Home » قصہ » درگاہ ۔۔۔ راشدہ قاضی 

درگاہ ۔۔۔ راشدہ قاضی 

ُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُٓٓٓ ُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُاُس رات ’ہوا کیا تھا؟

کِس رات؟

سب کہتے ہیں کہ شہبا ز والی شیر یں کِسی سَے ملنے گئی تھی۔

یا ر خود سو چو کہ اگر وہ شہبا ز والی شیر یں تھی تو پھر ملنے بھی شہباز کو گئی ہو گی۔

اس بات کو 30سال بیت گئے۔مگر آج تک یہ گتھی نہیں سلجھی اُس رات آخر ہوا کیا تھا۔

تو اب مٹی ڈالو۔30سا ل بعد بچا کیا ہَے؟

یار!تم فو راََانگلینڈچلے گئے تھے۔شیر یں تک میری رسا ئی نہ تھی۔مگر ذہن اسی جگہ ٹھہرا ہے کہ ہُوا کیا تھا۔

کچھ بھی نہیں ہُو اتھا یار!بس زیبِ داستا ن کے لئے لو گو ں نے کہا نیا ں گھڑی ہیں۔

تم جھو ٹ بول رہے ہو شہبا ز!میں نے تمہارے سرائیکی افسا نے میں 30برس قبل شیریں کی روشن کلائیوں میں سو نے کی 4چو ڑیاں دیکھی ہیں۔

یا ر! و ہ ا فسا نہ شیر یں پہ نہیں ہے۔ اُ س میں تو ہیر و مر گیا۔

ہیر و تم نے بیو ی کے ڈ ر سے ما راہے۔ و ر نہ وہ آ ج بھی شہبا ز و ا لی شیر یں کے سا تھ ز ند ہ ہے۔

بکو ا س نہ کر یا ر! نہ وہ عمر ر ہی نہ جذ بے ا و ر نہ ہی ولو لے۔

تم عمر ما ر و ی کی طر ح شیر یں کے سا تھ لا ز م ہو۔

ا چھا! تم کہتے ہو تو ما ن لیتا ہو ں۔

یا ر! خد ا کے لیے بتا کہ اُ س را ت ہو ا کیا تھا؟

چلو بتا د یتا ہو ں۔

جی جی !۔

تمہیں خبرہی ہے۔ کہ شیر یں میر ے بغیر سا نس نہیں لے سکتی تھی۔

ہم سب کی آ نکھو ں میں د ھو ل جھو نک کرملا کر تے تھے۔

سب کو پتہ تھا۔ مگر کسی کے پا س ثبو ت نہ تھا۔

ایک بار تپتی دو پہر کو ہم سائیں کی درگاہ پہ ملے۔مگر اچانک وہاں شیریں کا بھائی آگیا۔ میں لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو کر بچتابچاتا۔ صحرا میں نکل گیا۔شیریں کا بھائی مجھے ڈھونڈتا ہی رہا۔

مگرمیں صحرا میں اُترگیا۔اتفاق دیکھو!کہ درگاہ سے نکلتے اورصحرا میں اُترتے ہوئے مجھے کسی بچے کی گری ہوئی عینک ملی۔ سُرخ چمکیلے کا غذسے اُس عینک کے شیشے بنائے گئے تھے۔میں اُس عینک کو دلچسپی سے دیکھتا ہوا آگے بڑھا۔ راستے میں آند ھی آتے ہی وہ عینک میں نے آنکھوں پہ لگا ئی۔ریت کے بگولے عجیب کھیل  کھیل رہے تھے۔ میری آنکھیں بھی بچ گئیں۔ اور ایک رنگ محل میرے سامنے سج گیا۔ریت کو میں نے اتنا حسین کبھی نہ دیکھا تھا۔اُس دن مجھے لگا کہ اس دنیا میں ریت حسن ہے اور شیریں خوشی۔

ریت کا یہ ر نگین ر قص ا بھی تک میر ی آنکھو ں کے سا منے ہے۔میں نے ریت میں شیر یں کو سر خ جوڑاپہنا کے اپنے رو برو کیا۔اس کی کلا ئیو ں میں سو نے کی4چو ڑ یو ں کی جگہ میں نے ُسر خ مینا کا ری وا لی چو ڑ یاں د یکھیں۔وہ ریت میں میر ے سا تھ ہم ر قص تھی۔

وہ چھن چھن سر ُخ چوڑ یاں میر ے آگے چھنکا تی۔اس کی کلا ئیو ں کا ردھم مجھے آ ج بھی یا د ہے۔اس کا

سنہرا سرا پا شا خ گلا ب کی طر ح اِٹھلا رہا تھا۔میں گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ شہبا ز والی شیر یں درگا ہ پہ زیا رت کو گئی تھی۔مگر لو گوں نے اُڑا دی کہ وہ دراصل شہبا ز سے ملنے گئی ہے۔

پھر۔۔۔۔۔۔۔۔؟

پھر کیا۔ ہم ہنس دئیے ہم چُپ ر ہے۔

پھر شیر یں نے گھر میں ڈرا مہ کیا کہ اُس پر ایک جن عا شق ہو گیا ہے۔

اْس جن کا نا م شہباز تھاکیا؟

یا ر ا فتخار! تمہا ری ٹو کنے کی عا دت اب تک نہ گئی۔اور اسی بات سے میں ہمیشہ خار کھا تا ہو ں۔

اچھا سوری۔

سو ری کیا یا ر! میں کتنے ر نگین لمحو ں میں پہنچ گیا تھا۔

تو پھر پہنچ جا یا ر!۔

اتنے آ ساں بھی نہیں جا ں سے گز رنے والے

د یکھ یار نہیں پھر۔۔۔۔

ہاں! تو طے پا یا کہ درگاہ پہ پا نچ ر اتیں شیر یں بیٹھئے گی۔ تو کرا ما تِ با با کا نز ول ہو گا

خلیفے اور متو لی سے میں نے لا ئین فٹ کر د ی تھی۔ دو نو ں کوبھا ر ی نذ رانہ پیش کر د یا تھا۔

بہر حال شیر یں پنج راتے کے لئے ماں کے سا تھ وہاں پہنچی۔رات گئے جب ماں سو جاتی۔وہاں میں پہنچ جا تا۔

در گاہ کے شما لی حصے میں جہاں جھا ڑ یاں تھیں و ہاں ہم ملنے لگے۔خوب زار و نیاز ہو تے۔

صر ف زا ر و نیاز ََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََ ََََََََََََََََََََََََََََََِِِِِِِِ۔۔۔۔؟

یا ر یہی تمہا ری گندی عا د ت ہے۔ٹرا نس سے با ہر لے آتے ہو۔

سور ی۔۔۔۔۔مگر بتا صر ف۔۔۔۔

ہاں صر ف پیا ر بھری با تیں یا پھر میں اس کی گو د میں سر ر کھ کے سو جا تا۔

اور وہ میر ے با لو ں میں ا نگلیا ں پھیر تی ر ہتی۔

میں عشق کو ر سو ا کرنے وا لوں میں سے نہ تھا۔

پھر۔۔۔۔۔۔۔۔

یا ر صبر بھی کر لیا کر۔

پھر یہ ہوا کہ و ہاں جا کر کھلا کہ یہ بہت بڑا ڈ یٹنگ پو ا ئنٹ تھا۔

یہ پنج را تے اور نو را تے مذ اق نہ تھے۔میں نے و ہا ں سے کتنی شہز اد یا ں و ملو ک زادیا ں زمیند ار کی گا ڑی میں ڈ یر ے پہ جاتی د یکھیں۔صبح وصا ل کا خما ر ان کی آ نکھو ں میں ہوتا ا و ر لو گ سمجھتے کے عبا د ا ت شبینہ آنکھو ں کو حسن ا و ر گہرائی د ے رہی ہیں۔

متو لی ا و ر خلیفہ ما لا مال ہو رہے تھے ا و ر در با ر وا لا بابا سب کے را ز سمیٹے چپ چا پ لیٹا تھا۔

پانچ راتیں ہم خو ب سیراب ہوئے۔

شیر یں نے بڑ ٰی کو شش کی کہ پنج راتہ نو راتہ بن جائے۔مگر اس کی ماں کو شک ہوگیا تھا۔اُلو کی پٹھی آ خر ی پہر جا گی تو شیر یں نہ تھی۔ اُس نے سمجھدا ر ی سے کام لیا ا و ر خا مو شی سے شیر یں کو لے کر چلی گئی۔

پھر مہینہ گزر گیا۔ شیر یں کو دیکھنے کو میں تر س گیا۔ ہم دو نو ں بے کل تھے ملا قا ت کی کوئی سبیل نہ تھی

ا چا نک اس کی جا نب سے ایک بچے نے مجھے ایک خط لاکر دیا۔

”مُکھی نرائن داس دی ما ڑی مغرب ویلھے“(مکھی نا رائین داس کی حویلی،مغرب کا وقت)میں تو جی اُٹھا۔اتنے سارے بے کیف دنوں کے بعداُمید کی کرن ————بہت سر شا ر تھامیں۔واقعی میں خوشی سے نا چنے لگا۔

تم جا نتے ہی ہو کہ سر دیوں کی را تیں شام سے پہلے ہی ویران ہو جا تی ہیں۔میں سا را دن نشے میں تھا۔

شام سے پہلے میں نے نو کرا نی سے بڑے پتیلے میں پانی گرم کر وایا۔نہا دھو کر۔خوشبو لگا ئی اور پینٹ کوٹ پہن لیا۔

امأں کو الجھن تھی کہ یہ اہتمام کا ہے کا۔۔۔۔۔؟

آخر اُس نے وجہ پوچھی۔میں نے کہا۔اماں دل آہدا پئے(دل چا ہ رہا ہے)

شام کا وقت تھا۔دو لمحے ایک  دوسرے سے مل اور جدا ہو رہے تھے۔یہی اقرار کرنے کا مو سم تھا۔

اور شا ید یہی بچھڑ جا نے کا دن تھا۔

میں سر شا ر قد مو ں سے مکھی دی ما ڑی کی جا نب جا ر ہا تھا۔کہ آ ج و صا ل جا نا ں کی رْت آ ہی گئی تھی۔دھندلکا حو یلی کے ا ند ر با ہر تھا۔میں حو یلی کے ٹو ٹے کمر وں میں بھوت کی ما نند پھرتا ر ہا۔ مگر شیر یں نہ آ ئی۔

ما یو سی میر ی شر یا نو ں میں لہو کو برف کر ر ہی تھی۔ میں مغر ب کے با ہم ملتے اور جْدا ہو تے لمحوں میں گیا تھا۔مگر عشاء کی اذا نو ں نے مجھے وا پسی کا را ستہ دکھا د یا۔

میں ا بھی”مکھی د ی ما ڑی ِ“ سے نکلا ہی تھا۔ کہ کا لی چا درمیں لپٹی لپٹائی ا یک خا تو ن آ تی دکھائی دی۔میں سمجھ گیا کہ یہ شیر یں ہے۔

میں وا لہا نہ ا نداز میں آگے بڑ ھا اور اس کی کلا ئی پکڑ کر ا پنی جا نب کھینچا۔نسو ا نی چیخ نے مجھے د ہلا د یا۔چیخ ایک نہیں دو تھیں۔اور دونوں نسو ا نی۔بچا ؤ بچا ؤکی آوازیں مجھے ہوش میں لے آ ئیں۔

میں تیز ی سے بھا گا۔ اور بھا گتا چلا گیا۔ اب میر ے پیچھے بہت سے لو گوں کے بھا گتے قدموں کا شو ر تھا۔ چور چو ر، لٹیرا ڈا کو، بد معا ش غنڈاکی آوازیں میرا تعا قب کر رہی تھیں۔

اچا نک ا یک گڑ ھا مجھے نظر آ یا میں نے چھلا نگ لگا دی۔وہا ں اپنے حوا س در ست کئے۔کو ٹ اُ تا را

اُ سے بیگ کی طر ح فو لڈ کر کے ٹا ئی سے با ند ھا۔ شکر ہے نیچے جر سی پہنی ہو ئی تھی۔آرام سے سگریٹ پیتے ہو ئے چہل قد می کے انداز میں چلنے لگا۔ لوگ میرے پا س آ ئے اور پو چھا کو ن ہو تم۔ میں نے اپنا تعارف اطمینان و اعتما د سے کروا یا۔ اور پو چھا خیر تو ہے۔؟سار ی صو رت حا ل سننے کے بعد میں نے انہیں اُس راستے پہ لگا یا جو بہت لمبا تھا۔

تم نے کیسے راستے پہ لگایا؟

میں نے خود سے ملتے جلتے حلیئے کا ایک بندہ بتایا جو اُ س طرف جا رہا تھا۔وہ سب دیوانہ وار اُسی راہ پر چل پڑے…..۔

پھر..۔..۔..۔!

پھر میں سیٹی بجاتا ہُوا۔شیریں کے گھر چل پڑا۔میں نے دستک دی۔ دروازہ شیریں نے کھولا۔مجھے دیکھتے ہی وہ بلکنے لگی اور پہلی بار روتے روتے مجھ سے لپٹ گئی۔میں اندر چلاگیا۔

تمہیں ڈر نہیں لگا۔

احمق….. پھر اُس لمحے کے ٹرانس سے مجھے باہر لے آئے تم۔

اچھا پھر۔۔۔۔۔۔۔

پھر میں اُسے تسلی دیتا رہا۔

اس کے گھر والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

ٓاُس کی بھا بی اور ماں َ۔۔۔ دونوں کسی شادی میں جارہے تھے۔ وہی دونوں مُکھی کی ماڑی کے پاس سے گزری تھیں میں چادر میں شیریں سمجھا۔ اور اس کی کلا ئی پکڑ لی۔ اس کی کا نچ کی چوڑ یاں ٹوٹ گئی تھیں۔ میں نے اپنی ہتھیلی دیکھی تو خون جما ہُوا تھا۔

پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

پھر ُاسی رات میرے بابا سا ئیں نے فیصلہ کر لیا کہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مجھے لندن بھیج دیں۔

پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

پھر یہ کہ ُاس رات کا حسن سمیٹ کر میں لندن چلا گیا۔واپس آیا تو شہبا ز والی شیر یں شا ہ بلو ط کے سا ئے میں پر سکو ن نیند سو رہی تھی۔اب وہی جگہ میر ی در گا ہ ہے۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *