Home » پوھوزانت » کیوبا کا سفرنامہ ۔۔۔۔۔ فیض احمد فیض

کیوبا کا سفرنامہ ۔۔۔۔۔ فیض احمد فیض

گذشتہ برس تعلیمِ بالغاں کی مہم انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اِس مہم میں35 ہزار پیشہ ور مدرسوں کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ سے اوپر رضا کار معلموں نے حصہ لیا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب کیوبا کی آبادی میں تین فیصد ضعیف اور معذور لوگوں کے علاوہ کوئی نا خواندہ نہیں ہے۔ دو چار ہفتے کے دوران ِ قیام میں اعداد و شمار کی تصدیق تو ممکن نہیں۔ لیکن اتنا جاننے کے لےے ایک سرسری نظر بھی کافی ہے کہ کیوبا میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جدھر بھی نکل جائیے تعمیر و تاسیس کا سلسلہ جاری ہے۔ سکول، کارخانے، ہسپتال ،مکانات، تفریح گاہیں ، مرغی خانے، مویشی خانے، اور جانے کیا کچھ بن رہا ہے۔ ہر طرف گہما گہمی، بھاگ دوڑ بل کہ ایک حد تک افراتفری کا عالم ہے ۔ تو کیا اِن سب باتوں سے یہ سمجھ لیا جائے کہ کاسٹرو صاحب نے اپنے جزےرے کو واقعی جنتِ ارضی کا نمونہ بنا دیا ہے اور وہاں سے باشندوں کو اب کوئی دنیوی مشکل یا الجھن درپیش نہیں؟ ۔اور اگریوںہے تو کیوبا کی نئی حکومت سے کسی کو بھی مخالفت یا مخاصمت کیوں ہوگی۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے اور کیوبا کی حکومت اور عوم دونوں بہت سے مصائب اور مسائل سے دو چار ہیں بل کہ یوں کہنا چاہےے کہ مصائب و مسائل انہی نو یافتہ نعمتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ اِن مسائل کی نوعیت کیا ہے۔ یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ کاسٹرو کے انقلاب سے قبل قریباً نصف صدی تک کیوبا کی صنعت ، زراعت، تجارت غرض یہ کہ جملہ کاروبار زندگی امریکی سرمائے سے وابستہ تھا۔ انقلاب کے بعد امریکا نے یہ رشتہ منقطع کرلیا اور امریکا اور کیوبا کے درمیان درآمدو برآمد جبراً بند کردی۔ چنانچہ صورتِ حال یہ ہے کہ اول کیوبا میں موٹریں، بسیں، ریلیں، ٹیلی فون، شکر اور دوسرے کارخانوںکی مشینیں، بجلی گھروں کے انجن ، بحری کشتیوں کے انجن ،بحری کشتیوں کے انجن، ٹریکٹر وغیرہ وغیرہ جو بیش تر امریکی ساخت کے ہیں۔ کل پرزے نہ ملنے کی وجہ سے نزع کے عالم میں ہیں۔ کل پرزوں کے کارخانے قائم کےے جارہے ہےں اور یہ اشیا اشتراکی ملکوں سے درآمدکی جارہی ہیں، لیکن اِن دونوں اقدامات کی تکمیل وقت طلب ہے جب تک یہ تکمیل نہیں ہوپاتی بہت سی دقتیں ناگزیر ہیں۔
دوم، انقلاب سے پہلے کیوبا والے شکر اور سگار بیچتے تھے اور اِس زرمبادلہ کے عوض کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور رہنے سہنے کا بیش تر سامان امریکا سے آتا تھا۔ چاول، گندم، مکھن، پنیر، منجمد گوشت، سبزیاں، مٹھائی، بسکٹ ، صابن ، تیل، ماچس، کپڑا، جوتے ، کیل کانٹے غرض یہ کہ ہر چیز درآمد ہوتی تھی۔ اب کھانے پینے کی جملہ اجناس تو ملک میں پیدا ہونے لگی ہیں، لیکن رسل وسائل کے ذرائع کافی نہیں ہیں، گودام اور سردخانے نہیں ہیں،چنانچہ اگر ایک علاقے میں ٹماٹر ہی ٹماٹر دکھائی دیں گے اور پیاز نا پیدتو دوسری جگہ پیاز ہی پیاز ہے اور ٹماٹر کا پتہ نہیں۔ اِس طرح صابن ، تیل، بلیڈ، ماچس ، سگریٹ، کپڑا ، جوتے وغیرہ ملک میں بننے لگے ہیں ، لیکن اِن کی مقدار اور معیار دونوں ابھی تک تسلی بخش نہیں۔ یہ چیزیں اشتراکی ملکوں سے بھی درآمد ہوتی ہیں ، لیکن اول تو اُن ممالک میں خود اِس نوع کے ساز و سامان کی زیادہ افراط نہیں اور دوسرے فاصلوں کی طوالت اور جہازوں کی قلت کی وجہ سے اُن کی باقاعدہ ترسیل نا ممکن ہے۔ اِن مشکلات پر اضافہ یہ بات ہے کہ افلاس اور بے کاری کے انسداد کے باعث اب کیوبا میں ہر کسی کی جیب میں دام ہیں او رہر چیز کی مانگ بڑھ گئی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ قریب قریب سبھی ضروریات زندگی کی طلب زیادہ ہے اور دریافت کم۔ گوشت، انڈے، مکھن، دودھ، چاول، لباس، اور جوتے صرف راشن پر دستیاب ہوسکتے ہیں۔
سوم، یہ کہ کمپنیوں، کارخانوں اور سرکاری دفتروںکے بیش تر اعلیٰ ملازمین ،انجینئر، اکاﺅنٹنٹ ، ڈاکٹر‘ دندان ساز، اورانتظامیہ افسر اپنے امریکی سرپرستوں کے ساتھ ملک سے رخصت ہوچکے ہیں اور اُن کی ذمہ داریاں بیش تر نو آموز نوجوانوں نے سنبھال رکھی ہیں ۔ جو بہ یک وقت تعلیم، انتظام اور جنگی فرائض میں مصروف ہیں، چنانچہ انتظامی معاملات میں کئی خامیاں موجود ہیں۔
چہارم ، یہ کہ ناکام حملے کے بعد امریکا کی مستقل تجارتی ناکہ بندی اور جنگی دھمکیوں کے باعث حکومت اور عوام کی تعمیر اور دفاع کا دہرا بار درپیش ہے اور ایک عرصہ تک اِس بار سے سبک دوشی کی صورت قرینِ قیاس نہیں، چنانچہ کیوبا میں ابھی تک کافی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اِن حالات سے غیرمطمئن اور کاسٹرو کی حکومت سے ناخوش ہیں۔ اوّل ، زمیندار ،سرمایہ دار اور متمول گھرانوں کے لوگ جو کسی وجہ سے نقل وطن نہیں کرسکے۔دوم، متوسط طبقے کے وہ لوگ جن کا کاروبار امرا اور روسا کی سرپرستی پر منحصر تھا؛ وکیل ، ڈاکٹر ، ٹھیکہ دار وغیرہ ۔ سوم، سفید پوش طبقے کے وہ لوگ جو تنگ دستی کے باوجود افسری اورامارات کے خواب دیکھا کرتے تھے؛ کلرک، دکاندار، ، معمولی افسر وغیرہ ۔ چہارم، ایسے مزدور یا ملازم پیشہ لوگ جن کی آمدنی کے ذرائع براہ راست غیر ملکی سیاحوں اور ملکی تماش بینوں سے متعلق تھے؛ ہوٹلوں کے بیرے ، ٹیکسی ڈرائیور۔ اربابِ نشاط ، غنڈے وغیرہ۔
یہ سب لوگ موجود ہیں اور اب اِن سے کوئی تعرض یا باز پرس بھی نہیں کرتا۔ اول اِس لےے کہ اِن کی تعداد کم ہے اور دوم ، یہ کہ ملک کی عام فضااور کاروبار میں اِن کا کوئی عمل دخل باقی نہیں۔ اب سے برس دو برس پہلے یہ صورت نہ تھی۔ جب تک اِن عناصر کی منظم اور مسلح خفیہ تحریکیں کیوبا میں موجود تھیں۔ہوانا اور دوسرے شہروں میں آئے دن سرِ بازار بم پھٹتے تھے۔ دیہاتی اور دوسرے علاقوں میں آئے د ن فوجی ، رضا کار اور انقلابی کارکن قتل کےے جاتے تھے، لیکن جب امریکی حکومت نے زور بازاری میں ” بے آف پگز “ میں کاسٹرو کے مخالفوں کی فوج اتاردی تو یہ سب خفیہ تنظیمیں بے نقاب ہوگئیں اور اِن کے بیش تر کارکن پکڑے گئے۔ کاسٹرو کو کم از کم اِس غنیم سے نجات دلانے کے لےے کینیڈی کا شکر گزار ہونا چاہےے۔
خلاصہ¿ احوا ل یہ ہے کہ جدید کیوبا میں اب افلاس اور بے کاری، نا خواندگی اور جہالت اگر ہے بھی تو بہت کم ہے ؛ جوابہت کم ہے ؛ جسم نہیں بکتے؛ ڈاکے نہیں پڑتے؛ قتل نہیں ہوتے۔ کسانوں کے لےے زمین ہے، مزدوروں کے لےے روزگار ہے۔ ہر طرف نئی آبادیاں، نئے مکانات، نئے سکول، ہسپتال اور کارخانے تعمیر ہورہے ہےں۔ نئی فصلیں کاشت کی جارہی ہےں۔نئے ہنر سیکھے جارہے ہےں۔ نسلی یا پیدائشی طور سے کوئی ادنیٰ اور کوئی اعلیٰ نہیں ہے۔ پیشہ ور فوج اور پولیس کی تعداد بہت کم ہے ، لیکن قریباً سبھی لوگ فوجی تربیت یافتہ اور قومی ملیشیا یعنی رضا کاروں میں شامل ہیں۔ فی الحال کوئی دستور یا آئین مدوّن نہیں، لیکن ہر کوئی کسی نہ کسی تنظیم یا شراکت کارکن ہے جو اپنے حلقہ¿ کار میں کافی صاحبِ اختیار ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ اعلیٰ لباس، اعلیٰ کھانے، اعلیٰ صابن پوڈر، اور لپ اسٹک سب نا پید ہیں۔ کھانے ، پینے، اوڑھنے پہننے کی اشیاقیمت میں ارزاں ، لیکن مقدار میں کم ہیں۔ گوشت ، مکھن ، چاول ، روٹی ، کپڑا، جوتے راشن پر ملتے ہیں ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک ہفتے میں فی کس آدھ سیر چاول راشن میں ملتا ہے۔ پھل اور سبزی کا راشن نہیں ، لیکن اِن کی کہیں افراط ہے تو کہیں قلت۔ سال میں دو سوٹ ملتے ہیں اور دو جوڑے جوتے۔ قمیص یا پش شرٹ اور ٹھنڈی پتلون جو یہاں کا عام لباس ہے راشن پر نہیں ہے۔ غرض آسائشیں بھی بہت ہیں اور سختیاں بھی بہت ، لیکن اِن کی تقسیم میں رعایت اور جانب داری کو بہت کم دخل ہے ۔ گوشت کے لےے اگر قطار میں تیسرے نمبر پر میرے ڈرائیور نیرایا ہمارے بیرے کی بیوی کھڑی ہے تو پانچویں نمبر پر وزیرِ خارجہ کی بیوی ۔ یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کسی اعلیٰ عمارت میں ساتواں فلیٹ صوبے کے گورنر کا ہے تو پانچواں اس کے چپراسی کا ہے۔ پیسے کی افراط اور اشیا کی کمی کے باوجود بلیک مارکیٹ اور چور بازارکا سراغ مشکل سے ملتا ہے ۔ میری اطلاع کے مطابق صرف موٹرگاڑیوںکے پرزوں کی باقاعدہ بلیک ہوتی ہے ( ہوانا شہر میں سب ٹیکسی ڈرائیور اپنی اپنی گاڑی کے مالک ہیں) اور کبھی کبھی مرغی اور سﺅر کے گوشت کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کے ایک طبقے کو جو اکثریت میں ہے ۔ یکا یک پہلی دفعہ ایسی آسائشیں میسر آگئی ہیں جو اُن کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھیں۔ روٹی و روزگار، مکان، زمین بڑھیا سے بڑھیا ، ہوٹل ، کلب ، تفریح گاہیں ،اور دوسرے طبقے کو زندگی میں پہلی دفعہ ایسی سختیوں اور نا آسودگیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جن کا اُن کے وہم و گمان میں بھی گذر نہ تھا۔ پہلے طبقے کے سب لوگ فیڈل کے گیت گاتے ہیں۔ دوسرے طبقے کے بہت سے لوگ اُسے گالی دیتے ہیں۔اگر چہ ادیب، مصور، موسیقار یعنی وہ لوگ جو کسی قوم کے قلب و ضمیر کی تربیت کرتے ہیں۔ شروع ہی سے پہلے طبقے کے ساتھ ہیں۔تاہم اِس داخلی چپقلش سے ملک میں بد نظمی کے اسباب پیدا ہوسکتے تھے۔ فیڈل کاسٹر و پر امریکیوں کا دوسرا بڑا احسان یہ ہے کہ اُن کی مسلسل مخالفت، مخاصمت اور مداخلت کے ردِ عمل میں حبِ وطن اور قومی تفاخر کا جذبہ اِن سب اختلافات پر غالب آچکا ہے ……..
کیوبا کی حکایت بہت طویل ہوتی جارہی ہے، لیکن ایک آدھ سوال ابھی اور باقی ہے۔ مغربی ممالک کے اخبارات اوربیانات میں اکثر یہ چرچا رہتا ہے کہ اوّل ، کاسٹرو نے اپنے ملک میں جمہوریت اور آزادی کا خاتمہ کردیا ہے ۔ دوم، کاسٹرو نے کیوبا پر اشتراکی نظام مسلط کردیا ہے۔ سوم، امریکا سے لڑائی مول لے کر کاسٹرو نے کیوبا کے اقتصادی نظام کی دھجیاں اڑادی ہیں۔ چہارم، کیوبا میں روسی میزائل منگواکر کاسٹرو نے آبیل مجھے مار کی صورت پیدا کرلی ہے ۔ پانی میں رہ کر مگرمچھ سے بیرموت کو دعوت دینا ہے ۔ پہلے سوال کا جواب تو مرزا غالب کے الفاظ میں یہ ہے کہ
ع: گھر میں کیا تھا کہ تراغم اُسے غارت کرتا
یعنی کاسٹرو سے پہلے کیوبا میں جمہوریت اور آزادی کا نام و نشان ہی کہا ں تھا کہ کوئی اُسے مٹانے کی کوشش کرتا۔ البتہ عوام کے جان و مال پر جرنیلوں، زمیندار وں، لکھ پتی ، سیاست دانوں اور کروڑ پتی امریکن کمپنیوں کا تسلط ضرور تھا اور اب وہ اِس تسلط سے آزاد ہیں۔ یوں کہنے کو ایک نام نہاد دستور بھی موجود تھا اور حکمران لوگ بہ وقت ِ ضرورت نام نہاد انتخابات بھی بپا کیا کرتے تھے اور اب یہ ڈھونگ باقی نہیں۔ انقلابی حکومت کا کہنا یہ ہے کہ اب مزارع اور کسان، زمیندار سے آزاد ہے ؛ مزدور کا رخانہ دار سے آزاد ہے ،ملازم آقا سے آزاد ہے ؛ سب لوگ جہالت اور فکرِ معاش سے آزاد ہیں ؛ اِس لےے اب ہماری تاریخ میں پہلی دفعہ جمہوریت اور آزادی کی بنیاد رکھی گئی ہے اور اِس بنیاد پر جو دستوری عمارت کھڑی ہوگی،ا ُسے صحیح معنوں میں قصرِ جمہوریت کہہ سکیں گے۔ عمارت سے پہلے بنیاد ہم وار کرنا ضروری تھا اب اب تک ہمیں مشکل سے اتنی ہی مہلت مل سکی ہے ۔ تاہم ، اِس وقت بھی ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر عوام کواتنی آزادی اور اختیار حاصل ہے جو اب سے پہلے کبھی نہیں تھا۔
دوسرے سوال کا جواب فیڈل کاسٹرو کی ایک تقریر سے اخذ کیا جاسکتا ہے ۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں:
” آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ انقلاب کسے کہتے ہیں؟ آپ نہیں جانتے تھے کہ سوشلزم کے کیا معنی ہیں؟ وہ لوگ اِس لفظ سے آپ کو ہوّا کی طرح ڈراتے تھے۔ اُن دنوں اگر ہم کسی کسان سے ملتے جس کے سر پر لگان اور ٹھیکے کا بوجھ تھا اور پیٹ میں بھوک کی لہر اور اُس سے یہ کہتے کہ سنو کیا تم چاہتے ہو کہ ملکیت کے قانون بدلے جائیں؛ بڑے زمیندار کی زمینیں تقسیم کی جائیں اور تمہارا لگان، بٹائی، ٹھیکہ معاف کیا جائے، تو وہ جواب دیتا: ”ہاں ضرور ضرور !! “۔ پھر ہم کہتے اور نا خواندگی ختم کی جائے ، تعلیم عام ہو، سب لوگ مسلح کےے جائیں، اور اُن سے قومی فوج تیار کی جائے۔ وہ جواب دیتا :” ہاں ضرور ضرور !!“۔ اور پھر جو ہم پوچھے کہ کیا تم سوشلزم چاہتے ہو تو وہ کہتا :” جی نہیں“۔ تم چاہتے ہو کہ رنگ اور نسل کی برتری ختم کی جائے :” جی ہاں!“ ۔ تم چاہتے ہو کہ مکانوں کے کرائے کم ہوں، کلبوں اور ساحلی تفریح گاہوں میں عوام کو آنے جانے کی آزادی ہو:” جی ہاں !“۔ تو پھر تم سوشلزم چاہتے ہو ؟ ” جی نہیں“۔ غرض یہ کہ وہ ہر چیز چاہتے تھے جسے ” سوشلزم“ کہتے ہیں ، لیکن” سوشلزم“ کے لفظ سے انہیں ہول آتا تھا“۔
کاسٹرو کی حکومت کا کہنا ہے کہ اُن کا نظام انہی اصلاحات پر مبنی ہے اور اُنہیں اِس لفظ سے بالکل ہول نہیں آتا۔ تیسرا اور چوتھا سوال دراصل ایک ہی مسئلے کے دو پہلو ہیں اور یہ مسئلہ صرف کیوبا سے متعلق نہیں ایک حد تک سبھی چھوٹے اور نسبتاً پسماندہ ممالک کے قومی اور بین الاقوامی حقوق سے متعلق ہے اور شاید جلد یا بہ در سبھی ممالک کو اور اِن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے جو آج کل کیوبا کو درپیش ہے ۔ مغربی اور خاص طور سے امریکن مبصروں نے اشتراکیت، میزائل ،اور روسی فوجوں کو بار بار بیچ میں لا کر اِس مسئلے کی صحیح نوعیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ، لیکن یہی لوگ کبھی کبھی اعتراف بھی کرلیتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیوبا اور امریکا کی بنیادی چپقلش کے اسباب نہیں بل کہ نتائج ہیں تو امریکا کی خفگی کے اصل اسباب کیا ہےں۔
اوّل، نقصانِ سرمایہ۔
1940 کے اعداد و شمار کے مطابق کیوبا میں مختلف امریکن کمپنیوں کے سرمائے کی مالیت ایک سوساٹھ کروڑڈالر تھی۔ یہ سرمایہ ریلوں، کانوں، بجلی اور شکر کے کارخانوں میں لگا ہوا تھا۔ جواب سب کے سب قومی ملکیت قرار پاچکے ہیں۔ اِن کمپنیوں کے مالک ، ڈائریکٹر ، حصہ دار امریکی سیاست میں بااثر لوگ ہیں اور امریکا کی حکومت اپنی مصلحتوں کے علاوہ اس حلقے یا امریکی اصطلاح میں” لابی“ کی تشفی کے لےے بھی کاسٹرو حکومت سے برسرِ پے کار ہے۔
دوم، شما تتِ ہم سایہ۔
آج کل امریکی دولت اور طاقت سے مشرق و مغرب کے بڑے بڑے ملک مرعوب ہیں اور بیش تر داخلی اور خارجی معاملات میں ”چچا سام“ کا کہنا مانتے ہیں۔ چنانچہ امریکا کے اکابرین کو یہ جائز اندیشہ ہے کہ اگر اس ڈیڑھ بالشت کے جزیرے نے ہمیں ٹھینگا دکھادیا اور ہم اُس کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو ساری دنیا میں ناک کٹ جائے گی اور امریکن وقارکو بہت صدمہ پہنچے گا ۔ پھر اگر یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کوئی پسماندہ ملک امریکی امداد اور امریکی سرمائے کے بغیر نہ صرف زندہ رہ سکتا ہے بل کہ ترقی کرسکتا ہے تو جملہ پسماندہ ملکوں میں امریکی امداد کی ساکھ گر جائے گی۔
سوم ، جنوبی اور وسطی امریکا میں کاسٹرو کی تقلید کا خوف ۔
امریکا کے اہلِ سیاست اور اہلِ سرمایہ جو بیش تر ایک ہی طبقہ ہے بہ خوبی سمجھتے ہیں کہ اگر کاسٹرو کا تجربہ کامیاب ہوگیا اور یہاں کے باقی ممالک بھی یہی نسخہ آزمانے لگے تو اس خطہ¿ ارض میں جسے امریکن ایک صدی سے اپنی ریاست سمجھتے آئے ہیں۔ ناقابلِ شمار سرمایہ اور بے اندازہ اقتدار غارت ہوجائے گا۔ جس کے بعد جنوبی امریکا کے امورِ حکومت میں امریکا کی حیثیت یک سردگرگوں ہوجائے گی۔
امریکی ہفتہ وار” ٹائم“کے الفاظ میں امریکی پالیسی کا صحیح مقصود ( فوجی خطرے کا ) دفاع نہیں بل کہ کاسٹرو سے نجات حاصل کرنا ہے اور جب تک یہ نہیںہو پاتا امریکی حکومت اپنے سیاسی اور اقتصادی شکنجے کو ڈھیلا نہیں کرے گی۔ چنانچہ کیوبا اور امریکا کی چپقلش کا بنیادی پہلو یہ نہیں ہے کہ وہاں کتنے روسی میزائل ہیں اور وہ کہاں تک مار سکتے ہیں اور کتنے روسی سپاہی وہاں موجود ہیں یا نہیں ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اوّل ، کسی چھوٹے اور کمزور ملک کو یہ حق حاصل ہے یا نہیں کہ وہ بیرونی مداخلت کے بغیر اپنے داخلی نظم و نسق، معیشت و اقتصادیات کا نظام اپنی مرضی سے منتخب کرسکے اور اُس نظام میں جس نوع کی اصلاحات نافذ کرنا چاہے، کرسکے۔
دوم، کسی چھوٹے اور کم زور ملک کو یہ حق حاصل ہے یا نہیں کہ اُس کی املاک اور وسائل کا کچھ حصہ کسی وجہ سے بیرونی سرمائے اور بیرونی اداروں کے قبضہ میں جا چکا ہو تو وہ ملک بلا معاوضہ یہ املاک دوبارہ اپنی تحویل میں لے سکے اور اُنہیں قومی استفادے کے لےے وقف کرسکے اور سوم، کوئی آزاد ملک اپنی مصلحت اور اپنی پسند کے مطابق اپنے خارجی تعلقات متعین کرنے اور اپنے دوست اور حلیف منتخب کرنے کا مجاز ہے یا نہیں ہے۔
کاسٹرو اور کیوبا کو اصرار ہے کہ انہیں یہ سب حقوق حاصل ہےں اور امریکا کو ان میں مداخلت کا حق نہیں پہنچتا ۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ کم از کم جنوب مغربی دنیا میں جو اُن کا حلقہ¿ اقتدار ہے کسی کو یہ حق حاصل نہیں اور اگر یہ حق تسلیم کرلیا جائے تو امریکی مفادات کا تحفظ نہیں ہوسکتا۔
اِس چپقلش کا انجام کیا ہوگا۔
سوویت روس اور دوسرے اشتراکی ملکوں سے کیوباکے قریبی روابط قائم ہوجانے کے بعد اب یہ جھگڑا دو ہم سایہ ملکوں کی تکرار کے بجائے دو عظیم طاقتوں کی پنجہ کشی کی صورت اختیار کرچکا ہے اور اِن طاقتوں کے مفادات صرف کیوبا سے وابستہ نہیں بل کہ عالمگیر ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ شاید اِن میں سے کوئی بھی کیوبا کی خاطر اِن مفادات کو جو کھم میں ڈالنا قریِن مصلحت نہ سمجھے۔ یقین سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کے اقتصادی یا سیاسی دباﺅ کی موجودہ مشکلات کو طول ضرور دیا جاسکتا ہے ، لیکن یہ توقع کہ اِن مشکلات کے باعث کاسٹرو یا کاسٹرو کی حکومت کے خلاف بے چینی یا بغاوت کے اسباب پیدا ہوں گے، امریکن حکومت کی خود فریبی ہے ۔ حقیقتِ حال اِس کے برعکس ہے ۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ بے آف پگز جیسا کوئی حملہ کیوبا کی موجودہ فوجی طاقت کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا اور اگر امریکا اب بھی کیوبا پر اپنا ” دینی اور دنیوی حق“ تسلیم کروانے پر مصر ہے تو اُسے کھلم کھلا اس جزیرے پر لشکر کشی کرنی ہوگی۔ کیوبا کے لوگ اس خطرے کو بالکل خیالی نہیںسمجھتے۔انہیں احساس ہے کہ اُن کی کل پینسٹھ لاکھ آبادی امریکا کے کسی بڑے شہر کی گنتی سے بھی کم ہے اور وہ اِس خدشے سے بھی بے فکر نہیں کہ ایسی صورت میں شاید اُن کے حلیف وقت پر اُن کی امداد کو نہ پہنچ سکیں گے ، لیکن وہ توقع رکھتے ہیں کہ غالباً اقوامِ عالم کا ضمیر یہ ظلم برداشت نہ کرے اور ایشیا، افریقا اور جنوبی امریکا کے عوام اپنی حکومتوں کو کیوبا کی حمایت پر آمادہ کرسکیں۔ چنانچہ اوّل تو اُنہیں اعتماد ہے کہ ” ہم ظفر مند ہوکر رہیں گے“ اور ساتھ ہی وہ اِس تہےے کا ابھی اعلان کرتے ہیں کہ ” وطن یا کفن“ کیوبا میں آپ کو ہر جگہ یعنی دو نعرے دکھائی یا سنائی دیں گے۔
(1964)
بشکریہ: زکریا خان، ساہیوال

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

One comment

  1. this 3 part published here, is it complete Cuba ka safarnama?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *