Home » پوھوزانت » سنگت اکیڈمی ۔۔۔ جمیل بزدار

سنگت اکیڈمی ۔۔۔ جمیل بزدار

کئی بار سوچا سنگت اکیڈمی پر مضموں لکھوں لیکن ہر بار خود کو اس معیار پر نہ پایا اور دلبرداشتہ ہو کر چھوڑ دیا کہ شاید ابھی مناسب وقت نہیں لکھنے کا اور وہ بھی ایک ایسے ادارے کے بارے میں جو ہمارے اساتذہ کا ہو بھلا ایسے ادارے پر ہم کیا لکھ سکتے  ہیں۔

سنگت اکیڈمی کو  میں ایک تن آور درخت کے جیسے سمجھتا ہوں جو اپنی لمبی گھنی خوبصورت سایہ دار شاخوں سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان  اور باہر کے ادیبو ں کو، ادب کو سمیٹ لیتی ہے۔ یہ  اکیڈمی نوجوانانِ بلوچستان کو جو کہ دھماکوں، بمبوں، گولیوں، نفرتوں، فیسبکی و وٹسپی محبتوں، انڈین و ہالی وڈ رومینسوں، سی پیک و سیندکوں، خانوں، شریفوں اور زرداریوں کے ڈراموں سے تھک چکے ہوتے ہیں کو نئی امید نیا حوصلہ دیتی ہے  یہ لوگ پھر اسی ادارے کے غازی و جہادی بن جاتے ہیں۔ میں ان غازی و جہادیوں کی بات نہیں کر رہا  جو ریالوں اور ڈالروں کے لیے اپنے بھائیوں کے گردن کاٹتے ہیں میں ان غازی و جہادیوں کی بات بھی نہیں کررہا جو دوسرے قوموں کے خلاف جنگ کے لیے بنائے جاتے ہیں (خودکش جہادی)۔ میں تو سنگت کے جہادیوں کی بات کر رہاہوں کہ جب زبانیں خاموش ہوں جب قلم لکھنے سے قاصر ہو اور اگر بولیں تو پیسوں کے عوض اور جب لکھیں تو جرنیل و نوابوں کے لیے لکھیں ایسے دور میں یہ لوگ بغیر لالچ و مکاری کے اپنے غریب قوم کے لیے لکھتے ہیں سرمایہ داری کے خلاف، جاگیرداری کے خلاف فیوڈلزم کے خلاف، ڈرامہ بازی کے خلاف، اپنوں کے حق میں لکھتے ہیں۔

ارے یار !  میں تو مست کے جہادی کی بات کر رہا ہوں میں تو شاہ کے غازی کی بات کررہا ہوں جو مست کو زندہ رکھتے ہیں جو مست کے افکار کو پھیلاتتے ہیں جو شاہ کے نظریے کی پرچار کرتے ہیں جو شاہ کو زندہ رکھتے ہیں۔ دیکھیں تو اگر سنگت کے یہ غازی و جہادی نہ ہوتے تو کون ہمیں مست کی تعلیم دیتا کون ہمیں مست کے فلسفے سے آگاہ کرتا کون شاہ کے بلوچ دوستی سے تعارف کراتا کون شاہ کے گیت گاتا کون مست کے گن گاتا۔ مان لو سنگت کے جہادیوں کو مان لو سنگتت کے غازیوں کو۔

ہمارے یار (بلوچ دشمن) ! تو ہمیں شاہ و مست کو بس دربار عرس تک ہی محدود کر رہے، بھلا ہو سنگت کا بھلا ہو سنگت کے دوستوں کا کہ ایسے عظیم مفکروں کو زندہ رکھا۔  بلوچستان کا حال تو سامنے ہے کہ جہاں آرٹی فیشل وڈیرہ، نواب، سردار کو صرف اس لیے بنایا گیا کہ وہ الزام سہتے رہے اور اصل دشمن پر آنچ نہ آئے  ٹھہریے سمجھاتا ہوں۔

بلوچستان کے تعلیم کے لیے اتنے پیسے ملے، سی پیک و سندک سے اتنی رقم ملی  وغیرہ، وغیرہ  لیکن بلوچستان کو  نہ تو تعلیم ملا نہ تو صحت ملی اور نہ غریب کے حالت و زار میں کوئی فرق تو پھر یہ پیسے یہ گرانٹ کہاں گئے۔ ارے یار! وہ سردار، نواب و وڈیرہ کھا گئے ہم نے تو دیئے۔

سنگت ادب کے خوبصورت پتوں کو، غزلوں کو، نظم و نثر کو، مختلف تراجم کو اس خوبصورتی سے پرو دیتا ہے کہ کیا ہی کہنا۔۔۔

جہاں سے اچھی تحریر ملے اور وہ سنگت کا حصہ نہ بنے ہو نہیں سکتا اچھے لکھاری سنگت کے لیے نہ لکھے  تو کس کے لیے لکھے۔

سو سنگت ہم سب کے لیے امید ہے۔اندھیرے میں ایک دیا جس کی روشی ہمیں مکرو فریب سے بچائے رکھتی ہے اور مست و شاہ کے فلسفے سے روشناس کرتی ہے۔

سنگت آباد با سنگت ئے کل سنگت  آباد باتھوں۔۔۔۔۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *