Home » شیرانی رلی » وحید نور

وحید نور

اْس کے آنکھ جھپکنے کی آواز ابھی تو آئی تھی

خواب کا در بھی کْھلنے کی آواز ابھی تو آئی تھی

 

کس نے کہا تھا جاں دینے کی رسم کبھی کی ختم ہوئی؟

پروانوں کے جلنے کی آواز ابھی تو آئی تھی

 

زنداں کی سونی دیواریں کس کے گیت سناتی ہیں

زنجیروں کے ہلنے کی آواز ابھی تو آئی تھی

 

اک لمحے میں فصلِ گْل کا رستہ کس نے روک دیا؟

بادِ صبا کے  چلنے کی آواز ابھی تو آئی تھی

 

دستک تھی یا کوئی بغاوت کا ہنگامہ، کیا کچھ تھا؟

دروازے کے گرنے کی آواز ابھی تو آئی تھی

 

جشن مناتے سناٹوں کے پار کہیں کسی وادی میں

آوازوں کے اٹھنے کی آواز ابھی تو آئی تھی

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *