Home » پوھوزانت » عالمگیریت،ثقافت اور ادب ۔۔۔ عقیلہ جاوید

عالمگیریت،ثقافت اور ادب ۔۔۔ عقیلہ جاوید

(حنا جمشید کی مرتبہ کتاب کی تقریب میں پڑھا گیا مضمون)

 

عالمگیریت، ثقافت اور ادب جیسے ہمہ جہت موضوع میں ایک چیز جو مشترک ہے وہ ہے انسان۔ چوں کہ انسان سے زیادہ اہم اور دلچسپ مخلوق ابھی تک معرضِ وجود میں نہیں آئی۔ اس لیے اس کتاب کا موضوع بھی بہت دلچسپ ہے۔ ایک نظر ڈالنے پر تو یوں لگتا ہے کہ اِس میں ایسے مقالات شامل ہوں گے جو عملی اعتبار سے بوجھل اور خشک ہوں گے۔ مگر جب پڑھنا شروع کریں تو انتہائی سہل اور دماغی مشقت سے مبرا ایسی تحریر کا روپ دھارتے ہیں جو صفحہِ قرطاس پر بکھری الفاظ کی بے جان لاشیں نہیں بلکہ مضمون نگار کے دھڑکتے دل کی وہ صداہیں جو فکر کو سموئے ہوئے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ کانفرنس کے دوران مقالہ نگار کو کس دلچسپی سے سنا گیاہوگا۔میں نے اس کتاب کو دو دن میں ختم کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی جگہ پر کچھ دیر رک کر فکر کرنا اور سوچنا پڑا۔ اور جس تحریر کو پڑھتے ہوئے فکر کے دروا ہوجائیں وہ تحریر قیمتی ہوتی ہے۔لہذا اس کتاب کی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ فکر کے حوالے سے قیمتی کتاب ہے۔ اس میں لکھنے والے بھی قیمتی ہیں اور مرتب کرنے والی پیاری سی لڑکی حنا جمشید تو بہت قیمتی ہے۔ اور ڈاکٹر ریاض ہمدانی کی کاوش بھی قیمتی ہے۔ اس لیے کہ جب پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب کا ایک جملہ میں نے پڑھا کہ ”تاہم نظرثانی کے بعد ان میں سے چند ایک مقالات کو جو نسبتاً بہتر تھے۔ حوصلہ افزائی کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے کتاب میں جگہ دے دی گئی“۔ اس سے پہلے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کانفرنس میں چند ایک مقالات ایسے بھی پڑھے گئے جن میں یا تو مقالہ نگار اس ادبی معیار کا خاطر خواہ اہتمام نہ کر پائے جو ہمیں درکار تھا یا پھر وہ موضوع سے کامل مطابقت رکھنے میں ناکام رہے۔ میں اِن جملوں کی داد دیتی ہوں۔ او ر آپ سے ہمت پاتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کرتی ہوں کہ یہ کتاب جو چھ حصوں پر مشتمل ہے اس میں چھٹا حصہ پڑھتے ہوئے مجھے کچھ زیادہ مزہ نہیں آیا۔ لیکن آرٹس کونسل ساہیوال کی کاوش کو جس طرح حنا نے سراہا ہے اور اس کے تحت جس طرح یہ کانفرنس منعقد کی گئی وہ یقینا عملی مسرت کا باعث ہے۔

اس کتاب کی توقیر میں اضافہ کرنے والے صاحبِ علم اصحاب کی تحریروں میں جہاں میں سوچ اور فکر کا عمل سے گزری ان میں سے چند یہاں پر آپ سے شیئر کروں گی۔مثلاً شاہ محمد مری کا کہنا تھا کہ مہاجر ذہنیت نے سرکاری ذہنیت کا مقام حاصل کیا تو پھر انہوں نے کسی کو مقامی رہنے نہیں دیا گویا ہماری دھرتی نے کبھی انسان  ہی نہیں۔ یہ بھی کہ پاکستان کی 74مادری زبانیں اس ملک کی قومی زبانیں ہیں۔  اُن کی بات درست ہے جب وہ لکھتے ہیں کہ تنوع اختلاف نہیں ہوتا۔

ناصر عباس نیر کے بقول ہر انسانی ضرورت کے ساتھ ایک مشکل یہ ہے کہ وہ بہ یک وقت تکمیل اور تسکین چاہتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی چیز کی تکمیل کرلیں۔تسکین خود بخود ہوجائے گی۔ یونان میں جب عقل اور حُسن کو یکجا کیا گیا تو کیا تسکین پایہ تکمیل کو نہ پہنچی ہوگی۔ ثقافتی عداوت اور ثقافتی عالمگیریت ایک اور بحث کا نقطہ آغاز ہیں۔ظاہر ہے کہ ثقافت انسانی زندگی میں اتحاد اور افتراق دونوں کا باعث ہوسکتی ہے۔ایسے گروہوں یا افراد میں جو ایک ہی نظام ِ روایات سے مستفید ہوتے ہوں پہ باعث اتحاد ثابت ہوتی ہے۔ مگر ایسے گروہوں یا افراد میں جس کا روایتی نظام اور اسلوب حیات مختلف ہو اس میں یہ اتحاد قائم کرنے کی بجائے اختلاف وافتراق کا مو جب ہوتی ہے۔میرا خیال ہے محض زبان کا اشتراک ثقافتی اتحاد کے لیے کافی نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر سعادت سعیدکے مطابق شعر و ادب کا بنیادی مقصد آدمی کو انسان بنانا ہے لیکن سوچئے سماج آدمی کو کیا دے رہا ہے۔ اس کو جو ملے گا وہ وہی آگے دے گا۔ آپ اُس کی جھولی میں محبت ڈال دیں وہ محبت بانٹے گا۔ نفرت ڈال دیں تو اُس سے محبت کی اُمید مت رکھیں۔ وہ مجبور ہے۔

ڈاکٹر قاضی عابد نے ثقافتی صورتحال کو ادب کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور میرا جی، فیض اور راشد کے مزاحمتی رویئے اور صورتحال کو اُن کے فن کے آئینے میں پیش کیا ہے۔

ڈاکٹر ارشد محمود نا شاد نے عالمگیریت کو سمجھانے کی جو کوشش کی ہے وہ ادب کی جمالیات کو زیادہ دیر قائم رہتا نہیں دیکھ رہے لیکن یہ رویہ فلسفہ جمالیات کو مشکوک بناتا ہے۔ ڈاکٹر لیاقت علی کو لگتا ہے کہ عالمگیریت اپنی بنیاد میں جمہوری روشن خیال اور انسان دوست رجحانات کی حامل ہے۔ ”لیکن تصویر کا دوسرا رُخ انہوں نے نہیں دکھایا۔ حنا جمشید کو اتنا ہی کہوں گی کہ آرائش، آسائش اور ضرورت میں فرق ہے۔ اس کی وضاحت پھر سہی۔ لیکن آپ کے مضمون کا آخری پیراگراف تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالستار نیازی کی بات درست ہے کہ ترجمہ دوتہذیبوں کے درمیان رابطے کا نام ہے۔ انہیں کہنا چاہتی ہوں کہ صرف جسم، روح ہر گز نہیں۔ ڈاکٹر اشرف کمال بھی نیازی صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

تانیثی شعور کے تحت لکھنے والوں میں ڈاکٹر رخسانہ بلوچ اور ڈاکٹر فرزانہ کو کب نے خواتین کی تحریک کے پس منظر میں موجودہ عہد تک کے سفر کو قلمبند کیا ہے۔

اردو ادب میں نظم، افسانہ اور ناول کے حوالے سے جو مضامین شامل ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہد بہ عہد تبدیل ہوتی صورتحال کو شاعروں سے زیادہ فکشن رائٹرز نے پیش کیا ہے اور خصوصاً اکیسویں صدی کی ترجیحات جو کمپیوٹر ایج ہے اس کے تقاضوں کو نبھانا اور قارئین کی Satisfactionکے لیے ایسے ادب کی ترویج کرنا جس میں زبان کی نزاکتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حیاتِ انسانی کی نا آسودہ خواہشات اور لاحاصل تمناؤں کو قابلِ گرفت لایا جاسکے۔

ڈاکٹر انوار احمد ساہیوال کی تاریخ اور ثقافت پر محققانہ نظر ڈالتے ہیں۔ اُن کا جملہ جو مجھے بہت خوبصورت لگا۔ لکھتے ہیں یہ بتانے کی ضرور ت نہیں کہ تخلیق کی دنیا میں ولایت کی پہلی شرط ریا کاری سے اجتناب ہے۔خصوصاًمجید امجد پر ان کی تحریر پڑھتے ہوئے وہ دن باد آئے جب ہم نے اُن سے پھولوں کی پلٹن“ شاعر اور آٹوگراف پڑھی تھی۔آٹوگراف پڑھتے ہوئے اور آج طالب علموں کو پڑھاتے ہوئے ساہیوال بہت اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ اور اس کتاب کے آخر میں تصاویر دیکھتے ہوئے مجھے پتہ نہیں کیوں منٹگمری  بسکٹ اور سویٹس کی مٹھاس سی منہ میں گُھلتی محسوس ہوتی ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *