Home » پوھوزانت » امید ۔۔۔ شان گل

امید ۔۔۔ شان گل

لینن کا بڑا بھائی

      بہن بھائیوں میں آننا کے بعد دوسراسب سے بڑاالیگزنڈرتھا۔ پیار سے سب اُسے ساشا کہتے تھے۔ (پیدائش 1866)۔وہ لینن سے چار برس بڑا تھا۔محض چار سال کے فرق کا مطلب ہے کہ دونوں بچپن میں کھیل اور مشاغل کے ساتھی تھے۔ہاں البتہ بڑا والا یعنی ساشا ذرابڑے بھائی والی بزرگی دکھاتا،سُپیریئر تھا،ناں! ہیروٹائپ کا۔

                                لینن اپنے بھائی سے بہت پیار کرتا تھا۔ کروپسکا یا بتاتی ہے کہ دونوں میں کئی شوق مشترک تھے۔وہ دونوں اکھٹے رہتے تھے۔ وہ دونوں محنتی تھے اور انقلابی تھے (1)۔دونوں کو دیر تک تنہا سوچ و بچار کرنا اچھا لگتا تھا۔  اور جب ان کے کئی کزن لڑکے لڑکیوں میں سے کوئی آجاتا تو اِن بھائیوں کا محبوب فقرہ ہوتا تھا: ”ہماری غیر حاضری کے لیے ہمیں معاف کیجیے “۔  (2)۔

                واضح رہے کہ1869میں جب ان کے والد ایلیا کو سکول انسپکٹری کی نوکری ملی تھی تو وہ لوگ سِمبرسک منتقل ہوگئے تھے۔

                الیگزنڈر نے 1883میں گولڈ میڈل لے کر سکول کی تعلیم مکمل کی۔ یہ کمال کی بات ہے کہ سکول تعلیم میں نہ صرف الیگزنڈڑ نے گولڈ میڈل لیا، بلکہ اس دو بہنیں یعنی آنا اور اولگا بھی گولڈ میڈلسٹ تھیں۔خود لینن بھی گولڈ میڈلسٹ تھا۔

                 الیگزنڈر 1883 میں سینٹ پیٹرسبرگ یونیورسٹی میں میتھ او ر فزکس کے شعبوں میں داخل ہوا۔اس کی بہن آنا بھی وہاں ہسٹری اور فلاسفی پڑھنے اُس کے ساتھ گئی۔

                 وہ اور آنا سینٹ پیٹرسبرگ گئے تو والد نے ہر ایک کے لیے 40روبل ماہانہ مقرر کیے۔الیگزنڈر نے باپ کو بتادیا کہ اس کے لیے 30روبل کافی ہیں۔ مگر باپ اُسے 40روبل ہی بھیجتا رہا۔ الیگزنڈر نے کہا تو کچھ نہیں اس لیے کہ آنا محسوس کرتی مگر وہ خاموشی سے ماہانہ دس روبل بچاتا رہا۔ اور یوں،آٹھ ماہ بعد اس نے والد کو 80روبل واپس کر دیے (3)۔

                بادشاہ نے یونیورسٹی کے اندر سٹوڈنٹس پالٹکس پر پابندی لگارکھی تھی۔ چنانچہ سیاست زیر زمین ہوتی تھی۔ اُسی لیے وہاں کوئی متحدہ تنظیم یا لیڈر نہ تھا۔ طلبا اپنے اپنے علاقوں کے حوالے سے اُسی میں ایک حلقہ سا بنائے رکھتے تھے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔

                 اور یہی حلقے ڈسکشن گروپ کا روپ بھی دھارتے تھے۔ اور اُس زمانے میں بحث مباحثہ کا مرکز ”انقلاب“ تھا۔ کوئی کپٹلزم کے مرحلے میں سے گزرنے کو انقلاب کے لیے ضروری سمجھتا تھا،اور کوئی انقلاب کے لیے کسانوں پر امیدیں لگائے ہوئے تھا۔

                 الیگزنڈر سوشلزم تک پہنچنے کے لیے کپٹلزم کو ضروری سمجھتا تھا۔ مگر یہیں وہ دہشت کو بھی جائز سمجھنے لگا۔ اور یوں وہ ایک ریڈیکل نوجوان بنا۔ اس کی پہل کاری پر سٹوڈنٹس میں ایک سٹڈی سرکل قائم ہوا جس میں وہ کارل مارکس کا ”کپٹل“ اور زار بادشاہ کے روس کی سیاست اور معیشت کا مطالعہ کرتے تھے۔ الیگزنڈر نے 1886کی گرمیوں میں کپٹل کی پہلی جلد پڑھی۔ان لوگوں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کے لیے انقلابی جوانوں کو تیار کرنے کا مقصد بنالیا۔

                لینن ابھی لڑکا ہی تھا کہ الیگزنڈر ایک ایسی تنظیم سے وابستہ ہوگیا جو بادشاہی نظام کے خلاف تھا۔اس تنظیم کا نام تھا نورودنیا  و ولیا۔یعنی”عوامی ارادہ“۔ یہ 1880 کی دھائی کے اوائل کی ایک وسیع انقلابی تنظیم تھی۔ اس تنظیم کی سربراہی ایک ایگزیکٹو کمیٹی کرتی تھی جو کہ پیشہ ورانقلابیوں پر مشتمل تھی۔ الیگزنڈر نے اس تنظیم میں کئی مارکسی اصول ڈالنے کی کوشش کی تھی۔

۔ 17نومبر1886اس نے سینٹ پیٹر سبرگ کے طلبا کے جلوس کی سربراہی کی جو پولیس کے ساتھ تصادموں اور گرفتاریوں پہ منتج ہوا۔

                یہ دہشت گرد گروہ بادشاہ الیگزنڈر سوئم کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ بہت سوچ وبچار کے بعد انہوں نے اس بادشاہ کے باپ الیگزنڈر دوئم کے قتل ہونے کی چھٹی سالگرہ پہ اُسے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرلی۔ اور انہوں نے یہ تاریخ یکم مارچ1887مقرر کی۔

                اس نے روسی عوام کے لیے ایک منشور بھی تیار کیا جسے بادشاہ کے قتل ہونے کے فوراً بعد چھینا تھا۔ اس منشور کے ابتدائی فقرے یہ تھے: ”روسی سرزمین کی روح زندہ ہے، اور اس سرزمین کے بیٹوں کے دلوں کے اندر سچ بجھا نہیں۔ 1887کے۔۔۔ دن زار الیگزنڈر سوئم کو قتل کیا گیا۔“

                یہی نہیں، بلکہ اس نے تو انعام کے طور پر ملنے والے سکول کے اپنے ”گولڈ میڈل“کو بیچ ڈالا۔ اُس پیسے سے ڈائنا مائیٹ خریدا اور اپنے پانچ دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کرایک ناتجربہ کار والے بم سے بادشاہ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔

                مگر جن جگہوں سے بادشاہ کے گزرنے کا اندازہ تھا وہ اُن میں سے ایک سے بھی نہیں گزرا۔اس لیے قاتل ہر بار ہر جگہ سے ناکام لوٹتے۔وجہ یہ تھی کہ پولیس کو سازش کا شک ہوا تھا اور اس نے اُس روز بادشاہ کو محل سے باہر آنے ہی نہیں دیا۔

                صرف یہی نہیں بلکہ پولیس نے اُسی روز دہشت گردوں میں سے ایک کا پیچھا کیا۔ اور یوں بالآخر پولیس اُن تک پہنچی اور اُن سب کو گرفتار کر لیا۔الیگزنڈر،اور اُس کی بہن آنا(جو سازش میں شامل نہ تھی) اپنے کئی ساتھیو ں سمیت گرفتار ہوئے۔ سب سے چھوٹے لڑکے کی عمر 20سال تھی اور سب سے بڑا 26سال کا تھا۔ (4)۔

                آنا کو پانچ سال کے لیے سائبیریا جلاوطنی کی سزا سنائی گئی۔ مگر اس کی ماں کی درخواست پر اُس جلاوطنی کی سزا کو سائبیریا کے بجائے اُن کے خاندانی زمین ”کو کوشکی نو“ میں پوری کرنے کی اجازت دی گئی۔

     اس طرح الیگزنڈر یکم مارچ 1887کو گرفتار ہوا۔ اُس پہ مقدمہ چلا۔اُس نے پہلے تو عدالت میں بولنے سے انکار کیا۔ ہمیں تو مارشلاؤں اور موقع پرست لیڈروں کے ہاتھوں ایسی سیاست میں ڈال دیا گیا جس میں ”ذات کو بچاؤ“ ”ذاتی فائدہ“ ذاتی بینک بیلینس“کا رٹہ لگایا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم تصور ہی نہیں کرسکتے کہ انسانوں کی ایک اور قسم بھی ہے جو دوسروں کو بچانے کے لیے اپنا سر، اور سینہ آگے کرتے ہیں۔ اب دیکھیے ناں کہ عدالت میں بات نہ کرنے کا ارادہ کرنے والے الیگزنڈر نے اچانک اپنا فیصلہ بدل ڈالا۔ وہ فرفر بولنے لگا۔اُس نے اپنے ساتھیوں کو سزائے موت سے بچانے کے لیے بڑی بہادری سے سارے کا سارا جرم اپنے سر لے لیا۔

                                اُدھر گھر اور خاندان کی بھی سینے۔ الیگزنڈر بہت دور پیٹرو گراڈ یونیورسٹی میں تھا۔ گھر والوں نے تو اس سے یہ سُن رکھا تھاکہ وہ گولڈ میڈل اور دوسرے اعزازات وصول کرتا رہتاہے۔ اُسے زوالوجی میں لمبے اور، حلقہ دار کیڑوں پر مقالہ لکھنے پر گولڈ میڈل ملا تھا۔پھراچانک ایک روزیہ خوفناک خبر آئی کہ وہ زار بادشاہ کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اور اِس کی کوشش کرنے پر گرفتار ہوچکا ہے۔

                جیسے کہ ایسے معاملات میں ہوتا ہے‘سارے واقف کاروں نے فیملی سے شناسائی ختم کر دی۔باپ مرچکا تھا۔ کم سن لینن اِدھر اُدھر دوڑتا بھاگتا رہا تا کہ وہ ماں کے سفر کے لئے کوئی ساتھی تلاش کر سکے۔ مگر کوئی بھی ایسی ماں کا ساتھ دینے تیار نہ ہوا جس کا بیٹا بادشاہ کو قتل کرنے کی کوشش میں گرفتار کر لیا گیا ہو۔

                سمبرسک میں ریلوے لائن نہ تھی اور لینن کی 52سالہ ماں ماریاؔ گھوڑے پہ ساٹھ میل دور سِیزران ؔنامی جگہ تک گئی۔وہاں سے وہ ٹرین پکڑ کر پیٹرسبرگ گئی  جہاں بیٹا قید تھا۔

                 جب وہ پہنچتی تو یہ بیٹے کی گرفتاری کا ساتواں دن تھا۔

                ماں کئی ہفتوں تک بیٹے سے ملاقات کی اجازت کے لیے ماری ماری پھرتی رہی۔ ناکام رہی تو پھر اس نے ڈائریکٹ بادشاہ کو بیٹے سے ملاقات کی اجازت کی درخواست دے ڈالی۔ بیٹا جو کہ شُلِسَلبرگ کے خوفناک جیل میں تھا۔بادشاہ نے درخواست کے کنارے پہ لکھا:”میرا خیال ہے کہ بہتر ہوگا کہ اُسے اپنے بیٹے سے ملنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ خود دیکھ سکے کہ اس کا قیمتی بیٹا کیسا شخص ہے“۔ (5)

    جب وہ 30مارچ کو ملاقات  کے لیے بیٹے کے پاس پہنچی تو بیٹا جھک کر ماں کے گھٹنے سے لپٹ گیا۔اُس کے آنسو نکل گئے اوراس نے ماں کے سامنے ہر چیز کا اعتراف کر لیا۔ اس نے ماں سے معافی مانگی کہ وہ اپنے محبوب خاندان کے لئے غم لایا۔

                حکام نے ماں کو بتایا کہ اگر بیٹا اپنی حرکت پہ پشیمانی ظاہر کرے اور بادشاہ سے معافی مانگے تو اس کی زندگی بچ جائے گی۔مگر ماں کو معلوم تھا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ اس لیے ماں نے بچے پر زیادہ زور نہیں دیا۔

                 مقدمے پہ انیس سالہ الیگزنڈر نے کوئی وکیل نہ کیا اورنہ ہی معافی مانگی۔ عدالت میں اس کی تقریر کا ایک ٹکڑا:

                ”روسی عوام میں ایک درجن آدمی ہمیشہ ملیں گے جو اپنے نظریات کے ساتھ بہت مضبوطی سے کھڑے ہوں گے۔ اور جو اپنے ملک کی ناخوشی اس قدر گہرائی سے محسوس کرتے ہیں کہ اپنے کاز کی  خاطر مرنا اُن کے لیے کوئی بات نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو کوئی بھی چیزخوفزدہ نہیں کرسکتی۔۔۔ اپنی سرزمین کے لیے مرجانے سے عمدہ موت کوئی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح کی موت مخلص اور ایماندار انسانوں کے لیے کوئی دہشت وخوف نہیں رکھتی۔ میرا صرف ایک مقصد رہا ہے: بدقسمت روسی عوام کی مدد کرنا۔“ (6)۔

                ماں مقدمے کی کاروائیوں میں جاتی رہی۔

                فیصلہ آیا تو پندرہ لوگوں میں سے الیگزنڈر (ساشا)سمیت پانچ کو سزائے موت سنائی گئی۔ دو کوعمر قید، اور بقیہ کو مختلف معیادوں کی سائبریا جلاوطنی کی سزا ہوئی۔ مقدمے کے فیصلے کے بعد ماں نے ملاقات کی۔ جب وہ جانے لگی تو بیٹے نے عجب فرمائش کی۔اُس نے ماں سے کہا کہ آخری ملاقات کے لیے آتے ہوئے اُس کے لیے ہائینے ؔکی نظموں کی کتاب لائے۔ (بہادری کی کوئی انتہا ہے؟)۔ ماں نے ایسا ہی کیا۔ وہ بیٹے سے پھانسی چڑھنے سے قبل کی آخری ملاقات میں یہ کتاب اس کے لیے لے گئی۔۔۔ اور ماں نے بیٹے کو الوداعی بوسہ دیا (7)۔

                8مئی1887 کو صبح پھوٹتے ہی الیگزنڈر کو اس کے چار ساتھیوں جنرلوف، آندریو شکن، اوسیپا نوف اور شیوریف سمیت  شیسلبرگ قلعے کے احاطے میں پھانسی دی گئی۔

باب ختم ہوا۔

نہیں،باب شروع ہوا۔

 

حوالہ جات

۔1۔کروپسکا یا۔Reminiscences

۔2۔کروپسکایا   memoirs۔صفحہ 4

۔3۔ایڈمنڈولسن۔ ٹودِی فن لینڈ سٹیشن۔ صفحہ 357

۔4۔ ایڈمنڈولسن۔ ٹودِی فن لینڈ سٹیشن۔صفحہ 358

۔5۔ڈیوڈ شپ۔لینن، اے بایوگرافی۔ 1966۔ پنگوئن۔ صفحہ 15۔

۔6۔ڈیویٹوف اور دیگر۔ دی سنٹرل لینن میوزیم۔ 1986۔ رادوگا پبلشرز ماسکو۔ صفحہ 62

۔7۔لوئی فشر۔دی لائف۔۔ صفحہ 11

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *