Home » قصہ » پھول ۔۔۔ میکسم گورکی/پروین کلّو

پھول ۔۔۔ میکسم گورکی/پروین کلّو

ایک گرم اور امس والی دوپہر ہے۔ ابھی ابھی کہیں ایک توپ چلی ہے جس کی عجیب اور دبی دبی سی آواز ایک دیو ہیکل، گندے انڈے کے پھٹنے کی آواز سے ملتی جلتی ہے۔ اور فضا میں، جو اس دھماکے سے مرتعش ہوگئی ہے۔ شہر کی تمام بوئیں۔۔۔ زیتون کے تیل، لہسن، شراب اور دھوپ میں تپی ہوئی گرد کی بوئیں۔۔۔ اور بھی زیادہ تیز معلوم ہونے لگی ہیں۔

ایک گرم جنوبی دن کا شور و شغب، جو ایک لمحے کے لیے فٹ پاتھ کے گرم پتھروں پر توپ کی بھاری صدائے  بازگشت میں دب گیا تھا اب پھر سڑکوں پر بلند ہوتا ہے اور ایک کشادہ اور گدلے دھارے کی شکل میں سمندر کی طرف بہہ جاتا ہے۔

شہر کسی پادری کے خوبصورتی سے کڑے ہوئے زرق برق لبادے کی طرح رنگا رنگ اور چمک دار ہے۔ اس کی جذباتی اور پر جوش چیخوں، کراہوں اور پکاروں میں نغمہِ زندگی کی جھنکار ہے۔ ہر شہر ایک انسانوں کی محنت سے تعمیر شدہ عبادت خانہ ہے، اور ہر قسم کی محنت مستقبل کی بارگاہ میں ایک دعا ہے۔

سورج نصف النہار پر ہے اور نیلے آسمان سے ایک خیرہ کن تپش اس طور پر نیچے ٹیک رہی ہے گویا زمین اور سمندر پر پڑتی ہوئی سورج کی ہر کرن پتھر اور پانی کے دل میں گھستی ہوئی ایک آتشیں تلوار ہو۔ پانی نقرئی کام سے پوری طرح مزین، چمک دار ریشم سے مشابہ ہے، اس کی گرم گرم، سبزی مائل موجیں نیم خوابیدہ سے انداز میں ساحل کو چوم رہی ہیں اور پانی زندگی اور مسرت کے سرچشمے۔۔سورج۔۔۔۔کی شان میں دھیرے دھیرے اپنا نرم وملائم گیت گا رہا ہے۔

گرد آلود پسینے میں شرابور لوگوں کے گروہ کے گروہ اونچی اور مسرور آوازوں میں باتیں کرتے ہوئے اپنے دوپہر کے کھانے کے لیے دوڑے جارہے ہیں۔ ان میں سے اکثر ساحل کی طرف دوڑجاتے ہیں اور اپنے میلے کچیلے کپڑوں کو اتار ڈالتے ہیں اور سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں۔ جس وقت وہ پانی میں کودتے ہیں تو ان کے تمیائے ہوئے جسم مضحکہ خیز حد تک چھوٹے چھوٹے معلوم ہوتے ہیں جیسے شراب کے ایک بہت بڑے سے پیالے میں گرد کے سیاہی مائل دھبے تیر رہے ہوں۔

پانی کی ریشمی چھپ چھپ، تازہ دم نہانے والوں کی مسرت بھری چیخیں، بچوں کے بلند قہقہے اور خوشی کی چیں چیں اور بہت سے لوگوں کے پاؤں سے اچھلے ہوئے پانی کی قوس قزح کے رنگوں کی پھوار، سب چیزیں سورج کی جانب اس کے حضور میں ایک شوخ اور شاداب قربانی کی طرح رواں دواں تھیں۔

فٹ پاتھ پر ایک اونچی سی عمارت کے سائے میں چار کھدائی کرنے والے مزدور۔۔۔ ان پتھروں ہی کی طرح، جن پر وہ بیٹھے ہیں، مٹیالے، سوکھے اور مضبوط۔۔ کھانا کھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایک سفید بالوں والا بوڑھا جو گرد کی راکھ جیسی موٹی تہوں سے ڈھکا ہوا ہے، اپنی تیز اور چوکس آنکھوں کو چند ھیائے بڑی احتیاط سے ایک لمبی سی روٹی کاٹ رہا ہے کہ کوئی ٹکڑا دوسرے سے چھوٹا نہ ہوجائے۔ وہ ایک لال بنی ہوئی ٹوپی اوڑھے ہے جس کا پھندنا اس کی آنکھوں پر گر گر پڑتا ہے اور تھوڑی تھوڑی دیر میں وہ اپنے بڑے سے، پیغمبرانہ قسم کے سرکو ایک جھٹکا دے لیتا ہے اور اس کی لمبی، طوطا چونچ ناک کے نتھنے پھڑکنے لگتے ہیں۔

اس کے پاس ہی تپتے ہوئے پتھروں پر ایک بے حد سیاہ بالوں والا تنومند نوجوان ٹانگیں پسارے پڑا ہے۔ اس کے چہرے پر روٹی کے ریزے بھورے گر رہے ہیں مگر وہ بس کاہلی سے آنکھیں جھپکا دیتا ہے اور کوئی دھن اس طرح گنگنا رہا ہے جیسے نیند کے عالم میں ہو۔ باقی دو مکان کی سفید دیواروں سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور اونگھ رہے ہیں۔

ایک لڑکا اپنے ایک ساتھ میں ایک شراب کی بوتل اور دوسرے میں ایک چھوٹا سابنڈل لیے ہوئے ان لوگوں کی طرف آتا ہے۔ اوہ اپنا سر پیچھے کی طرف ڈال کر چڑیا کی سی چھوٹی آواز میں چیخ کر کچھ کہتا ہے اور اسے بالکل احساس نہیں ہے کہ گاڑھی شراب لالہ رنگ کے بڑے بڑے قطرے بوتل کے گرد لپٹے ہوئے تنکوں کے کیس میں سے رس رس کر گر رہے ہیں۔

لیکن بوڑھا آدمی دیکھ لیتا ہے اور روٹی اور چاقو کو نوجوان کے سینے پر رکھ کر وہ لڑکے کی طرف اپنا ہاتھ ہلاتا اور چیختا ہے:

”جلدی کرو، اندھے! دیکھتے نہیں ہو تم شراب گرا رہے ہو!“

لڑکا بوتل کو اونچا کر کے چہرے کے قریب لاتا ہے منہ کھولتا ہے اور تیزی سے مزدوروں کی طرف دوڑجاتا ہے اور وہ سب ایک ساتھ ہلتے جلتے ہیں، ہیجانی انداز میں چیختے ہیں اور بوتل کو چھو چھو کر دیکھتے ہیں اور اسی عرصے میں لڑکا ایک احاطے کے اندر دوڑجاتا ہے اور فوراً ہی ایک بڑا سا زرد جگ لیے ہوئے دوبارہ نمودار ہوتا ہے۔

وہ جگ کو زمین پر رکھ دیتا ہے اور بوڑھا احتیاط سے اس جیتے جیتے، لال دھارے کو جگ میں انڈیلتا ہے۔ چار جوڑی آنکھیں بڑی محبت سے دھوپ میں چمکتی ہوئی شراب کو دیکھتی ہیں اور ان لوگوں کے سوکھے ہونٹ بدنیتی سے کانپنے لگتے ہیں۔

ایک عورت اپنے سیاہ بالوں پر ایک سنہری تاروں سے بنا ہوا رومال باندھے اور ہلکے نیلے رنگ کا لباس پہنے اس طرف آتی ہے، اس کے اونچی ایڑی کے بھورے جوتے ایک صاف اور بلند آواز پیدا کر رہے ہیں۔ وہ ایک گھونگر یالے بالوں والی چھوٹی سی بچی کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہے جو اپنے ہاتھ میں گلناری رنگ کے کارنیشن کے پھول لیے، انہیں ہلاتی، لہراتی، گاتی چلی آرہی ہے؟”اوما، اوما، اومیا میا۔۔۔“

بوڑھے مزدور کے پیچھے رک کر ننھی بچی گانا بند کر دیتی ہے، انگوٹھوں کے بل کھڑی ہوجاتی ہے اور بڑی سنجیدگی سے بوڑھے کی کندھوں کے پیچھے سے زرد رنگ کے جگ میں گرتی ہوئی شراب کو دیکھتی ہے جس کی قلقل کی آواز خود اس کے گیت ہی کا اگلا حصہ معلوم ہوتی ہے۔

وہ عورت کے ہاتھ میں سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتی ہے، سرعت سے اپنے پھولوں کی ایک ایک پنکھڑی الگ کرتی ہے اور اپنے گوریا کے پر جیسے بھورے بھورے ننھے منے ہاتھ کو اوپر اٹھا کر ان پنگھڑیوں کو شراب کے جگ میں ڈال دیتی ہے۔

چاروں آدمی چونکتے ہیں اور غصے سے اپنے گرد آلود سر اٹھاتے ہیں۔ ننھی بچی تالیاں بجاتی ہے اور زور زور سے زمین پر اپنا چھوٹا ساپاؤں مار مار کر ہنستی ہے۔ محبوب ماں ایک تیز اور اونچی سی آواز میں اسے ڈانٹتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ لڑکا ہنسی کے مارے دوہرا ہوجاتا ہے۔ اور پھولوں کی پنکھڑیاں جگ کے اندر رکھی ہوئی گہرے رنگ کی شراب کی سطح پر ننھی منی گلابی رنگ کی کشتیوں کی طرح تیرتی ہیں۔

بوڑھا ایک گلاس نکالتا ہے، اس میں پھولوں سیمت شراب انڈیلتا ہے، اٹھتا ہے اور گلاس کو اپنے ہونٹوں تک لے جاتے ہوئے ایک سنجیدہ اور تشفی بخش آواز میں کہتا ہے:

”کوئی بات نہیں، سینیورا! بچے کا تحفہ تحفہ ِخداوندی ہے۔۔۔آپ کا جام صحت، حسین سینیورا اور بچی تمہارا بھی! خدا کرے تم اپنی ماں کی طرح خوبصورت اور ان سے دو گنی خوش وخرم ہو!“

وہ اپنی سفید مونچھوں کے سرے گلاس میں ڈبو دیتا ہے، اپنی آنکھیں سکیڑتا ہے اور آہستہ آہستہ شراب کے گھونٹ لیتا ہے اور خوب زور زور سے چٹکارے لیتا اور اپنی ٹیڑھی ناک پھڑکا تا جاتا ہے۔

ماں مسکراتی ہے، سرخم کرتی ہے اور بچی کا ہاتھ پکڑے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہے۔ اور بچی فٹ پاتھ پر پاؤں مارتی ہوئی، جھومتی گاتی چلی جاتی ہے:

”اوما۔۔۔اومیاما۔“

مزدور کابلی سے گردنیں موڑتے ہیں، کبھی شراب کو دیکھتے ہیں، کبھی ننھی بچی کو اور مسکراتے اور اپنی تیز رفتار جنوبی بولی میں ایک دوسرے سے کچھ کہتے ہیں۔۔۔

اور جگ میں پھولوں کی گلنار پنکھڑیاں ابھی تک قرمزی شراب کی سطح پر تیر رہی ہیں۔

سمندر گا رہا ہے، شہر غنغنا رہا ہے، سورج آب و تاب سے چمک رہا ہے اور اپنی جادو کی کہانیوں کا تانا بانا بن رہا ہے۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *