Home » قصہ » ماہیکان! ۔۔۔۔ عابدہ رحمان

ماہیکان! ۔۔۔۔ عابدہ رحمان

آسمان پر غروبِ آفتاب کی زردی نے ایک عجیب اداسی پھیلا دی تھی۔ سمند ر میں چلتے چلتے وہ کافی دور نکل گئی تھی۔لہریں جب اس کے پاؤں سے ٹکرا کے مڑتیں تو ایک لہر سی اس کے دل سے بھی آ ٹکراتی اور سمندر کی لہروں میں گم ہو جاتی۔ دھندلکا ہو گیا تھا۔دور کشتیاں کالے دھبے بن کر سمندر کے سینے پر ہچکولے کھاتے ہوئے چلی جا رہی تھیں۔ ہوا، لہریں،خالی کشتیاں، سورج کا الوداع، لہروں کا شور……  اس کی تنہائی میں جذب ہوتے چلے جا رہے تھے۔اس کی تنہائی اس کے اندر کو لپیٹ کر ساحل پر پھیل کر ہچکیاں لے رہی تھیں۔ اک سسکار سی اسے سنائی دی جس سے گھبرا کر وہ الٹے قدموں چل پڑی اور ایک دم سے مڑ کر اس نے دوڑ لگا دی۔

”ماہیکان کو اس خاندان میں بیاہ دوں جو ایک معمولی ذات کا ہے؟…… کیا میں اپنی نسل خراب کر دوں؟“ سردار نور اللہ دہاڑا تو حویلی میں چاول چننے کے لیے آئی ہوئی مزارعوں کی عورتیں لرز اٹھیں۔انھوں نے دوپٹہ کھینچ کر دانتوں میں داب لیا۔ صحن میں اتری چڑیاں پُھر کر کے اڑ گئیں۔ بابا کے الفاظ کی بازگشت اسے سنائی دی تو اس نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔وہ گاڑی تک پہنچی تواس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ اس نے سٹیرنگ پر سر رکھ دیا …… کرب سے آنکھیں بند کی۔ آنسو اس کی بائیں آنکھ سے لڑھک گیا۔

”زندگی اک ساحل ہی تو بن کے رہ گئی“ گاڑی دوڑاتے ہوئے اس نے سوچا۔”شور، آوازیں …… لیکن شام ہوتے ہی! تنہائی کہاں سے نکل آتی ہے ……؟  اور پھر ……اور پھر نم ریت پر وہ جان لیوا رقص کرتی ہے کہ بدن کا ذرہ ذرہ دکھ جاتا ہے۔ سمندر میری آنکھوں، میری سانسوں کے ذریعے میرے اندر جا کر میرے وجود کے کونے کونے کو بھر دیتا ہے“ ماہیکان نے ایک لمبی سانس کھینچی۔

اپنی سوچوں میں گم وہ بڑی تیزی سے کھلے گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ گاڑی کے شدید بریک لگنے سے درختوں سے گرے زرد پتے دور تک جا اُڑے۔

”کیا وجہ ہے ماہیکان، جتنا میں تمھارے قریب ہوتا جا رہا ہوں، تم کہیں دور ہی دورہوتی چلی جا رہی ہو؟“ دور سے ایک بازگشت سنائی دی۔

”ایسا کچھ نہیں روحان“ماہیکان نے کھڑکی سے باہر درخت پر کوکتی کوئل کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

”لیکن میں ایسا کافی دن سے محسوس کر رہا ہوں“ روحان نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔

ماہیکان کچھ دیر تک تو خاموشی سے باہر دیکھتی رہی اور پھر کہا،’’سننا چاہتے ہو؟‘‘اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیرہی بولنے لگی۔ ”علی روحان ہمارے خاندان میں نسل در نسل ایک بیماری چل رہی ہے…… ایک ایسی بیماری جو لاعلاج ہے‘‘۔وہ یک لحظہ خاموش ہو گئی۔

روحان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

”ایک ایسا مرض جس کی نذر ہمارے خاندان کی بہت سی عورتیں ہوگئیں“۔

”کیسی بیماری ماہیکان؟“

”ذات پرستی…… ہم ذات پرست لوگ ہیں روحان …… جو کسی بھی نیچ ذات سے رشتہ نہیں کرتے“۔ماہیکان کی آواز لرز گئی۔ وہ کچھ دیر آنسو پینے کی ناکام کوشش میں خاموش ہو گئی اور پھر کہنے لگی، ”علی روحان، میرے بابا ایک بہت بڑے جاگیردار ہیں۔ ہم پشت ہا پشت سے گاؤں کے سردار چلے آرہے ہیں۔ ہماری کئی مربہ زمین ہے …… اور  ……‘ماہیکان نے ڈبڈبائی آنکھوں سے روحان کے چہرے پر نظریں ٹکائیں ”تم جیسے ہزاروں لوگ میرے بابا کی زمینوں پر مزارعے ہیں …… جو اپنی ضروریات پوری کرنے کو ہمارے خاندان کے قرض میں جکڑے ہوئے ہیں“۔

علی روحان خاموشی سے سنتا رہا۔

ماہیکان آج پھر بے چین تھی۔ کمرے میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی تھی۔ کھلی کھڑکی سے پتوں کے گرنے کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ وہ گھبرا کر اٹھی اور کمرے میں ٹہلنے لگی۔

”کیا یہ ضروری ہے کہ اب کی بار بھی ایسا ہی ہو؟“ اس کے کانوں میں روحان کی آواز آئی۔’’اور پھر کیا آنے والے طوفان کے خوف سے ہم اپنے آج کے حسین دن قربان کر دیں“۔

ماہیکان سر جھکائے خاموشی سے سنتی رہی۔

انہونی کے ڈرسے لرزتے دلوں میں محبت پروان چڑھتی رہی اور وہ دونوں میڈیکل کے تیسرے سال میں پہنچ گئے۔ اور پھر وقت آیا جس نے ثابت کر دیا کہ اب کی بار بھی ایسا ہی ہے۔

”ماہیکان کی ماں،بتا دو اس کو کہ وہ پچاس مربہ زمین کے مالک سردارنور اللہ کی بیٹی ہے …… ایسے ڈومب لوڑی ہمارے جوتے صاف کرتے ہیں ……‘‘ ایک طوفانی ہوا  چلی دھول،مٹی میں زرد پتے اڑ اڑ کر بکھرنے لگے۔

”میں کیا کروں!‘‘ماہیکان نے ایک سسکی لی۔”غم، دکھ، غصے اور یادوں نے کیوں میرے اندر جگہ جگہ پڑاؤڈال رکھا ہے؟……کہ مجھے خو دکے لیے ذرا سی جگہ بھی نہیں مل پا رہی“۔ وہ ایک آہ بھر کر سوچنے لگی۔”میں اپنے دامن سے ذرا سی جگہ جھاڑ کر جوں ہی ٹکنے لگتی ہوں کہ خود پر یادوں کے انبار گرنے کے خوف سے بھاگ اٹھتی ہوں …… میں کہاں جاؤں؟“ ہلکان و بے چین ماہیکان، قالین پر لیٹے لیٹے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔

ڈاکٹر ماہیکان نے ہسپتال کی سیڑھیوں پر قدم رکھا تو دوائیوں اور فنائیل کی خوشبو نے اس کا استقبال کیا۔ کوریڈور میں دور تک سویپر پوچھا لگا رہا تھا۔ سٹاف اپنے مخصوص سفید یونیفارم میں ملبوس اپنے دکھوں اور غموں کو دانستہ بھلاکر مریضوں کی تیمارداری میں لگی ہوئی تھیں۔ بڑی تیزی سے سٹریچر پر کسی مریض کو ایمرجنسی میں آپریشن تھیٹر لے جایا جا رہا تھا۔ جگہ جگہ بنچوں پر مریضوں کے رشتہ دار بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ماہیکان کا تبادلہ بھی کچھ دن پہلے ہی اس ہسپتال میں ہوا تھا۔

اپنی سوچوں میں گم جوں ہی وہ نفسیاتی مریضوں کے وارڈ کے سامنے سے گزرنے لگی کہ ایک چیخ اسے اپنی سوچ سے حال میں لے آئی۔

”ہاتھ نہ لگاؤ مجھے…… ہاتھ نہ لگاؤ…… میں نا پاک ہو جاؤں گی“ ماہیکان کے قدم وہیں رک گئے اور وہ زیرِ لب دہرانے لگی،’’ناپاک ہو جاؤں گی؟“ تب ہی مریضہ کی چیخیں بڑھنے لگیں۔ ڈاکٹر ماہیکان آگے نہ بڑھ سکی اور مڑ کر وارڈ میں داخل ہو گئی۔ ڈرپ، سٹینڈ سب کچھ فرش پر بکھرے ہوئے تھے۔ نرس انجکشن لیے بیڈ کے پاس کھڑی تھی۔

ماہیکان کی نظریں مریضہ کے چہرے پر ٹک گئیں۔ اس کی آنکھیں جس میں زندگی جانے کہاں گم ہو گئی تھی ……کھوئی کھوئی آنکھوں میں کسی سوچ، کسی روشنی، زندگی کے آثار نہیں تھے۔

نرس اسے انجکشن لگانے لگی تو وہ ایک بارپھر چیخنے لگی ’’میں کہتی ہوں ہٹ جاؤ، میرے قریب مت آؤ…… تم مجھے ناپاک کرنا چاہتی ہو…… میں سید ہوں …… میں خالص ہوں“ یہ سن کر ماہیکان کا رنگ اڑ گیا۔ لڑکھڑاتے ہوئے اس نے جلدی سے دیوار کا سہارا لیا۔

مریضہ ماہیکان کی طرف مڑ کر کہنے لگی،’’تو نے کبھی دیکھا ہے آج تک کہ سید زادی کی شادی کم ذاتوں میں ہوئی ہے؟ …… بھلا ……بھلا …… تو نے دیکھا…… گل جان کی شادی اس سے ……اس سے ……‘‘ ماہ ِکان کے آنسو تیزی سے گالوں پر لڑھک گئے اور گل جان اسی طرح چیخ رہی تھی ”تو نے سنا ……؟ وہ  زور زور سے چیخ رہا تھا …… وہ حاجی عبدالکریم چیخ رہا تھا…… وہ ……وہ کہہ رہا تھا …… وہ کم ذات ہے…… میں تو ہسپتال کے سٹریچر پر ہی مر گئی تھی ……  اس نے میرا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی نہیں لیا …… جس سے میں یہ دیکھ سکتی …… یہ دیکھ سکتی کہ……میں اب اس دنیا میں ہوں یا نہیں ہوں ……‘‘گل جان خشک آنکھوں سے چیخ رہی تھی۔ نرس اسے انجکشن لگانے کو پکڑ رہی تھی۔

ڈاکٹر ماہیکان کے سینے میں ہچکیاں دم توڑنے لگیں۔ اس نے چیخ روکنے کو منہ پر ہاتھ رکھا اور دروازے کی جانب دوڑ لگا دی ……  علی روحان جو نہ جانے کب سے دروازے پر کھڑا یہ سب سن رہا تھا، اس کاہاتھ پکڑ کر روک لیا۔ ماہیکان وہیں کھڑی رہ گئی۔ اس کا پورا وجود ہچکیوں سے لرز رہا تھا۔ روحان اپنا دوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہاتھ کی پشت پر رکھ دیا۔ماہیکان نے اس کے کندھے پر سر رکھا۔ آنسو بڑی تیزی سے روحان کی قمیص میں جذب ہورہے تھے……!!۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *