Home » یوسف عزیز مگسی سیمینار » عبدالغنی بلوچ

عبدالغنی بلوچ

قسم اس برق کی جو مشعل شب ہائے نعمت ہو

قسم اس بادل کی جس کو فصلِ دہقاں سے محبت ہو

 

بلوچ قومی عوامی جدوجہد میں قومی علمی ادبی سیاسی اور سماجی شعور کے لیے ہماری شعراء ادیب دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کی جو جدو جہد رہی ہے۔ وہ انتہائی اہم اور کلیدی کردار رہا ہے۔ اور انہی کرداروں میں ایک عظیم ہستی نوابزادہ یوسف عزیز مگسی بھی ہیں جنہوں نے بالخصوص اپنی تعلیمی اور شعوری خدمات سے بلوچ قوم کے لیے علم کی بیداری اور شعوری سیاسی راہ کا یقین اور وطنی محبت اور اس کے لیے علمی کردار ادا کرنے کا سمت کا یعین کیا ہے۔

یوسف عزیز مگسی علم کے حصول کے ایسے عادی بن گئے کہ یہی آرزو زندگی بھر ساتھ رہی۔ وہ ہر وقت ہر لمحہ مجبور و ناخواندہ انسانوں کو پڑھانے لکھانے کے ذرائع مہیا کرنے اور قابل ِ عمل طریقوں کے بارے میں فکر کرتا رہتا۔ اس کا یہ قول بہت مشہور ہے۔  کہ ”میرے پاس مال و متاع کی بہت فراوانی ہے اگر میں اپنی تمام دولت بھی اپنی قوم پر خرچ کردوں اور میرے پاس قوم کی اصلاح کے لیے کچھ بھی نہ رہ جائے تو یقینا میں اس وقت ایک ایک بلوچ کے گھرصدا لگاؤں گا کہ خدا کے لیے میری جھولی میں کچھ ڈال دو تاکہ میں اپنے عظیم بلوچ فرزندوں کو منزلوں کے آراستہ کرسکوں“

اس بارے میں خان عبدالصمد خان یوں لکھتا ہے۔ ”نوابزادہ یوسف علی خان بہت بڑا دانشور تھا۔ سندھی، اردو اور فارسی کا بلند پایہ لکھاری اور مقرر تھا۔ بہت تیز فہم سچا، مخلص خرچ کرنے میں سخی رحمدل اور قوم پرست نوجوان تھا“۔

وطن کی تار راتوں کو چراغستان بنانے میں

میں اپنے عرقِ خوں سے شمعِ دل جلوا کے چھوڑونگا

جلا کر استخواں کے مغز سے شمع دل مضطر

عزیزانِ وطن کی بزم کو چمکا کے چھوڑونگا

سبق دے کر اخوت کا شجاعت کا محبت کا

میں پھر بگڑی بلوچستان کی بنوا کر چھوڑونگا

یوسف عزیز مگسی کے نام کے ساتھ خود ایک نظریہ جڑا ہوا تھا۔ جو جاگیرداری پسماندہ قبائلیت، ناانصافی اور جہالت کے خلاف جدوجہد کرنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ چونکہ نظریات کی اپنی دشمنیاں ہر سطح پر ہر وقت موجود رہتی ہیں۔ مگر اس نظریات کے دوست بھی دنیا بھر میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ جس طرح یوسف عزیز کے اس نظریات کے چراغ کو بجھانے کی شروع سے کوشش کی گئی۔ اسی طرح اس کے نظریات سے لگاؤ رکھنے والے دوست بھی دنیا میں بے شمار ہیں۔ جنہوں نے ہمیشہ اس چراغ کو روشن رکھا۔

مخصوص بلوچ معاشرے کے پس منظر میں اپنی مخصوص خصالت کی بنا پر اس نے قبائل کی سردار کی دستار کو عوامیت کے کپڑے پہنائے۔ اور نچلے طبقات کی حکمرانی قائم کی۔ اس طرح وہ نہ صرف جدوجہد آزادی کا لڑا کا سپاہی رہا۔ بلکہ طبقاتی جدوجہد بھی کرتا رہا۔ اور اس کے بعد بلوچوں میں مزدوروں اور کسانوں کی اولین حکومت بھی قائم ہوئی۔ لیکن یہ آخری کام بلوچ دانشوروں کی توجہ نہ پاسکا۔

آج دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مگر بلوچستان کے لوگ موجودہ تیز رفتار ترقی کی  ضروریات سے بہت دور ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کو اب جاگناہوگا۔ سیاسی غلامی کی زنجیروں کو ایک نعرہ حریت لگا کر توڑنا ہوگا۔ اور قوم کے لیے مشعل راہ بننا ہوگا باہمی حسد و رقابت اور ان لغویت کی بیخ کی کرنی ہوگی۔ بزدلانہ اور رجعت پسندانہ ذہنیت کو مٹانا ہوگا۔ قبائلی تنازعات سے نکلنا ہوگا۔ اور اپنی قومی تشخص کو بحال رکھنے کے لیے یوسف عزیز مگسی سمیت قومی ہیروز کا علمی طور پر پیروکار بننا ہوگا۔

یوسف عزیز مگسی نے بلوچ قوم کے نام ایک اپیل لکھی جو بہت ہی پُر اثر اور درد ناک تھا۔ اس میں بلوچستان کی پسماندگی، محرومی اور عوام کی غلامی کیفیتوں اور ان زنجیروں کو توڑنے، معاشی و سیاسی آزادی حاصل کرنے اور پھر تعمیر وترقی کے کام میں جت جانے کی اپیل تھی۔

یوسف عزیز مگسی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرائے بلوچستان میں وہ پودا لگایا جس نے پھیل کر پورا نخلستان بننا تھا۔ ایسا نخلستان جو نہ صرف انسانی بہبود کے قافلوں کو سستانے کو گھنا ٹھنڈا  سایہ مہیا کرتا بلکہ ایسے قافلوں کی سمت کے تعین اور درستگی کا کام بھی دیتا۔ ہم ان بڑے انسانوں کو بھول گئے ایک ایک شخص کی قربانیاں راستے کی قندیلیں ہیں۔ ایک ایک عظیم شخصیات جیل کی طوالت کا تذکرہ ہی ہمیں ہر طرح کے احساس کمتری میں مبتلا ہونے سے بچائے گا۔

Spread the love

Check Also

یوسف عزیز مگسی سیمینار۔۔۔۔رپورٹ: محمد نوازکھوسہ

بلوچستان اور بلوچ سیاست کے امام، علم و دانش کے چراغ، قومی وطبقاتی جدوجہد کے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *