Home » پوھوزانت » معاشی صورتِحال 2019۔۔۔ پروفیسر(ر) کرامت علی

معاشی صورتِحال 2019۔۔۔ پروفیسر(ر) کرامت علی

پاکستان کی معاشی صورتِ حال 2019 کا جائزہ کے بارے میں چند ایسے عوامل کی نشاندہی ضروری ہے جس کی وجہ سے میں خود بھی اس تجزیہ کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں وہ وجوہات درج ذیل ہیں۔

۔1۔             کسی حکومت کو جو2018میں اقتدار میں آئی ہو ایک سال کے جائزہ سے پرکھنازیادہ مناسب نہیں۔ بہرحال جہاں ایک سال کا عرصہ کم ہے وہاں ایک سال کے عرصے میں حکومت کو اپنی معاشی ترجیحات، معاشی اہداف اور اُن کے حاصل کرنے کے لیے پالیسیوں کے بارے میں مکمل طور پر عبورہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے پانچ سال مکمل ہونے پر نہ صرف اگلے الیکشن میں اپنے اُن معاشی اہداف کو حاصل کرنے کی وجہ سے الیکشن میں سرخرو ہونے کے لیے سرگرم ہو اور اگر اگلی حکومت میں بھی ووٹ لے کر کے اقتدار میں آجائے تو مزید معاشی ترقی کے لیے کوشش کر سکے۔ اور کامیاب نہ ہو تو پھر۔

۔2۔             اگلی حکومت کو یہ موقع نہ دے کہ وہ اس حکومت کو وہی طعنہ دیں جو کہ یہ حکومت پچھلی دو حکومتوں کو یہ مسلسل ایک سال سے زیادہ عرصہ دے رہی ہے کہ PPPاور PML(N)موجودہ معاشی بحران کی ذمہ وار ہے اور اس طرح کے لیے ایک سال سے زیادہ عرصہ میں PTIکا یہ بیانیہ اب ایک سال کے بعد اپوزیشن کو معاشی طور پر بحران کا ذمہ دار ٹھہرانے میں موثر نہیں رہا۔

۔3۔             پاکستان کی خصوصاً جغرافیائی اہمیت اور اس کی بین الاقوامی سیاست اور حیثیت میں بھی اہمیت کی وجہ سے پاکستان کی معاشی صورت حال پر اس بین الاقوامی صورت حال کو مد نظر رکھے بغیر اور اس کے پاکستان کی سیاسی معاشی صورت حال پر اثرات کا جائزہ لیے بغیر کسی قسم کا تجزیہ بے معنی ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کے اندرونی مسائل اور سیاسی و معاشی حالات پر بیرونی عوامل نہ صرف اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ اندرونی مسائل ہمارے معاشی اور سیاسی زندگی میں اتنا اہم کردار ادا نہیں کرتے کہ بین الاقوامی سیاسی سماجی اور معاشی رجحانات اور ان کے مفادات۔ اس کی ایک مثال جو کہ آج کل زیر موضوع ہے وہ چین کی پاکستان میں CPECکے لیے امداد اور امریکہ کی اس کی مخالفت۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت نے جہاں پاکستان کو بین الاقوامی سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر بہت اہم بنا دیا ہے وہاں پر اس صورت حال کی وجہ سے پاکستان کافی مشکل میں بھی ہے کہ متضاد مفادات رکھنے والے تمام ممالک اور خصوصاً دوستوں کو کیسے خوش رکھا جا ئے۔ اس صورت حال کی وجہ سے تمام حکومتیں اپنا زیادہ وقت بیرونی دو وں اور ایسے مفادات حاصل کرنے کی کوشش میں گزاردیتے ہیں۔ وہاں پر وہ اپنی عوام اور اندرونی حالات کو بھی خارجہ پالیسی سے منسلک کرنے کی کوشش میں عوام کی فلاح و بہبود کے اشاریہ کو ترقی کا اہداف سمجھنے کی بجائے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، IMF،World Bankاور دوسرے ممالک سے امداد اور قرضوں میں حصول کی کامیابی اور برآمدات و درآمدات میں توازن جیسے اشاریہ کو ملک کی معاشی صورت حال کے لیے بہتر بنانے کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔ لیکن بے روزگاری، افراط زر، معاشی ناہمواریاں اور عزیمت کی شرح عوام کے لیے زیادہ اہمیت کے حامل کیونکہ یہ عوامل لوگوں کی زندگی پر بلاواسطہ اثرا نداز ہوتے ہیں۔ جب کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ اشاریہ اور اعداد و شمار بالواسطہ اثر انداز ہوتے ہیں کہ اُن سے قومی آمدنی میں اضافہ اور اس کے شرح نو بڑھتی ہے جس سے کہ لوگوں کی زندگی پر اثرات ہوتے ہیں۔

۔4۔             آخری اہم مسئلہ یہی ہے کہ حکومت جن اشاریوں اور اعداد و شمار کا ذکر روزانہ کرتی ہے اُن کا بالواسطہ تعلق عوام کی زندگی سے شرح قومی آمدنی کی رفتار پربہتر ہونے سے ہے۔ جبکہ عوام بلاواسطہ اپنی روزمرہ کی صورت حال سے معاشی ترقی کا جائزہ لیتی ہے کہ افراط زر کی صورت حال، بے روزگاری، غربت اور معاشی ناہمواری۔

اس طرح حکومت اور عوام کے درمیان ایک Gapپیدا ہوتا ہے جو کہ عوام میں بے چینی اور حکومت کی ناکامی کا باعث ہوتا ہے۔

معاشیات دان جہاں پر باقیGapsکا ذکر کرتے ہیں اور ان Gapsکو بنیاد بنا کر معاشی پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ Gapsدرج ذیل ہیں:

۔۱۔            برآمدات اور درآمدات میں gap

۔۲۔            سرمایہ کاری اور بچت میں gap

۔۳۔            بجٹ میں آمدنی اور اخراجات کا gap

اسی طرح انہیں اصلی اور اہم gapکو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ:

۔۴۔            عوام کی ترقی کو جانچنے اور حکومت اور اقتدار میں موجود طبقات کی سوچ میں gap۔

ہم اس ایک سال کا جائزہ اس آخری gapکو مد نظر رکھتے ہوئے کریں گے۔

۔۱۔            عوام کے ترقی جانچنے کے اشاریہ

۔۲۔            حکومت کے ترقی جانچنے کے اشاریہ

اس سال میں معاشی ترقی کے لیے جو اقدامات کیے اُن پر نظر ڈالنے سے پہلے PTIکی حکومت میں آنے سے پہلے الیکشن کے دوران عوام کو اپنی الیکشن مہم کے دوران جو معاشی نعرہ دیتے رہے۔ عوام PTIکی حکومت کی کارکردگی کو انہی نعروں کے حوالوں کی تکمیل سے دیکھتی ہے۔ لیکن حکومت کا اب مسئلہ ہے کہ وہ تو صرف الیکشن کے دوران ووٹ لینے کے لیے بولے تھے۔الیکشن کے دوران بطور نعرہ حکومت نے ایک کروڑ نوکریوں،۰۵ لاکھ گھروں کے اعلان کے علاوہ سب سے بڑا اپنا بیانیہ جو لوگوں کو پسند آیا تھا کہ ملک کی معاشی ترقی، کرپشن کے خاتمہ کے بغیر ممکن نہیں اور ہم نہ صرف بیرون ممالک سے پاکستان کے لوٹے ہوئے پیسے واپس لے آئیں گے بلکہ بیرون ملک رہنے والے بیرونی سرمایہ کار اوربیرونی ممالک بھی ہماری دیانتداری اور کرپشن کے خلاف جہاد میں ہمارا بھرپور ساتھ دیں گے۔ اگرچہ یہ بیانیہ ٹھیک بھی ہو کہGood Governaceکے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں لیکن کرپشن کا خاتمہ Good Governaceکا ایک پہلو ہے اور کرپشن کے تدارک اور لوٹے ہوئے پیسے واپس لانے کے لیے آپ کو نظام اور اداروں میں ساختیاتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔یہ صرف نعروں اور سطحی قسم کے اقدامات سے اور بہت کم عرصہ میں ممکن نہیں۔ کرپشن اور معاشی ترقی کا تعلق چائنہ اور ملائیشیا جیسے ملکوں کے جائزہ سے ملتا ہے لیکن ان ملکوں میں صرف کرپشن کے خاتمے سے یہ ممکن نہیں ہوا بلکہ پورے نظام میں بنیادی تبدیلیوں سے ممکن ہوا۔ ”کرپشن کا خاتمہ معاشرہ کی بہتری کے لیے لازمی ہے۔ مگرکافی نہیں۔“

لہٰذا حکومت کے اس ایک سال سے زیادہ عرصہ میں جہاں اپنے کئے گئے وعدوں کو Implementکرنے میں دشواریوں اور اپنی ناکامی کے ادارک کی وجہ سے PTIنے کافیU-Turnبھی لیے اور اب اس سال کے آخر میں IMFکے پاس نہ جانے کے وعدے سے انحراف اور معاشی پالیسیوں اور اہداف کی وجہ سے دوبارہ پرانی حکمت عملی کو بروئے کار لایا گیا۔

پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعد کافی دشواریوں کے بعد درج ذیل اقدامات کیے۔

۔1۔             حکومت نے اسد عمر صاحب کو وزارت سے فارغ کر دیا اور ان کی جگہIMFکے ملازم ڈاکٹر حفیظ شیخ کوFinance Adviser مقرر کر دیا اور باقر رضا صاحب کو State Bankکا گورنر مقرر کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے IMFسے Structural  Programکے تحت قرضہ لینااورIMFکی Reformsکی شرائط کے معاہدہ پر دستخط کیے۔ معاہدہ PTIکی حکومت نے پہلی دفعہ نہیں کیا۔ اس سے پہلے بھی IMFکے ساتھ تمام حکومتیں اس قسم کا معاہدہ کرتی آئی ہیں۔ لہٰذا اُن معاہدوں کے اثرات آپ پاکستان کی Economyپر دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان ان معاہدوں پر عمل درآمد کرنے اور ان پالیسیوں کے اضافے کے باوجود معاشی بحران کا شکار ہے۔ لہٰذا اس غلط فہمی میں مبتلا رہنا کہ یہ نیا معاہدہ ہمیں معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کر دے گا۔ ہمیں Debt Trapسے نکال دے گا۔ یہ ہمارا IMFکے ساتھ آخری پروگرام ہو گا اور لوگوں کی معاشی صورت حال بہتر ہو جائے گی۔ یہ سب ایک سراب ہے جس کے پیچھے ہم ہمیشہ بھاگتے رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ تمام حکومتیں ۸۸۹۱ء سے اس پروگرام سے مستفید ہوئے ہیں لہٰذا PTIنے کوئی انوکھافیصلہ نہیں کیا۔ لیکن یہ بھی ہے کہ تمام پہلے پروگراموں کی طرح یہ پروگرام بھی پاکستان کی معاشی صورت حال بہتر نہیں کرے گا اور پھر اگلی دفعہ ہم IMFکے ساتھ ایک اور معاہدہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ تمام پالیسیاں اور تمام اخراجات جو اقدامات کہ Old Wine in old Bottle by new sellerکے مترادف ہیں۔PTIکے بنیادی معاشی پروگرام سے متضاد ہیں کیونکہ یہ پالیسیاں نہ تو عوام کی بہتری کے لیے ہیں اور نہ ہی پاکستان میں منصفانہ معاشی نظام کو Establishکرنے کے لیے ہیں اور نہ ہی ریاست مدینہ کا خواب حاصل کرنے میں مددگار ہو سکتی ہیں کیونکہ ریاست مدینہ تو بنیادی طور پر سودی نظام سے انکار اور زکوٰۃ اور ایثار و قربانی پر قائم تھی۔

اب ہم اس دوسرے اقدام کے بارے میں وضاحت کرتے ہیں جو کہ حکومت کے اہم ترین اور بنیادی پالیسی کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ حکومت نے ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی کی۔ حکومت کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مارکیٹ میں روپے کی قدر نواز شریف حکومت نے مصنوعی طریقوں سے زیادہ مقرر کی ہوئی ہے اور جس سے ہماری برآمدات مہنگی اور درآمدات سستی ہیں اور اس طرح ہمارا تجارت کاBalance of Payment کا خسارہ ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ Forign exchange reservesکم ہو گئے ہیں۔ خزانہ خالی ہے اور بوجھ حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔Defaltہونے کا خدشہ ہے۔ لہٰذا روپے کی قدر و قیمت کو مارکیٹ فورسزکے ذریعہ Deferance ہونا چاہیے جس سے ڈالر 155.2روپے پر جا کر مستحکم ہو گیا ہے۔ روپے کی ڈالر کے حوالہ سے 40فیصد سے قدر میں کمی کے تین اثرات نمایاں ہوتے تھے۔

۔1۔             برآمدات میں اضافہ کی توقع اور درآمدات میں کمی، کرنٹ خسارہ میں بہتری۔ ہماری ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافہ ہوا۔ لیکن ہماری کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے کپاس کی درآمد کرنی پڑی لیکن کپاس کی درآمدات پر ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی وجہ سے ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرنے والے اب کپاس کی درآمد پر ٹیکسز اور ڈیوٹیزمیں Exemptionکا مطالبہ کر  رہے ہیں۔

اسی طرحEnergyکے حوالہ سے بھی ان کی شکایات ہیں۔ مقصد ہے کہ Devaluationکرنے سے برآمدات خود بخود نہیں بڑھ جاتی بلکہ ان کا انحصار (۱) طلب کی لچک(۲) طلب کے بڑھنے کے ساتھ پیداوار میں اضافہ(۳) ایک ایسی Long-termپالیسی جو کہ برآمدات کے اضافہ کے لیے پائیدار بلکہ اس میں اضافہ کی شرح بھی تسلی بخش ہو۔

۔   Devaluationکی وجہ سے ہمارا قرضوں اور ان پر ادائیگی خود بخود بڑھ گئیں کیونکہ اب 1$کے قرضہ پر 10روپے کی بجائے 150روپے دینے پڑ ئیں گے۔ یعنی1$اب1-50$کی صورت میں ادا کرناپڑے گا۔

۔   Devaluationکی وجہ سے افراط زر بڑھ گیا نہ صرف Importsکی قیمتیں بڑھ گئیں اور Imports کم ہونے سے اندرون ملک اشیاء کی طلب بڑھنے سے قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔

درج بالا وجوہات کی بنا پر اگرچہ کرنٹ Account Rateبہتر ہو گیا لیکن مہنگائی، قرضوں اور سود کا بوجھ بڑھ گیا اور ہماری برآمدات میں اضافہ کے لیے ہمیں بین الاقوامی منڈیوں میں چیزوں کیQuality اور قیمتوں سے مسابقت کرنا پڑے جس کے لیے بہتر پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

۔3۔             موجودہ حکومت کا تیسرا بڑا اقدام جس کے معاشی صورت حال پر گہرے اثرات ہوں گے وہ 5.5فیصد شرح سود بڑھا کر 13.5فیصد کر دی گئی۔ شرح سود بڑھانے کا سب سے زیادہ اثر یہ ہوا کہ بین الاقوامی منڈی میں جو Hot Money(گرم زر) موجود تھا وہ 13.5فیصد پرہمارے بینکوں میں آگیا۔ اس سے ان لوگوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔2.5یا3.5فیصد پر بیرونی ممالک کے قرضوں پر پاکستان کے بینکوں سے 13.5فیصد شرح سود لیا۔ اس طرح10%شرح سود کے اضافہ میں ادائیگیوں کی وجہ سے 26ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ اور اب ہمارے بینکوں میں زر تو موجود ہے لیکن پاکستان کا سرمایہ کار13.5فیصد پر رقم لینے کو تیار نہیں اور (گرم زر) جیسے ہی شرح سود کم ہوا تو پاکستان سے نکل کر دوسرے ملکوں کا رخ کرے گا۔

۔4۔             حکومت نے ٹیکس میں جو تبدیلیاں کی ہیں اور جو Tax Exemptionدی ہیں ان سے معاشی طور پر مضبوط طبقات کو درمیانہ طبقات سے زیادہ فائدہ ہوا اور سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوا کیونکہ درمیانے درجہ کے سرمایہ کار ان پالیسیوں سے نالاں ہیں۔

لہٰذا مجموعی طور پر پاکستان میں یہ سال معاشی طور پر تسلی بخش نہیں رہا۔

اب حکومت Mody Ratingمنفی سے استحقام،سٹاک ایکسچینج مارکیٹ میں 40,000کے انڈیکس حد سے اضافہ اور کرنٹ ریٹ میں شرح کی بہتری کو آئندہ سال میں معاشی بہتری کے طور پرپیش کر رہی ہے۔ وہاں دوسرے اعداد و شمار جیسے قومی آمدنی کی شرح رفتار کم ہوکر3.5افراط زر میں اضافہ12.71فیصد،دس لاکھ لوگوں کا ایک سال میں بے روزگار ہونا اور 40لاکھ لوگوں کا غربت کی لکیر سے نیچے چلا جانا وہ حقائق ہیں جن سے حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پیٹرول، بجلی کی قیمتوں اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، مکانوں کا کرایہ میں اضافہ نے درمیانہ طبقات کے لیے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں اور تعلیم و صحت کے حصول کے لیے اب کافی دشواریاں ہیں جن سے لوگوں کی تعلیم، خوراک اور صحت پر اثرا نداز ہوکرحکومت کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ 50لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج جو کہ اُن کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔PTIکی حکومت کو یہ یاد رکھناچاہیے کہ ایوب خان کے دور حکومت میں قومی ترقی کے دس سالہ دور کے بعد حکومت نے اپنے اعداد و شمار جو کہ ان کے حالت زندگی کے متعلق نہیں تھے کی بنیاد پرجشن منایا تھا۔ صدر ایوب خان کے ساتھ بھی ڈاکٹر محبوب الحق اور شعیب صاحب جیسے لوگ بطور پلاننگ کمیشن کے چیئرمین اور فنانس منسٹر تھے۔ اس کے باوجود عوام کو سہولتیں نہ ملنے پر ناکامی کا سامنا ہوا۔ اسی طرح اب درج ذیل اعداد و شمار موجود ہ سال کی جو نشاندہی کر رہے ہیں زیادہ تسلی بخش نہیں ہیں۔

۔1۔صنعتی ترقی4.9%کمی6.3%سے 1.4%

۔2۔صنعتی پیداوار5.16کمی5.43%سے 0.27%

۔3۔بڑی صنعتی پیداوار            3.5%

۔4۔زرعی3.9%کمی 3.94%سے 0.85%

۔5۔خدمات2.8%کمی 6.25%سے 4.17%

۔6۔اجناس پیداوار3.2%کمی4.4% سے 1.13%

۔7۔قرضہ 0.33%     اضافہ11ہزار ارب

GDPترقی2.5%کمی5.8%سے 3.3

۔9۔افراط زر 12.71فیصد

۔10۔قومی آمدنی کی رفتار کم ہو کر 3.5فیصد

۔11۔دس لاکھ لوگوں کا بے روزگار ہونا

۔12۔40لاکھ لوگوں کا غربت سے نیچے چلا جانا۔

امید ہے کہ حکومت اپنی موجودہ پالیسیوں میں ایسی تبدیلی کرے گی جو کہ ان کے معاشی منصفانہ نظام کے لیے ضروری ہیں۔ تاکہ وہ آئندہ چار سالوں میں عوام کے Human Development Indexکو بہتر بناکے اور ملک کے عوام کی بہتری اور ترقی کا باعث بن سکیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *