Home » پوھوزانت » بشیر بلوچ ۔۔۔ باقی بلوچ

بشیر بلوچ ۔۔۔ باقی بلوچ

بشیر بلوچ بلوچی اور براہوی کے خوبصورت گلوکار ہیں۔ اس نے بہت ہی مقبول گانے گائے۔ ہمارے فوک کو زندہ رکھنے اور زندگی بخشنے میں اِس بڑے فنکار کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ مگر ہمارا یہ بزرگ فنکار مالی طور پر بہت ابتر حالت میں ہے۔ ریڈیو، ٹی وی اور دوسرے اداروں کے فنڈز کم کرنے کا اثر فنکاروں کے چولہے پہ بہت برا پڑا ہے۔ بلوچستان میں آرٹ، کلچر اور موسیقی کو تباہ کن نقصان پہنچ رہا ہے۔

ہماری صوبائی حکومت کی کوئی کلچر ل پالیسی نہیں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد آرٹ اور کلچر کا محکمہ صوبائی حکومتوں کے پاس آگیا ہے۔ یوں ساری ذمہ داری ریاست (صوبے)کی ہے کہ وہ اپنے فنکاروں کو مالی طور پر پریشان نہ ہونے دے۔

بشیر بلوچ کوئی معمولی فنکار نہیں کہ اُسے یوں قسمت کے حوالے کیا جائے۔ کلچر ڈیپارٹمنٹ اور اس کے وزیر مشیر براہِ راست بشیر بلوچ کی کفالت وبہبود کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں اِس فریضہ سے فرار ہونے کی اجازت ہر گز نہیں ہے۔

بشیر بلوچ آج بہت بدحال ہے۔ چہرے، تاثرات، باڈی لینگوئج، خاموشی، حساسیت، تصورات کی دنیا، اُٹھنا، بیٹھنا، دوست، ساتھی، رشتے، رہن سہن، کپڑوں سے بھی انسان کی معاشی حالات کا پتہ چلتا ہے۔

کیونکہ خاموشی کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔

لازمی تو نہیں کہ ہر ایک بات کو زبان پہ لانا پڑے۔

سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ کون کس حال میں جی رہا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے۔بہرے، گونگے اور غلامانہ سماج میں صاحب حیثیت لوگ، صاحب اختیار لوگ، ادبی ادارے، ادب اور سیاست کے کرتا دھرتا سب چپ سادھ لیتے ہیں۔ منہ پھیرلیتے ہیں۔

واللہ۔۔ یہ ڈوب کر مرجانے کا مقام ہے۔ ان مراعات یافتہ طبقہ اور ادبی دم چھلوں کیلئے جو بشیر بلوچ جیسے لی جینڈز کی وجہ سے ان کی دکانداری اور پروٹوکول قائم ہے۔

بشیر بلوچ نے دل شکستہ، دل گرفتہ حالت میں گانا گا کر کہا۔۔

آدمی کے مارے ہیں آدمی سے ڈرتے ہیں

 

اگر اس گانے کے بیک گراؤنڈ اور آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو بشیر بلوچ کی حالت زار کھل کر نظر آتی ہے۔ اور لبوں پر شکوہ اس چیز کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اس معاشرے سے بہت زیادہ مایوس ہوچکا ہے۔ اس کے الفاظ بے قدری کا رونا رو رہے ہیں۔

قومی اور بین الاقوامی سطح پر 132سے زیادہ ایوارڈ وصول کرنے والا فنکار آج صاحب اختیار لوگوں سے صرف دو وقت کی روٹی کی التجا کرتا پھرتا ہے۔ لیکن کوئی سننے والا نہیں۔۔؟

اس سے قطع نظر افسوس ان لوگوں کی سوچ اور ضمیر پر ہے جو کچھ تھوڑا سا پیسہ اس کے ہاتھ میں تمھا کر، احسان جتا کر فوٹو کھچوا کر سوشل میڈیا پر  اپلوڈ کر رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہم اپنے فنکاروں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کر رہے ہیں۔

زبان کو اصل شناخت اور پہچان دینے والے یہی لوگ ہیں جو ریڈیواور ٹی وی پر دن رات ایک کر کے اپنی فیملی، دوست، عزیز و اقارب سے زیادہ، اپنی زبان کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔

لیکن بدقسمتی سے اس وقت بھی ہمارے اداروں پر ایسے لوگ مسلط تھے کہ جن کی سرے سے ترجیحات میں زبان شامل ہی نہیں تھے ۔ ان لوگوں نے ہمارے فنکاروں کا استحصال کیا، اور ان کی وجہ سے ہماری زبان کو شدید نقصان پہنچا۔ اور اگر وہ لوگ نہ ہوتے تو ہماری زبان اور زیادہ ترقی کرتی اور نیا ٹیلنٹ سامنے آتا۔اکثر ہم سنتے آتے ہیں، کہ ہم مردہ پرست قوم ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ ہمارے سماج کے لیے ایک چھوٹا سا لفظ ہے۔ ہم تو اس سے بھی نیچے گرچکے ہیں۔

یہ ہمارے اداروں اور سماج کی ناکامی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے پاس رونے اور افسوس کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا ہے۔

بشیر بلوچ اور اس کے بچوں کے لیے عملی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ جھوٹی تسلیوں اور الفاظ کے ہیر پھیر سے مسئلے حل نہیں ہونگے۔

 

مہنگے کپڑے سستے لوگ

بھاڑ میں جائیں ایسے لوگ

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *