Home » پوھوزانت » ایک دن کتابوں کے سا تھ ۔۔۔ رزاق شاہد

ایک دن کتابوں کے سا تھ ۔۔۔ رزاق شاہد

اگر علی گڑھ کے لونڈوں کو شرارت کا دورہ نہ پڑتا تو آج ہم اسی ملتان وہاڑی روڈ کے ذریعے سیدھا دلی جا پہنچتے.

کیا مطلب؟

یہ جو سڑک کنارے جال کے پرانے درخت نظر آرہے ہیں یہ رستے کی کہنگی ظاہر کرتے ہیں.

ہمارے میزبان ظفراقبال نے تائید کی

عبدالمجید ٹھیک کہتا ہے…

پھر ہمیں یاد آیا فوجی ایک دوسرے سے کبھی اختلاف نہیں کرتے.۔

ہم نے گاڑی روکی اور“خضرِ وقت”سے پوچھا…۔

گوگل بھی سیانا ہو گیا ہے وہ بھی وردی والوں سے اختلاف کی جرات نہیں کر سکتا.

آگے چلے تو لکھا نظر آیا

“خدا حافظ منجانب پیاری عوام یونین کونسل کھرالا”

لکھا تو ٹھیک ہے لیکن لکھوانے والا منافق ہے لیڈر جو بنا پھرتا ہے کہ عوام تو ہمیشہ پیاری ہوتی ہے حکمران تھوڑا تھوڑا خراب ہوتے ہیں..۔

تھوڑا سا کیوں

اسے ووٹ دیے ہیں اس لئے تھوڑا کہہ رہے ہیں ورنہ…۔

مخدوم رشید پیچھے رہ گیا خیال آیا جاوید ہاشمی تو اسی گاؤں کا ہے سنا ہے اسی دربار کا سجادہ ہے

ہاں ہم نے بھی سنا ہے یہ مخدوم رشید حقانی کی اولاد ہے.

ہمراہی بولے

مخدوم رشید حقانی تو کروڑ لال عیسن میں پیدا ہوئے تھے

دیپال پور کو کروڑلعل عیسن اس لیے کہتے ہیں کہ سندھو کنارے لال عیسن نے ایک کروڑ مرتبہ سورہ مزمل کی تلاوت کی تھی اسی لیے کروڑ لعل عیسن مشہور ہوئے اور شہر بھی اسی نام میں ڈھل گیا اور لال عیسن کے والد محمد غوث، بہاوالدین زکریا ملتانی کے سالے یا بہنوئی تھے

ہاں دوست ….

یہ سارے پیر،

سارے حکمران،

سارے سالار،

سارے قاضی…. آپس میں رشتے دار ہوتے ہیں۔

طاقت ور جو ہوئے… وہ آپس میں ایک ہوتے

عوام اکیلے

اور اکیلے… اسی لئے تو مارے جاتے ہیں

بھابھے، مسوان، کھچی، دولتانون جیسے بڑے زمینداروں کے بیچ یہ جھنڈیروں کو کیا خیال آیا کہ کتابوں کی خوشبو سے چمن مہکا بیٹھے….

انہیں عوام کے جسموں پر حکمرانی کا بخار جو نہیں تھا

رستہ پوچھتے پاچھتے… آخر ایک جھیل کنارے کھجوروں اور کینو کے باغ کے اندر سفید عمارت نظر آئی۔اندر داخل ہوئے رقص کرتے مور اور باغ میں کھیلتے بچوں کے شور نے تھکاوٹ اتار لی۔ مقامی دوست ملے

اندر داخل ہوئے غلام رسول خاکی قلندری گائیڈ، رہنما،خدمت گزار،دبلا پتلا چھوٹا قد، کھلا دل لئے … گلے ملے.

کہنے لگے اس کا تقدس کسی مزار سے کم نہیں …۔

جوتے باہر اتارے اندر ایک پورا جہاں آباد،

۔44×22 کے 8 کشادہ کمروں پر مشتمل ڈھائی لاکھ سے زائد کتابوں ڈیرہ لاکھ سے زائد رسالوں چار ہزار سے زائد مخطوطات اور بارہ سو سے زائد قرآن مجید سے سجی یہ لائبریری دیکھنے کے لئے مہینوں اور پڑھنے کے لئے سالوں درکار ہیں.

خاکی باری باری ہال کھولتے اور بتاتے جاتے

یہ یک صفی قرآن ہے

یعنی ایک سورت ایک صفحے پر لکھی ہوئی

یہ ہندی میں ترجمہ ہے

یہ فارسی یہ بنگالی یہ روسی یہ انگریزی.

یہ ٹالسٹائی ہے

مارکس پر تو پورا سیکشن،

کہیں حافظ و رومی تو کسی گوشے میں سعدی و غالب…..۔

ہمیں غالب زبانِ فارسی کے خداؤں ساتھ بھی نظر اور اردو کے داناؤں کی محفل میں سب سے آگے..۔

قلندری بولا… دنیا کی کوئی بھی لائبریری غالب اور مارکس کے بغیر نہیں نظر آئے گی

ایک طرف“فنون”کا جنون کھینچ رہا تھا تو دوسری طرف ہٹلر کے دستخط سے لکھی اس کی کہانی بلا رہی تھی

کبھی فرہنگِ آصفیہ کو دیکھتے تو کبھی

Riaz Qadeer کی fareed fragrance

کو سونگھتے،

اپنا یار شیو کمار تو اوپری شیلف میں بیٹھا سْر چھیڑ رہا تھا تو کہیں قوالیوں کے مجموعے دھرے تھے،

جارج گریزن کی سرائیکی زبان کے ساتھ بیٹھے کیفی جام پوری اور اسلم رسول پوری حسین لگ رہے تھے

پھر کوثر نیازی کے دیدہ ور کے ایک سیکشن میں بھٹوز کے تذکرے بی بی کی باتیں اور کہیں نیچے ان کے قاتل کا مدفن بھی نظر آیا،

گوروں کے گزیٹیر سے کہیں زیادہ قیمتی ابنِ حنیف کے خزینے نے آگے نہ بڑھنے دیا،

عقیدوں کے فقوں پر مشتمل سینکڑوں جلدوں کی سیریز کے ساتھ بریٹانیکا بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نظر آیا۔سائنس کے پرانے رسالوں کے بیچ فیروز سنز کی باتصاویر شاہی مجبوریاں بھی دیکھیں اور منشی دین محمد کا قلم تاج پوشی کی کہانیاں لکھنے میں گھستا نظر آیا اور انعام بھی پایا۔

۔1890 میں میاں غلام محمد جھنڈیر نے اسی لائیبریری کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد ان کے داماد سردار محمد اور پھر ان کے بیٹوں میاں مسعود، محمود احمد اور میاں غلام محمد نے اسے آگے بڑھایا.

اسی دوران اطلاع ملی کہ موجودہ لائیبریری کے روح رواں اور انتظام و انصرام سنبھالنے والے میاں غلام محمد باغیچے میں آکے بیٹھے ہیں

غلام رسول سے کہا آپ کچھ سستا لیں … ہم میاں صاحب سے ملتے ہیں

تہذیب و شائستگی اور رکھ رکھاؤ کے نمایندے میاں صاحب سے باتیں ہوئیں..

تاریخ، حالات حاضرہ، فلسفہ، ادب، اور ثفافت پر ان کی عالمانہ گفگتو نے موسم کی شدت و حدت کو بھلا دیا.

کیوبا سے ویتنام تک امریکی استعمار کے تذکرے،

کتابوں سے فیض پانے والوں کی یادیں،یہاں سے پی ایچ ڈی کے مقالے مکمل کرنے کی محنت تمغہ امتیاز پانے کی باتیں اور امید اور اسے آگے چلانے کا عزم دیدنی تھا..

کہنے لگے ہماری آنے والی نسل اسے ضرور آگے بڑھائے گی…

کہنے لگے کہ نسیم لیہ کا شعر کبھی کبھی بہت یاد آتا ہے کہ

دیارِ مصر میں دیکھا ہے ہم نے دولت کو

ستم ظریف پیمبر خرید لیتی ہے

چار گھنٹے کتابوں کے ساتھ اور ایک گھنٹہ میاں غلام محمد کے ساتھ گزرنے کا احساس نہ ہوا۔ابھی تو بہت ذکر رہتا ہے۔چراغ اعوان کی ہیر کا،اسلم میتلا کی میوزک کلیکشن کا،قوموں اور قبیلوں کے چارٹ اور انہی کے پہلو میں رکھا پرانا آرٹ۔سردیوں میں پھر آنے کے وعدے کے ساتھ شام ڈھلے… ہم واپس چلے

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *