کی سیاہی کو ہمیشہ ہرا رکھا۔ عطاشاد ایک ایسا انسان جس سے ملنے کیلے ٹائم لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، وہ بہت شفیق طریقے سے ملتے، اور گپ شپ کرتے، آپ کو محسوس نہیں ہوتا آپ کتنے بڑے انسان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔

ہم نے زندگی میں ان کی قدر نہیں کی۔ جانے کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ ان کا قدو قامت کتنا ہے بے وقت کی موت نے عطا شاد کو ہمیشہ کیلئے امر کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”درد کی دھوپ میں صحراء کی طرح ساتھ رہے“

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *