Home » شیرانی رلی » سیل زماں کی ضرب ۔۔۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی

سیل زماں کی ضرب ۔۔۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی

احمدو ترکھان کی دوکان سے

کچھ دور ٹیڑھے موڑ پر

اک پرانے پیڑ کے

کچھ ٹمٹماتے سائے میں

پیرہ خیر احمد کے بُجھتے قہقہے

اور قہقہوں کے درمیاں

آنسوؤں کے زہر سے لکھی گئی اِک داستان

اِک داستاں، در داستاں، در داستاں

داستاں کی اصطلاح جو کہ شوگر کوٹ ہے

گردن بچانے کے لیے

سچ کو بیاں کرنے کا اک انداز ہے

داستانوں نے ہی ہم تک

وہ حقائق اور وہ سچائیاں پہنچائی ہیں

جو مؤرخ ڈر کے مارے کر نہیں پاتا بیاں

جو مؤرخ ڈر کے مارے کر نہیں پاتا بیاں

داستاں گو ایسی سچائی کو پہنا کر لباسِ دلفریب

دیر تک اور دور تک محفوظ کرتا جاتا ہے

داستاں گو ہر حقیقت گو کہ کرتا ہے بیاں

ہاں مگر کردار اور ادوار کے

ناموں کی تبدیلی کے ساتھ

اپنے لہجے کی نفاست

اپنی صنائی کے تیشے

سے وہ سچائی کی لہریں

سنگِ خارا سے بنے

ہر قصر تک پہنچاتا ہے

اور وہاں کی

 

سب غلاظت

سب نجاست

سب عفونت

اور کراہت

ڈھانپ کر اک پردہِ خوش رنگ میں

سامنے لاتا ہے خلقِ شہر کے

 

پیرہ خیر احمد نے اپنا سنسناتا قہقہہ

پیڑ سے کچھ دور تھو کا اور پھر کہنے لگا

مشتے از خروار کی مانند یہ قصہ سُنو

کچھ صدی پہلے کسی نگری کا عادل حکمراں

دوسرے سب حکمرانوں کی طرح عادل تھا وہ!!۔

خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ کوئی کتا غلیظ

اُس کے دسترخوان پر

ساتھ اس کے محوِ خوردونوش ہے

غیظ کے عالم میں جاگا بادشاہ

خواب کی تعبیر کیا ہوگی یہ پوچھا

اُس نے اپنے اِک وزیرِ خاص سے

وہ وزیر خاص جو کہ تھا!میں

دربار کے اور قصر کے ہر راز کا

دست بستہ عرض کی اُس نے کہ اے شاہِ زماں!

قصر کے ہر کنج کی تفتیش کروا لیجیے

قصر کے ہر کنج کی تفتیش جب ہونے لگی

اُس کی ملکہ یوں لگا جیسے کہ گھبرانے لگیں

بھانپنے والوں کی نظریں

اُن کی نظروں کے تعاقب میں روانہ ہوگئیں

اور جاکے ٹہریں

قصر کے اک کنج میں رکھے ہوئے

 

 

اک پرانے اور بڑے صندوق پر

حکمِ شاہی پر اسے کھولا گیا

چشمِ حیرت منجمد ہونے لگی

دیکھتے کیا ہیں کہ اس صندوق میں

بند ہے اک دیو قامت، سیاہ رنگت کا غلام

صبح سے ہر شام تک رہتا تھا وہ اس قید میں

رات پڑتے ہی درِ زندان کھلتا اور پھر

رات بھر جشی غلام

رقصِ آزادی میں ہوتا سربسر محوِ نشاط

اور اس کی محویت کی وجہ، ملکہ عالیہ

زندگی کے سارے رس اور ذائقے

اپنے اندر جذب کرتی رہتی اور

صبح دم حبشی غلام

پھر اُسی صندوق کا قیدی بنا

منتظر رہتا شبِ خوش رنگ کا

بادشاہ ِ عدل نے ڈالی نظر

طیش کے عالم میں ملکہ کی طرف

پر ملکہ دیکھتی تھی اُس طرف

جس طرف تھا رزقِ شب

بادشاہِ صاحبِ انصاف کا

تھیں کنیزیں سینکڑوں

ہر عمر کی

ہر نسل کی

ہر روپ کی

جن کے چہروں پر تھا اُس دم

اک تبسم

منتقم

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *