Home » قصہ » اگر جنگ مزید جاری رہی تو ۔۔۔ ہَیرمان ہَیسے /مقبول ملک

اگر جنگ مزید جاری رہی تو ۔۔۔ ہَیرمان ہَیسے /مقبول ملک

(1917میں لکھی گئی ایک کہانی)

 

میری اپنی جوانی سے ہی یہ عادت رہی تھی کہ میں وقتاً فوقتاً غائب ہو کر تازہ دم ہونے کے لیے دوسری دنیاؤں میں نکل جاتا تھا۔ پہلے مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی اور پھر مجھے باقاعدہ طور پر لاپتہ قرار دے دیا جاتا۔ پھر جب میں واپس لوٹتا، تو میرے لیے یہ سب کچھ سننا بڑے مزے کی بات ہوتی کہ نام نہاد سائنس میری غیر حاضری اور میرے حالات و واقعات کے بارے میں کیا کیا فیصلے سنا چکی ہوتی۔ میں نے اس کے علاوہ اور کچھ کیا ہی نہیں تھا اور یہ میری فطرت کے عین مطابق، ایک لازمی سی بات تھی اور یہی کچھ جلد یا بدیر اکثر انسانوں کو کرنا ہی تھا۔ اسی لیے سب عجیب و غریب انسان مجھے ایک طرح کا معمہ سمجھتے تھے۔ کچھ کی نظر میں ایک جنونی اور کچھ دوسروں کی رائے میں ایک ایسا انسان جسے معجزاتی طاقتیں دے کر اس پر بڑی مہربانی کر دی گئی تھی۔

مختصر یہ کہ میں ایک بار پھر کافی عرصے کے لیے غائب رہا تھا۔ جنگ کے دو یا تین برسوں کے بعد زمانہ حال میرے لیے اپنی کشش کافی زیادہ کھو چکا تھا اور میں اس لیے پھر غائب ہو گیا تھا کہ کچھ دیر کے لیے مختلف ہوا میں سانس لے سکوں۔ میں معمول کے راستوں اور طریقوں کے مطابق ایک بار پھر اس جگہ سے رخصت ہو گیا جہاں ہم رہتے ہیں اور بطور مہمان دوسری دنیاؤں میں مقیم رہا تھا۔ میں کافی عرصے تک دور دراز کے گزرے زمانوں میں رکا رہا تھا۔ پھر غیر مطمئن حالت میں زمین پر آ کر مختلف قوموں اور ادوار میں سے گزرتے ہوئے میں نے مصلوب کیے جانے کے عمومی واقعات، جھگڑوں، پیش رفت اور معمولی بہتری کا مشاہدہ کیا تو پھر کچھ عرصے کے لیے واپس کائنات میں لوٹ گیا۔

جب میں واپس آیا تو یہ سن 1920تھا اور مجھے یہ دیکھ کر ناامیدی ہوئی کہ اقوام عالم ابھی تک اپنی اسی پرانی، بے روح، ہٹ دھرمی کے ساتھ مختلف جنگوں میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھیں۔ کچھ سرحدیں ادھر ادھر ہو چکی تھیں اور چند منتخب خِطوں میں کئی اعلیٰ قدیم ثفافتیں بڑی احتیاط سے تباہ کی جا چکی تھیں۔ لیکن مجموعی طور پر زمین پر بظاہر بہت کچھ تو تبدیل نہیں ہوا تھا۔ زمین پر یکسانیت کے ہوتے ہوئے جو پیش رفت ہوئی تھی، وہ واقعی بڑی پیش رفت تھی۔ کم از کم یورپ کے سبھی ممالک میں تو ایسا ہی تھا، اور جیسا کہ میرے سننے میں بھی آیا تھا، سبھی ممالک ایک جیسے تھے، وہاں جنگ کرنے والے ممالک اور غیر جانبدار ریاستوں میں پایا جانے والا فرق تقریباً پوری طرح ختم ہو چکا تھا۔

جب سے شہری آبادی کو مشینی انداز میں نشانہ بنانے کے لیے ہوا میں اڑتے غبارے استعمال ہونے لگے تھے، جو پندرہ ہزار میٹر سے لے کر بیس ہزار میٹر تک کی بلندی پر پرواز کرتے کرتے اپنے گولے زمین پر گراتے جاتے تھے، تب سے مختلف ممالک کی قومی سرحدوں کی پہلے کی طرح اب بھی بہت سخت نگرانی تو کی جاتی تھی مگر یہ سرحدیں محض ایک بصری دھوکا بن چکی تھیں۔ فضا سے کی جانے والی یہ بے ہنگم گولہ باری اتنے وسیع علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھی کہ ان غباروں کو ہوا میں بھیجنے والے اس وقت بالکل مطمئن ہوتے جب ان غباروں سے گرنے والے بم ان کے اپنے ہی علاقے پر نہ گرتے۔ انہوں نے اس بات کی پرواہ کرنا بھی چھوڑ دی تھی کہ ان کے بموں میں سے کتنے غیر جانبدار ممالک پر گرے اور کتنے بالآخر ان ممالک کے ریاستی علاقوں میں جو وفاقی سطح پر ان کے اپنے اتحادی تھے۔

یہی دراصل وہ واحد پیش رفت تھی، جو اس جنگ کے عمل میں اب تک ہوئی تھی۔ اس پیش رفت میں اب کسی حد تک جنگ کا مقصد بھی نظر آنے لگا تھا۔ دنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی، جو دونوں ہی ایک دوسرے کو تباہ کر دینے کی کوشش میں تھے۔ دونوں ایک ہی بات کو اہم اور اپنے لیے باعث عزت سمجھتے تھے: جبر کے شکار انسانوں کی رہائی، پرتشدد کارروائیوں کا خاتمہ اور دیرپا امن کا حصول۔ وہ ایسے کسی امن کے عمومی طور پر بہت خلاف تھے، جو ممکنہ طور پر ابدی ثابت نہ ہو سکتا ہو۔ اس لیے ابدی امن کے ناقابل حصول ہونے کی وجہ سے انہوں نے ابدی جنگ کے فیصلہ کن ہونے کو ترجیح دی تھی۔ یوں وہ بے فکری، جس کے ساتھ ہتھیاروں سے لدے ہوئے غبارے بہت زیادہ اونچائی سے انصاف پسندوں اور انصاف دشمنوں پر یکساں انداز میں اپنی رحمت برسانے لگتے تھے، اس جنگ کی افادیت کی مکمل عکاسی کرتی تھی۔

یہ جنگ تاہم پرانے انداز میں بامعنی مگر ناکافی ذرائع کی مدد سے لڑی جا رہی تھی۔ فوج اور تکنیکی ماہرین کا عاجزانہ تخیل تباہی اور بربادی کے صرف چند ایک نئے ذرائع ہی ایجاد کر سکا تھا۔ وہ پرتخیل انسان جس نے پہلی بار مشینی انداز میں بم برسانے والے غبارے تیار کرنے کا سوچا تھا، اپنی قسم کا آخری انسان تھا۔ اس لیے کہ اس کے بعد سے روحانی شخصیات، پرتخیل افراد، شعراء اور خواب دیکھنے والوں نے جنگ میں اپنی دلچسپی کم سے کم کر دی تھی۔ سب کچھ فوج اور تکنیکی ماہرین پر ہی چھوڑ دیا گیا تھا اور یوں معمولی سی پیش رفت ہی ہو سکی تھی۔ اطراف کی فوجوں میں دیر تک اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی اہلیت بہت زیادہ تھی اور وہ مسلسل ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا تھیں۔ اگرچہ جنگ کے باعث پیدا ہونے والی خام مادوں کی قلت مدت ہوئی اس اقدام کی وجہ بن چکی تھی کہ اب سپاہیوں کو دیے جانے والے عسکری اعزازات محض کاغذ کے بنے ہوتے تھے، تاہم اس وجہ سے فوجیوں کی شجاعت میں کوئی زیادہ کمی تو نہیں آئی تھی۔

مجھے واپسی پر اپنا فلیٹ جنگی طیاروں سے کی گئی بمباری کے باعث جزوی طور پر تباہ شدہ حالت میں ملا اور میں کسی نہ کسی طرح اس کے بچے کھچے حصے میں سو گیا تھا۔ لیکن سردی بہت تھی اور صورت حال بہت بے چین کر دینے والی تھی۔ فرش پر ملبہ اور دیواروں پر گیلی پھپھوندی مجھے بیزار کیے جا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد میں سیر کرنے کی نیت سے دوبارہ باہر نکل گیا۔

میں شہر کی چند ایسی تنگ گلیوں میں سے گزرا، جو ماضی کے مقابلے میں اب بہت بدل چکی تھیں۔ اب وہاں کوئی دکانیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ سڑکوں پر زندگی کہیں نہیں تھی۔ مجھے ابھی چلتے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ایک ایسا آدمی میرے قریب آیا، جس کی جلد پر ایک پلیٹ تھی اور جس پر کوئی نمبر لکھا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں وہاں کیا کر رہا تھا۔ میں نے کہا کہ میں سیر کرنے نکلا تھا۔ وہ بولا: کیا آپ کے پاس اجازت نامہ ہے؟ مجھے اس کی سمجھ نہ آئی اور ہمارے درمیان تکرار ہونے لگی۔ اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کے ساتھ اگلے سرکاری دفتر میں چلوں۔

ہم ایک ایسی سڑک پر پہنچے، جہاں تمام عمارات پر چھوٹی چھوٹی سفید پلیٹیں لگی ہوئی تھیں۔ میں ان دھاتی تختیوں پر مختلف سرکاری دفاتر کے نام، نمبر اور کئی طرح کے حروف پڑھ سکتا تھا۔ ایک تختی پر لکھا تھا“بیروزگار سویلین”اور ساتھ ہی یہ نمبر 2487B4 بھی لکھا تھا۔ ہم اس سرکاری دفتر کے اندر چلے گئے۔ وہاں وہی معمول کے سرکاری دفتری کمرے، انتظار گاہیں اور برآمدے تھے، جن میں سے کاغذ، گیلے کپڑوں اور سرکاری دفتروں میں پائی جانے والی مخصوص ہوا کی بو آ رہی تھی۔ چند ابتدائی سوالات کے بعد مجھے کمرہ نمبر 72d میں پہنچا دیا گیا، جہاں مجھ سے پوچھ گچھ کی جانے لگی۔ میرے سامنے ایک سرکاری اہلکار کھڑا تھا، جو میرا معائنہ کیے جا رہا تھا۔ اس نے سختی سے مجھ سے پوچھا،“کیا آپ ہوشیار باش ہو کر کھڑے نہیں ہو سکتے؟”“ نہیں،”میں نے کہا۔“کیوں نہیں،”اس نے اگلا سوال پوچھا۔“میں نے یہ کبھی سیکھا ہی نہیں،”میں نے ہچکچاہٹ سے جواب دیا۔

“اچھا! آپ کو اس لیے گرفتار کیا گیا کہ آپ اجازت نامے کے بغیر ہی سیر کے لیے نکلے ہوئے تھے! کیا آپ اس کا اعتراف کرتے ہیں؟”“ہاں،”میں نے کہا،“یہ درست ہے۔ مجھے علم نہیں تھا۔ دیکھیے، میں طویل عرصے تک بیمار تھا۔۔۔”اس نے مجھے آنکھ ماری اور بولا،“آپ کو سزا یہ دی جاتی ہے کہ تین روز تک آپ کے لیے جوتے پہن کر چلنے کی ممانعت ہے۔ اپنے جوتے اتاریں!”میں نے اپنے جوتے اتار دیے۔“اْف!”وہ اہلکار غصے سے تقریباً چیخ پڑا،“یہ کیا، آپ چمڑے کے جوتے پہنتے ہیں! کہاں سے لیے آپ نے یہ جوتے؟ کیا آپ بالکل ہی پاگل ہیں؟“۔”میں دماغی طور پر شاید بالکل نارمل نہیں ہوں۔ لیکن میں اس بارے میں خود کوئی عین درست رائے نہیں دے سکتا۔ یہ جوتے میں نے ماضی میں کبھی ایک بار خریدے تھے۔”“ہاں، مگر کیا آپ نہیں جانتے کہ سویلین افراد کے کسی بھی حالت میں چمڑہ پہننے یا استعمال کرنے پر سختی سے پابندی عائد ہے؟ آپ کے جوتے یہیں رہیں گے۔ یہ ضبط کر لیے جائیں گے۔ ذرا ایک بار مجھے اپنی شناختی دستاویزات تو دکھائیے!“ میرے خدا، میرے پاس تو ایسی کوئی دستاویزات تھی ہی نہیں۔وہ تو گزشتہ تقریباً ایک سال سے مجھے کہیں ملی ہی نہیں،”میں نے کہا۔ اس اہلکار نے شکایتی لہجے میں ایک آہ بھری اور آواز دے کر محافظ کو اندر بلا لیا،“اس آدمی کو دفتر نمبر 194 میں پہنچا دو، کمرہ نمبر آٹھ!”

مجھے ننگے پاؤں چند سڑکوں پر چلایا گیا۔ پھر ہم دوبارہ ایک اور سرکاری دفتر کی عمارت میں داخل ہوئے، لمبی راہداریوں میں سے گزرے، ہم نے ناامیدی اور کاغذ کی بو میں سانس لیے، پھر مجھے ایک کمرے کے اندر دھکا دے دیا گیا اور وہاں ایک اور اہلکار  نے مجھ سے تفتیش کرنا شروع کر دی۔ وہ یونیفارم پہنے ہوئے تھا۔“آپ بغیر شناختی دستاویزات کے سڑک پر پائے گئے تھے۔ آپ کو دو ہزار گِلڈر جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ میں فوراً رسید بھی جاری کر دوں گا۔”“معاف کر دیجیے،”میں نے منت کرتے ہوئے کہا،“اتنی زیادہ رقم تو میرے پاس نہیں ہے۔ کیا آپ اس جرمانے کے بجائے مجھے کچھ عرصے کے لیے قید میں نہیں رکھ سکتے؟”وہ زور سے ہنسا۔“آپ کو قید کر دیا جائے؟ محترم، آپ نے یہ بات سوچی بھی کیسے؟ کیا آپ کے خیال میں ہمیں اس بات کا شوق ہو گا کہ اب آپ کو کھانا بھی کھلایا جائے؟ نہیں، میرے محترم! اگر آپ جرمانے کی یہ چھوٹی سی رقم ادا نہیں کر سکتے، تو پھر آپ سخت ترین سزا سے بھی نہیں بچ سکیں گے۔ مجھے اب سزا کے طور پر آپ کا زندہ رہنے کا سرکاری اجازت نامہ عبوری طور پر معطل کرنا پڑے گا!۔ مجھے ذرا اپنا زندہ رہنے کا سرکاری اجازت نامہ دیجیے!”میرے پاس تو وہ بھی نہیں تھا۔

اس پر وہ اہلکار مزید کچھ بھی نہ کہہ سکا تھا۔ اس نے اپنے دو ساتھیوں کو اندر بلایا، کافی دیر تک ان سے سرگوشیوں میں بات کی، کئی بار میری طرف اشارہ کیا اور سب کافی خوف اور گہری حیرت کے ساتھ مجھے دیکھنے لگے۔ پھر اس اہلکار نے میرے کیس پر مشاورت مکمل ہونے تک میرے ایک قید خانے میں پہنچا دیے جانے کا حکم جاری کر دیا۔ وہاں پہلے ہی سے کئی افراد ادھر ادھر بیٹھے یا کھڑے ہوئے تھے۔ دروازے کے سامنے ایک فوجی محافظ کھڑا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اپنے پاؤں میں کوئی جوتے نہ ہونے کے باوجود میں ان سب سے کہیں بہتر لباس پہنے ہوئے تھا۔ انہوں نے مجھے کچھ احترام اور کچھ خوف کے جذبات کے ساتھ وہاں بیٹھنے دیا۔ پھر ایک چھوٹے قد کا شرمیلا سا آدمی کچھ دھکم پیل کر کے میرے قریب آیا، بڑی احتیاط سے تھوڑا سا نیچے کی طرف جھک کر اپنا منہ میرے ایک کان کے قریب لایا اور سرگوشی میں کہنے لگا،“میں آپ کو ایک شاندار پیش کش کرتا ہوں۔ میرے پاس گھر پر ایک چقندر قندی ہے! پورا اور بہت اچھی حالت میں، وزن تقریباً تین کلوگرام۔ میں آپ کو وہ دے سکتا ہوں۔ کیا دیں گے آپ اس کا؟”یہ کہنے کے بعد اس نے اپنا کان میرے منہ کے قریب کر دیا، میں نے سرگوشی کی،“آپ خود ہی کوئی پیش کش کیجیے کہ کیا لینا چاہیں گے اس کا؟”اس نے میرے کان میں ہلکی سی سرگوشی کی،“ایک سو پندرہ گِلڈر۔”میں نے اپنے سر کو جھٹکا دیا اور پھر غور کرنے کے لیے اسے اپنے سینے پر جھکا دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس مرتبہ میں بڑے لمبے عرصے تک غائب رہا تھا۔ واپسی کے بعد دوبارہ یہاں معمول کی زندگی کا حصہ بننا مشکل ہو گیا تھا۔ میں جوتوں کے ایک جوڑے یا موٹی لمبی جرابوں کے ایک جوڑے کے لیے کافی زیادہ رقم ادا کر سکتا تھا، اس لیے کہ میرے وہ ننگے پاؤں خوفناک حد تک ٹھنڈے تھے، جن کے ساتھ مجھے گیلی سڑکوں پر پیدل چلنا پڑا تھا۔ لیکن اس کمرے میں کوئی بھی تو ایسا نہیں تھا، جو ننگے پاؤں نہیں رہا ہو گا۔

چند گھنٹے بعد مجھے اس قید خانے سے نکال کر سرکاری دفتر نمبر 285 کے کمرہ نمبر 19f میں لے جایا گیا۔ اس مرتبہ محافظ میرے پاس ہی کھڑا رہا۔ وہ میرے اور سرکاری افسر کے درمیان چوکس کھڑا تھا۔ مجھے لگا کہ وہ افسر کوئی بہت ہی اعلیٰ سرکاری اہلکار تھا۔“آپ نے خود کو واقعی بہت ہی بری صورت حال تک پہنچا دیا ہے،”اس نے بولنا شروع کیا۔“آپ اس شہر میں مقیم ہیں اور زندہ رہنے کے کسی اجازت نامے کے بغیر ہی۔ آپ کو ابھی علم ہو جائے گا کہ اس کا نتیجہ سخت ترین سزاؤں کی صورت میں نکلے گا۔”میں ہلکا سا آگے کی طرف جھک گیا۔“اگر آپ کی اجازت ہو تو،”میں نے کہا،“میری آپ سے بس ایک ہی درخواست ہے۔ میں پوری طرح سمجھ سکتا ہوں کہ میں اس صورت حال کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہوں اور میرے حالات اب مسلسل مشکل سے مشکل تر ہی ہوتے جائیں گے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ میرے لیے سزائے موت کا فیصلہ سنا دیں؟ میں اس کے لیے آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں گا۔”اس اعلیٰ اہلکار نے کچھ نرمی سے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔“میں سمجھ رہا ہوں،”اس نے نرم لہجے میں کہا،“یہ کام تو آخرکار ہر کوئی کر سکتا ہے! لیکن اس کے لیے آپ کو بہرحال پہلے ایک ڈیتھ کارڈ خریدنا پڑے گا۔ کیا آپ کے پاس اس کے لیے درکار رقم ہے؟ ڈیتھ کارڈ کی قیمت چار ہزار گِلڈر ہے۔”

“نہیں، اتنی رقم تو میرے پاس نہیں ہے۔ لیکن میں وہ سب کچھ دے دوں گا جو میرے پاس ہے، اور میری شدید خواہش ہے کہ اس کے بعد میں مر جاؤں۔”وہ اہلکار عجیب و غریب انداز میں مسکرایا۔“اس بات پر تو میں بڑے شوق سے یقین کر سکتا ہوں۔ آپ ایسی خواہش کرنے والے کوئی فرد واحد نہیں ہیں۔ لیکن مرنا اتنا بھی آسان تو نہیں ہے۔ آپ ایک ریاست کی ملکیت ہیں، محترم، اور اس ریاست کے حوالے سے آپ پر آپ کے جسم اور زندگی کی نسبت سے ذمے داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ یہ بات تو آپ کو پتہ ہونا ہی چاہیے۔ اور ہاں، میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں تو آپ کا نام سِنکلیئر ایمِیل لکھا ہے۔ کہیں آپ وہ سِنکلیئر تو نہیں جو ادیب ہے؟”“یقیناً، میں وہی ہوں۔”“اچھا، مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی۔ میں امید کرتا ہوں کہ شاید آپ کے لیے کچھ کر سکوں۔ گارڈ! اب آپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔”گارڈ کمرے سے باہر نکلا تو اس اہلکار نے ہاتھ ملانے کی نیت سے اپنا ایک ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا،“میں نے آپ کی کتابیں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھ رکھی ہیں۔”وہ وعدہ کرتے ہوئے بولا،“میں چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو لازمی طور پر آپ کی کچھ مدد کر سکوں۔ لیکن خدا کے لیے مجھے ایک بات تو بتائیے، آپ اس ناقابل یقین صورت حال کا شکار ہو کیسے گئے؟”

“دیکھیے، میں کافی عرصے تک یہاں نہیں تھا۔ میں یہاں سے فرار ہو کر کافی دیر کے لیے کائنات میں کہیں اور چلا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عرصہ دو تین برسوں پر محیط رہا ہو۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ کافی حد تک میرا خیال یہ تھا کہ جنگ شاید اب تک اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہو گی۔ لیکن، یہ بتائیے کہ کیا آپ مجھے کسی طرح کوئی ڈیتھ کارڈ مہیا کر سکتے ہیں؟ میں اس مہربانی کے لیے آپ کا انتہائی شکرگزار ہوں گا۔”“ہوسکتا ہے کہ ایسا کیا جا سکے۔ لیکن اس سے قبل لازمی طور پر آپ کے پاس زندہ رہنے کا اجازت نامہ ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر تو کچھ بھی کرنے کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ میں سرکاری دفتر نمبر 127 کے لیے آپ کے نام ایک سفارشی خط لکھ دیتا ہوں۔ وہاں سے آپ کو میری ضمانت پر کم از کم زندہ رہنے کا ایک عبوری اجازت نامہ تو مل جائے گا۔ لیکن اس کی مدت صرف دو روز کی ہوتی ہے۔”“ٹھیک ہے، یہ بھی کافی سے زیادہ عرصہ ہے۔”“ٹھیک ہے، تو پھر براہِ مہربانی واپس میرے ہی پاس آ جائیے گا۔”میں نے اس سے ہاتھ ملایا۔“ایک بات اور،”میں نے ہلکی سی آواز میں کہا،“کیا میں آپ سے ایک سوال اور پوچھ سکتا ہوں؟ آپ سوچ ہی سکتے ہوں گے کہ ان جملہ حالات میں میری سوجھ بوجھ کتنی خراب ہو گئی ہے۔”“کہیے، کہیے۔”

“اچھا، مطلب، مجھے سب سے زیادہ دلچسپی اس بات کو جاننے میں ہے، کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے حالات میں بھی زندگی رواں دواں ہی رہے؛ کیا کوئی انسان اس ساری صورت حال کا متحمل ہو جاتا ہے؟”“ہاں، بالکل! آپ ایک سویلین فرد کے طور پر بہت ہی بری حالت میں ہیں اور وہ بھی کاغذات کے بغیر۔ اب تو سویلین افراد بہت ہی کم ہیں۔ جو کوئی فوجی نہ ہو، وہ کوئی نہ کوئی سرکاری اہلکار ہوتا ہے۔ صرف اس وجہ سے ہی بہت سے لوگوں کے لیے زندگی آسانی سے بڑی حد تک قابل برداشت ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگ تو بہت خوش بھی ہیں۔ اور زندگی میں طرح طرح کی محرومیاں، ان کا تو انسان آہستہ آہستہ عادی ہو جاتا ہے۔ جب آلو یکدم ختم ہو گئے تھے، تو لوگوں کو لکڑی کے برادے سے بنائے گئے گاڑھے شوربے کا عادی ہونا ہی پڑا تھا۔ اب اس میں تھوڑا سا تارکول ملا دیا جاتا ہے، جس سے وہ واقعی بڑا ذائقیدار ہو جاتا ہے۔ شروع میں ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ یہ تو برداشت کیا ہی نہیں جا سکتا تھا، لیکن اب تو یہی کام آ رہا ہے۔ باقی سب کچھ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔”“مجھے سمجھ آ رہی ہے،”میں نے کہا،“اب یہ بات حیران کن نہیں رہی۔ صرف ایک بات مجھے پھر بھی پوری طرح سمجھ نہیں آ رہی۔ یہ بتائیے، یہ ساری دنیا اس وقت اپنی اتنی بھرپور کوششیں آخر کس لیے کر رہی ہے؟ یہ محرومیاں، یہ قوانین، یہ ہزاروں سرکاری دفاتر اور ان کے اہلکار، یہ سب کچھ کیا ہے، اس کے ساتھ کس کی حفاظت کی جا رہی ہے اور کس کی بقا کو یقینی بنایا جا رہا ہے؟”

اس پر اس اہلکار نے بڑی حیرانی سے میرے چہرے کی طرف دیکھا۔“کیا یہ ایک سوال ہے!”اس نے بے یقینی سے سر ہلاتے ہوئے کہا،“آپ جانتے ہی ہیں کہ جنگ جاری ہے، پوری دنیا میں جنگ! ہم اسی کے تسلسل کے لیے کوشاں ہیں، جس کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں، جس کے لیے قربانیاں دی جاتی ہیں۔ یہ جنگ ہی تو ہے۔ ان بے پناہ کوششوں اور اس کارکردگی کے بغیر تو فوجیں ایک ہفتہ بھی میدان جنگ میں کھڑی نہ رہ سکیں۔ انہیں فاقوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور حالات ان کے لیے ناقابل برداشت ہو جائیں گے۔”“ہاں،”میں نے آہستہ سے کہا،“لیکن یہ تو بس ایک خیال ہے! مطلب، جنگ ایک اچھی شے ہے، جس کو ایسی قربانیاں دے کر جاری رکھا جا رہا ہے! ٹھیک، مگر، مجھے ایک اور عجیب سا سوال پوچھنے کی اجازت دیجیے۔ آپ جنگ کے بارے میں اتنی اعلیٰ اور شاندار رائے کیوں رکھتے ہیں؟ کیا یہی افادیت ہے بس اس کی؟ کیا جنگ کبھی اچھی بھی ہو سکتی ہے؟”اس پر اس اہلکار نے میرے ساتھ ہمدردی کے اظہار کے طور پر اپنے کندھے اچکائے، وہ دیکھ چکا تھا کہ مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

“پیارے سِنکلیئر صاحب،“وہ بولا،“آپ اس دنیا سے بہت زیادہ اجنبیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ لیکن براہِ مہربانی باہر کسی بھی سڑک پر چلے جائیے، صرف کسی ایک انسان سے بات کر کے دیکھیے، اپنے خیالات کو ذرا سا جمع کر کے دیکھیے اور خود سے پوچھیے: ہمارے پاس بچا کیا ہے؟ اب ہماری زندگی کی بنیاد کیا ہے؟ پھر شاید آپ کو فوری طور پر صرف یہی کہنا پڑے گا: جنگ ہی تو اب وہ واحد شے ہے جو ہمارے پاس باقی بچی ہے! کسی شے سے لطف اندوز ہونا، ذاتی کامیابی، معاشرتی احساس تفاخر، لالچ، محبت، فکری مصروفیت، اب یہ سب کچھ تو باقی نہیں رہا۔ جنگ ہی وہ واحد حقیقت ہے، جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ اس دنیا میں آج بھی نظم و ضبط، قانون، خیال اور روح موجود ہیں۔ کیا آپ یہ سب کچھ نہیں دیکھ سکتے؟”

ہاں، پھر مجھے یہ سب کچھ نظر آنے لگا تھا۔ میں نے اس اہلکار کا دلی شکریہ ادا کیا، پھر سرکاری دفتر نمبر 127 کے نام اپنے بارے میں لکھا گیا سفارشی خط مشینی انداز سے اپنی جیب میں ڈالا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ اس خط کو استعمال میں لاؤں۔ میں بالکل نہیں چاہتا تھا کہ ایسے مزید کسی اور سرکاری دفتر میں جا کر وہاں بیچینی اور بدمزگی کی وجہ بنوں۔ اور پھر اس سے پہلے کہ میرے پہچان لیے جانے کے بعد دوبارہ تفتیش شروع کر دی جاتی، میں نے دل ہی دل میں وہ چھوٹی سی ستاروں کی دعا پڑھی، اپنے دل کی دھڑکن روکی، اپنے جسم کو قریبی جھاڑیوں کے سائے میں یکدم غائب ہو جانے دیا اور پہلے کی طرح کائناتی سیاحت پر نکل پڑا، اس مرتبہ دوبارہ گھر واپسی کا سوچے بغیر۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *