Home » پوھوزانت » امان اللہ ایڈووکیٹ ۔۔۔ جمال الدین اچکزئی

امان اللہ ایڈووکیٹ ۔۔۔ جمال الدین اچکزئی

(حصہ سوئم)

امان اللہ خان کا نظریہ تھا کہ محکومیت اور مظلومیت کی حالت میں رہ کر سیاست میں حصہ نہ لینا گناہ کبیرہ ہے۔ اسی بنیاد پر سیاست ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا اور نوجوانی میں ہی لورالائی شہر میں لٹ خانہ کے طرز پر سیاسی اور نظریاتی کلچر کو نہ صرف متعارف کروایا بلکہ اسے خوب پروان چڑھایا۔ شروع میں اپنے گھر کے مہمان خانے (بیٹھک) میں دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ ملکر علمی سیاسی محافل اور مجالس شروع کئے اور اس طرح جب دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو دوستوں کے تعاون سے مختلف مقامات پر باقائدہ سٹڈی سرکل کا اہتمام کیا جہاں علمی سیاسی مباحثوں کے ساتھ ساتھ کتب بینی کو لورالائی میں خوب فروغ دیا۔

۔1984 کے ضیامارشلاکے دوران سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد پر انھیں گرفتار کیا گیا اور رہائی کے بعد گھر پہنچنے پر علم ہوا کہ  افغان مہاجرین ارگنا یزیشن میں ملازمت سے بھی ان کو  معطل کردیا گیا تھا۔ ضلع لورالائی کے ایڈمنسٹریٹر نے واشگاف الفاظ میں امان اللہ خان مرحوم کو بتایا کہ اس کو صرف اس شرط پردوبارہ بحال کیا جائے گا کہ وہ آئندہ کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں گے لیکن امان اللہ خان نے انکو جواب میں کہا کہ میں ایک تنخواہ کہ خاطر اپنے سیاسی نظریہ اور عمل سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور اس طرح ان کو اپنے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔

امان اللہ خان خود کو حالات حاضرہ سے مکمل طور پر اگاہ رکھتے۔ 1986 میں میں نے پہلی مرتبہ اس وقت کے امریکی خفیہ ادارے (سی آئی اے) کے سربراہ ویلیم کیسے کا نام ان سے سنا۔  مارکیٹ میں آنے والی ہر نئی کتاب خود خریدتے یا دوستوں سے لے کر اسکا مطالعہ کرتے تھے۔

اس زمانے میں جبکہ سرد جنگ عروج پر تھی اور سیاسی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہواتھا تو لورالائی کا عبدالرحیم خان کلب اور پبلک لائبریری سیاسی بحث مباحثوں کے اہم مراکز تھے اور امان اللہ خان دن رات یہاں موجود رہتے اور نوجونوں اور دیگر دوستوں کی زبردست ذہن سازی کرتے تھے۔

سٹڈی سرکل کا اتنا شوق تھا کہ جب بطور تحصیلدار ان کی پوسٹنگ بارکھان میں ہوئی تو انہوں نے وہاں پر بھی اپنی ملازمت کو بالا ئے تاک رکھ کر نوجونوں اور سیاسی کارکنوں کے لئے سٹڈی سرکل کا آغاز کیا۔

ایک مرتبہ جب میں ان کے ساتھ لورالائی سے بارکھان سفر کررہا تھا تو امان اللہ خان سڑک کے کنارے کھڑے لفٹ مانگنے والے غریب لوگوں کو اپنی سرکاری گاڑی میں سوار کرکے اپنی منزل پر پہنچاتے۔نہ کوئی پروٹوکول کی پروا تھی اور نہ افسری کا گھمنڈ۔

وکالت شروع کی تو تحصیل روڑ پر واقع ان کا چیمبر کسی طور لٹ خانہ اور ایک  اکیڈمی سے کم نہ تھا جہاں وہ دن رات علمی اور سیاسی مباحثوں میں مصروف رہتے اور ہمہ وقت لوگوں کی علمی اور سیاسی تربیت کے عمل میں مصروف رہتے۔ ان کے چیمبر میں کتابوں کا زبردست ذخیرہ موجود تھا اور تمام ملنے والوں کو کتاب پڑھنے کی ترغیب کرتے اور نئی کتابوں پر تبصرہ کے ساتھ ساتھ سیاسی اور علمی موضوعات زیر بحث لاتے۔ ہم اپنی علمی پیاس بجانے کی خاطر ان کے دفتر کا رخ کرتے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *