Home » پوھوزانت » نظامِ تعلیم تباہ ہے ۔۔۔ سالم بلوچ

نظامِ تعلیم تباہ ہے ۔۔۔ سالم بلوچ

                یہ غالباً25 فروری کا دن تھا جب میں آواران سے حب چوکی اپنے کزن کے گھر  آگیا تھا۔چونکہ مجھے ایک دو دن میں کوئٹہ کے لیے نکلنا تھا تو اس بات کا ذکر میں نے اپنے کزن کے ساتھ بھی کیا تھا۔ میرے کزن کے دریافت کرنے پر میں نے اسے بتایا تھا کہ اندرون ِ بلوچستان تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہاں سے والدین اپنے کم سن اور غریب بچوں کو پڑھنے کے لیے کوء ٹہ بھیجتے ہیں۔ تو اس نے  مجھے اپنے دو بچے اپنے ساتھ کوئٹہ پڑھائی کیلئے لے جا نا کا کہا۔یہ حال سن کر میرے دوسرے کزن نے بھی اپنا بیٹا جو بارہ سال کا تھا میرے حوالے کیا۔خیر میں نے ان کو اپنے ساتھ لے جانے کی حامی بھری۔پہلے تو ٹرانسپورٹ والے نے  فی کس دو ہزار کا مطالبہ کیا لیکن اپنی طالبعلمی کی شناخت کرانے پر اس نے کچھ ریایت کی۔ 26 فروری کی رات میں ان تینوں بچوں کے ہمراہ  حب چوکی سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوا۔8 گھنٹے کا طویل سفر ہم نے طے کرلیا اور سریاب روڈ پر اترے۔اترنا کیا تھا کہ ہر طرف رکشہ ڈرائیوروں کا شور تھاکہ کہاں جانا ہے۔آجاؤ آجاؤ۔ ہم کسی طرح کرکے ایک رکشے پہ سوار ہوگئے اور اپنے کمرے جو  گولی مار چوک پر واقع ہے پہنچ گئے۔ جب کمرے کے سامنے آگئے تو ہمارے کسی کے پاس بھی کمرے کی چابی برآمد نہیں ہوئی۔ اب کمرہ کھولنے کا واحد راستہ تالے کو توڑنا رہ گیاتھا اور ہم نے وہی کرکیا۔

                چونکہ بچوں کے لیے یہ پہلا تجربہ تھا کہ گھر اور علاقے سے باہر رہنے کے لیے نکلے تھے۔اسی لیے شروع کے کچھ دن ان کے لیے اور خود میرے لیے بھی بہت تکلیف دہ تھے۔ بچے ابھی نئے ماحول اور علاقے سے ہم آہنگ نہیں تھے کہ پہلی تاریخ آگئی اور پلازے کے چوکیدار نے کرایہ لینے کے غرض سے دروازے پر دستک دی۔ جب ہم نے اس سے یہ کہا کہ ہم نے اپنے والد کو پیغام بھیجا ہے اور وہ جلد ہی پیسے بھیجنے والے ہیں اور اس وجہ سے اب تک نہیں بھیج سکے ہیں کہ ہمارے علاقے میں بارشیں بہت ہوئی ہیں اور ہمارے گاؤں سے بینک جو کہ آواران بازار میں واقع ہے پہنچنے میں بہت سے سیلابی دریارکاوٹ ہیں تو وہ یہ کہہ کر غصے سے روانہ ہوا کہ اس کاذمہ دار وہ نہیں ہے.اس کے جانے کے بعد میں نے بچوں کی آنکھوں میں خوف اور گھبراہٹ دیکھی۔

دوسرے دن جب والد صاحب نے پیسے بھیجے تو میں نے فوراً کمرے کا کرایہ جمع کرالیا۔پیسے آنے کے بعد میں نے بچوں کو فیصل ٹاون کے ایک پرائیویٹ سکول میں داخلہ دلوادیا اور ان کو لانے لے جانے کے لیے ایک بولان گاڑی والے سے بات کی۔ چونکہ میرے  پلازے میں میرے دوسرے دوستوں کے بھی کمرے تھے۔ لہذا ان لوگوں نے بھی اپنے دو بچے میرے بچوں کے ساتھ سکول بجھوا دیے۔اب وہ باقاعدگی سے صبح سکول اور سہ پہر لینگویج سینٹر میں انگلش سیکھتے تھے۔ شروع میں و ہ شوق سے پڑھتے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ تھکن محسوس کرنے لگے۔کیونکہ یہ بچے اپنے گھر  کے ماحول سے بہت دور تھے۔گھر میں جیسے ہی شام کا کھانا کھاتے تو سوجاتے لیکن اب وہ رات 11,12 بجے تک پڑھتے ہیں۔ ا س لیے کہ یہاں پہ سب طالبعلم ایسا ہی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اب یہ بچے کمرے میں جھاڑولگاتے,برتن دھوتے, کھانے کا سامان لاتے,اپنے بوٹ پالش کرتے حتی کہ وہ اسکول کا یونیفارم بھی خود دھو تے ہیں۔جبکہ اپنے گھر میں ان کے یہ کام ان کے والدہ کرتی تھیں.اگر ہم جیسے نوجوان لڑکوں کو ایسے کام کرنے پڑیں۔تو کوئی مسلہ نہیں لیکن ایک دس بارہ سال کے بچے کے لیے یہ کام نہایت مشکل ہیں۔اس کے علاوہ کوئٹہ جیسے سرد علاقے میں صبح سویرے اٹھنا,اپنے لیے پانی گرم کرنا،نہانا،سکول کے لیے تیار ہوجانا۔۔۔۔ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کبھی پانی,کبھی بجلی تو کبھی گیس چلا جاتا ہے تب نیچے ٹینکی سے  ایک ایک جگ کی مقدار میں پانی لانا پڑتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہینے کی بیسویں تاریخ میں ہی ہمارے پیسے ختم ہوجاتے ہیں تو پریشانی کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی۔ایسا پہلے بھی ہمارے ساتھ ہوتا رہا ہے کہ مہینے کے وسط میں ہی ہمارے پیسے ختم ہوجاتے تھے۔ لیکن بچوں کی موجودگی میں پیسوں کا ختم ہونا بہت تکلیف دِہ ہوتا ہے۔جب کھانے کا وقت آتا ہے اور بچے سکول سے واپس آکر بہت بھوکے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جلدی کھانا منگواؤبھوک لگی ہے تو یقین کریں آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوجاتے ہیں اور سب سے تکلیف دِہ عمل یہ ہے کہ ایسا صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ سب طالبعلم جو باہر سے پڑھنے کے لیے یہاں آتے ہیں ان سب کو یہ واقعات پیش آتے ہیں۔اس کے علاوہ ایسی بہت سی تکلیفیں ہوتی ہیں جنہیں ہم بڑی عمر کے لوگ شا ید برداشت کرسکیں لیکن بچوں کے لیے یہ ناقابل برداشت ہیں.

یہ بڑی مشہور کہاوت ہے کہ صحت سب سے بڑی دولت ہے۔ بلکل اسی طرح یہ بچے جب صحت مند ہوتے ہیں تو ادھر ادھر کرکے اپنے کام کرلیتے ہیں لیکن موسم کی تبدیلی کی وجہ سے جب ان کو کوئی زکام,بخار وغیرہ جیسی بیماری ہوتی ہے تو بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ کیونکہ بلوچستان کیوبا نہیں  جہاں صحت کی تمام  اچھی سہولیات موجود  ہوں۔ یہاں انسان کو بی ایم سی  ہسپتال میں جاکر لمبی لائن میں کھڑا رہنا ہوتا ہے تاکہ ایک پرچی لے سکے۔ اس کے بعد جاکر ڈاکٹر سے ملنا نصیب ہوتا ہے جو آپس میں گپ شپ لگانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ گپ شپ کے دوران ڈاکٹر بادل ناخواستہ پرچی پر ایک آدھ دوالکھ ڈالتا ہے اور دوسرے مریضوں سے ملنے لگتا ہے۔کبھی کبھی تو میں سوچتا ہوں کہ ہم تو ادھر ادھر کرکے بی ایم سی تک جاتے ہیں اور کوئی واقف ڈاکٹر مل ہی جاتا ہے اور اچھا علاج کرتا ہے لیکن ان طالبعلموں کا کیا ہوگا جو بی ایم سی سے دور رہتے ہیں۔وہ توپرائیویٹ کلینکوں میں اپنے سارے مہینے کا خرچہ ڈاکٹرفیس کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر کوئی چھوٹی موٹی بیماری پکڑ لے تو خیر ہے لیکن جب ہیپاٹاہیٹس جیسی بڑی بیماری پکڑ لے تو بہت تشویش ہوتی ہے چونکہ کوئٹہ کے تقریباً تمام سٹوڈنٹ ہاسٹلوں میں پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کیا جاتا ہے تو ان طالبعلموں کی اکثر یت ہیپاٹاہیٹس جیسے موزی مرض میں مبتلا ہوتی ہے۔ہم جب بھی ہاسٹل مالک سے پانی کو صاف کرنے کے لیے فلٹر کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ یہی کہتا ہے کہ پیسے جمع کرکے دیدو میں لاتا ہوں. وہ ایسا ردعمل دیتا ہے جیسے پلازے کے مالک وہ نہیں ہم ہیں۔ظالم وہ نہیں ہم ہیں۔ہمارے بار بار کے مطالبوں نے کوئی خاص فائدہ نہیں دیا البتہ مالک نے کمرے کا کرایہ ایک ہزار مزید بڑھا دیا۔

غرض ہم  مسافر طلباکے لیے یہی قیمت کا  بڑھنا نصیب ہوتا ہے۔ جیسے کمرے میں جاؤ۔ کمرے کا کرایہ بڑ ھ گیا ہے بس پر سوار ہوجاؤ۔ بس کا کرایہ بڑھ گیا ہو۔ اکیڈمی میں جاؤ۔ اس کی فیس ڈبل ہوگئی ہے۔ اگر اچانک کوئی ان سے ان قیمتوں میں بڑھنے کی  وجہ پوچھے تو یہی کہتے ہیں کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ جیسے مہنگائی کا یہ پہاڑ صرف ان کے اوپر گرا ہے ہمارے نہیں۔صرف انکے کھانے کی اشیا اور ضروریات زندگی کے سامانوں کی قیمتیں بڑھ گئیں ہماری نہیں.

آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ طالبعلمی کا زمانہ  بھی عشاق کے قافلے جیسا ایک عمل ہے۔ ایک کارواں  ہے، ایک سفر ہے۔ایک ایسا سفر  جس کی منزل بھی سفر ہی ہے.اور یہ ہزاروں مشکلات کے باوجود نہ صرف  جاری و ساری رہتا ہے بلکہ اپنی تمام منزلیں ایک ایک کرکے عبور کرتا جاتا ہے۔۔۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *