Home » پوھوزانت » احمد خان کھرل ۔۔۔ شاہ محمد مری

احمد خان کھرل ۔۔۔ شاہ محمد مری

احمد خان، کھرل ایک عرصے سے میرے ذہن کا دل مراد،کھوسہ بنا ہوا تھا۔اُس نے اُس وقت انگریز کو پنجاب میں للکارا جب انگریز کے پاس پنجاب میں 40ہزار فوج تھی۔ (26ہزار ہندوستانی، ساڑھے تیرہ ہزار پنجابی اور بقیہ چند سو فرنگی) (1) اور  زبردست جنگی سازو سامان موجود تھا۔

دوسری طرف انگریز کا مقابلہ کرنے والے لوگ عام کسان تھے۔ وہ نہ تو سٹینڈنگ آرمی تھے، نہ اُن کے پاس کوئی ٹریننگ تھی اور نہ جدید اسلحہ تھا۔ البتہ ایک چیز کی فراوانی تھی اُن کے پاس جو انگریز کے پاس نہ تھی:جذبہِ آزادی۔

جیکب آباد کا دلمراد کھوسہ بھی انگریز کے خلاف 1857کی جنگ لڑا تھا اور ساہیوال کا احمد خان بھی۔ ایک بلوچستان  میں اپنے قبیلے کا سردار تھا، دوسرا پنجاب کے ایک قبیلے کا۔ کھوسہ کس عمر میں سامراج دشمن سپاہی بنا تھا ہمیں معلوم نہیں۔ لیکن کھرل 80سال کا بوڑھاشخص تھا جب اس نے انگریز کے خلاف اسلحہ اٹھایا۔

دونوں تاریخ میں توامرہوگئے مگر جسمانی طور پر  اِس جنگ میں زندہ نہ بچے۔ دونوں کی جنگ خود رو ابھار والی، آزادانہ جنگ تھی، اور دونوں ہی کے لیے کسی اور ہر جگہ سے کوئی امداد نہ آئی۔ دونوں میں سے ہربہادر اکیلا ہی اپنے عوام کے ساتھ انگریز جیسی طاقت سے ٹکرا گیا۔ دونوں اپنے قبیلے میں محترم تھے۔ دلمراد کا ساتھ سردار دریا خان جکھرانی اور عنایت شاہ نے دیا، اور احمد خان کے ساتھی مراد اور سارنگ بنے۔

دونوں جنگوں کا نتیجہ تو ایک ہی نکلا، یعنی عوام کی شکست۔دونوں میں البتہ فرق یہ تھا کہ احمد خان تو اپنی دھرتی پہ ہی شہید ہوا۔مگر، دلمراد کو پاک موت یہاں نصیب نہ ہوئی۔اُسے گرفتار کر کے عمر قید دی گئی اور کالاپانی جلاوطن کیا گیا۔وہ وہیں امر ہوگیا۔ اُس کی قبر تک نہیں معلوم۔(قبر تو خیر، احمد خان کی بھی نئی پنجابی نسل کو معلوم نہیں۔اس لیے کہ پنجاب کی مڈل کلاس ایسی ”نعمتوں“ پر فخر کرنے، اور انہیں اپنی اگلی نسل کو منتقل کرنے کی باتوں سے ”بالاتر“ہونے پر فخر کرتی ہے!۔)۔

ساری سامراج دشمن آزادی کی جنگوں میں ظاہر ہے کہ دو فریق رہے ہیں: حملہ آور اور آزادی پسند۔ چنانچہ ہر جنگ دونوں فریقوں کی طرف سے الگ الگ رپورٹ ہوتی رہی ہے۔فرق یہ تھا کہ ہمارے خطے میں حملہ آور (خواہ مغل تھے یا انگریز یا دوسرے یاجوج ماجوج) تحریری طور پراپنے سائیڈ کی روداد  رپورٹ کرتے رہے۔شاہ عنایت کی مغل اور مقامی فیوڈلوں کے خلاف جنگ کو مغل سائیڈ نے فارسی اشعار کی صورت میں  شائع کرکے محفوظ کرلیا۔ اسی طرح احمد خان اور انگریز جنگ میں انگریز نے رپورٹیں، خطوط اور مضامین تحریری طور پر لکھ کر چھاپ دیں۔

چنانچہ اِن ساری مزاحمتی جنگوں میں حملہ آورکا بیان تو سلامت و محفوظ رہا۔ مگر سماجی معاشی پسماندگی کے سبب دوسرا فریق یعنی آزادی کی جنگ لڑنے والے وطن دوست جنگ کے بارے میں اپنا موقف، اوراپنی رپورٹ شائع شدہ صورت میں محفوظ نہ کرسکے۔ ہم اسے محض سینہ بہ سینہ چلنے والی شاعری، ضرب الامثال یا، چیذغوں (پتھر کی ڈھیری جمع کر رکھ رکھنا) کے ذریعے ”محفوظ“رکھتے رہے۔چنانچہ قبضہ گر کا بیان تو محفوظ رہا مگر ہماری رپورتاژ جزوی یا کلی طور پر گم ہوگئی ۔احمد خان کی جنگ کے ایک فریق یعنی انگریز کی رپورٹ تو میں پڑھتا رہا تھا، اب چاہا کہ وہاں ساہیوال جا کر سامراج دشمن وطن پرست کی جنگ کی فولکلوری معلومات بھی جمع کردوں۔عوام کا بیان معلوم کروں۔

دلمراد کھوسہ کی جنگ کے بارے میں تو بلوچی میں کچھ بھی موجود نہیں رہ سکا۔ جبکہ اس کے برعکس احمد خان کی شش ماہ کی سامراج دشمن جنگ کے بارے میں یا تو فوک شاعری بہت کی گئی۔ یا اُسے محفوظ اچھی طرح کیا گیا۔مگر اب تو لگتا ہے حساب ایک جیسا ہوگیا۔ دلمراد پہ بلوچوں نے شاعری نہیں کی، یا کر کے گُم کردی، اور احمد خان پہ کی گئی شاعری کو پنجابی دانش ور، اور مورخ بھول بیٹھے۔۔۔اور اسی لیے وہ قوم تباہ ہے۔وہ ذہنی اور اخلاقی طور پر اس لیے برباد ہے کہ وہ اپنے اصلی وطنی ہیروؤں کو پھینک کر باہر سے مصنوعی ہیرو درآمد کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک عدد غوری کہیں سے ڈھونڈ لائے، کہیں سے بن قاسم چُن لائے، اور پھر ایک غزنوی ڈھونڈنکالا۔ شمال ختم ہوگیا، تو جنوب سے سرسید درآمد کرلیا۔۔یہ سلسلہ تاابد چلتا نظر آتا ہے۔

اُس پہ طرّہ یہ کہ انہیں اپنی اس ہیرو فراموشی پہ کوئی ندامت بھی نہیں۔

احمد خان کی اس سامراج دشمن جنگ کو ”گو گیرہ جنگ“بھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اُس وقت یہ پورا علاقہ گوگیرہ ضلع میں شامل تھا۔

یہ علاقہ ”مارو اور بھاگ جاؤ“ جیسی جنگ کے لیے بہت موزوں تھا۔اس طرح کی سامراج دشمن جنگ یا تو کیوبا کے سائرا مائسترا جیسے کوہستان میں اچھی طرح لڑی جاسکتی ہے، یا دلدلی ویت نام میں،اور یا پھر ملایا جیسے جنگل میں۔ احمد خان کی اس جنگ کا میدان جنگل ہی تھا۔ یہ سمجھیے کہ یہ پورے کا پورا ”جنگل وار“ تھا۔

81 سالہ احمد خان کا سماجی پس منظر یہ تھا کہ وہ 1776میں پیدا ہواتھا۔ عام دیہات کا دیہاتی آدمی۔اس کی پرورش اور تربیت دیہی سماج کے کرخت ماحول نے ہی کی۔ سردار خیل سے تھا بھی تو کیا؟۔ ایک نامعلوم گوشے کے سردار نے نامعلوم ہی رہنا تھا۔ تاریخ میں نوٹس نہ لیا ہوا آدمی!۔ پوری جوانی گزری کسی نے اُسے نہ جانا۔ ادھیڑ عمری میں بھی وہ ایک عام اور گمنام آدمی رہا۔مگر یہ شخص جب 81سال کا تھا تب اُس نے دنیا کے شریف انسانوں کے کان مسرت سے کھڑے کر دیے۔ انگریز کوجوللکارااس نے۔انگریز جس کی سلطنت اس قدر وسیع تھی کہ اس پہ سورج نہیں ڈوبتا تھا۔

احمد خان اِس دیو کو صرف للکار کر خاموش نہ ہوا بلکہ اس نے اسلحہ اٹھایا اور جنگ کی۔ احمد خان شہید کا غیرت مند کردار تاریخ میں ایک علامت کے طور پر ابھرا ہے۔ نامساعد حالات اور قلیل ترین وسائل ہونے کے باوجود اس نے انگریز سامراج کی پالیسیوں سے 81 سال کی عمر میں بغاوت کی۔۔ یعنی جس عمر میں لوگ عبادتگاہوں کا رخ کرتے ہیں اور سمجھوتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں، احمد کھرل اُس عمر میں جنگ کی گھوڑی کی زین پہ کمال مضبوطی سے براجمان ہو گیا۔

یہ شخص جھامرہ نامی گاؤں میں رہتا تھا۔ جھامرہ وہ گاؤں ہے جس کے لوگوں نے اُس سے قبل رنجیت سنگھ کے خلاف بھی مزاہمت کی تھی۔رنجیت سنگھ نے بھی جھامرے کو آگ لگادی تھی۔ کھرل، احمد خان کے قبیلے کا نام تھا۔یہ اچھا خاصا بڑا قبیلہ ہوا کرتا تھا۔

جس وقت یہ بہادر،انگریز کے خلاف دھاڑا تھا، اُس وقت انگریز کوہندوستان پہ قبضہ کیے کافی عرصہ ہوچکا تھا۔ تقریباً نصف صدی۔ اُس نے  اس طویل عرصے میں اپنی جڑیں خوب مضبوط کی تھیں۔ جابجا چھاؤنیاں کھول رکھی تھیں، ایک اچھی خاصی سول انتظامیہ کھڑی کی تھی اور مقامی آبادی میں اپنے حامی اور اتحاد ی پیدا کر لیے تھے۔ احمد خان تو بہت بعد یعنی 1857 میں ابھر آیا تھا۔

عوامی جنگی صورتحال جب پک جاتی ہے توپھر شعلے بھڑکنے کے لیے محض ایک چنگاری بہانہ بن جاتی ہے۔ ہمارے خطے میں انگریز سامراج کے خلاف نفرت اس قدر زیادہ ہوگئی تھی کہ جب یہ خبر آئی کہ بہت دور،میرٹھ نامی علاقے میں دیسی سپاہیوں نے اپنے گورے افسروں کے خلاف بغاوت کردی۔ توہر جگہ اس بغاوت کی خبر ایک ہمدردی، طرفداری اور دلچسپی سے سنی گئی۔ جہاں جہاں طاقت تھی عوام اٹھ کھڑے ہوئے، جہاں طاقت و تنظیم نہیں تھی وہاں دعاؤں اور تبصروں کی صورت باغیوں کی حمایت شروع ہوئی۔ بلوچستان میں کھوسہ اور پنجاب میں کھرل نسبتاً تیار تھے، اسلحہ اٹھا لیا۔

میرٹھ بغاوت کے بعد انگریزوں نے  ملک بھر میں شورش  پھیلنے سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر، اور جگہ جگہ پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ اس مقصد کے لیے مختلف مقامات پر جیل خانے بنائے اور باغیوں کا صفایا کرنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ ایسی ہی ایک جیل گوگیرہ میں بھی بنی۔

میں جب وہاں گیا تو مختلف لوگوں سے یہ سن کر (اور بعد میں مختلف سورسز میں پڑھ کر)مجھے حیرت ہوئی کہ اُس لڑائی میں بہت سے لوگوں نے خود کو بچانے کی عجیب ترکیبیں سوچیں۔ کھرل قبیلہ چونکہ براہِ راست انگریز سے سینگیں ٹکرائے ہوئے تھا، اس لیے ظاہر ہے کہ وہ قبیلہ انگریز کا دشمن نمبر ایک تھا۔ چنانچہ کچھ لوگ فوراً ”کھرل“ کا آخری ”ل“ ھذف کر گئے اور یوں ”کھر“ بن گئے۔ انہی ذرائع نے مجھے بتایا کہ ایک دوسرے گروہ نے ”کھرل“ کے ”ک“ کو اڑا دیا اور وہ ”ہرل“ بن گئے۔ (وللہ اعلم بالصواب)۔

اِس علاقے میں احمد خان کی سامراج دشمن لڑائی کی پہلی گولی مئی میں چلی۔انگریزکو  حیرانی تھی کہ پورا علاقہ پچاس برس سے پر امن اور خاموش تھا۔ یہ تو بالکل ایک نیا ردِ عمل تھا جس کی توقع بھی نہ تھی۔ ظاہر ہے انگریزگھبرا گیا۔ اس نے اپنے ہمدردوں کے علاوہ قبائلی بڑوں کو بلایا اور  ان سے باغیوں کے خلاف سامراجی حاکموں کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔ کہیں دھمکی، کہیں پیسہ اور کہیں درخواست۔ تب ایک صبح، انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر وں سرداروں کو طلب کیا۔ راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان، برکلے کو ملے۔ انگریز افسر نے بغاوت سے نمٹنے کے لیے گھوڑے بھی مانگے اور آدمی بھی طلب کیے۔

رُکیے، ذرا احمد خان کے گوگیرہ کے بجائے خیر بخش مری اول کے بلوچستان چلتے ہیں۔ اس لیے کہ بالکل ایسا ہی ایک واقعہ پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں بلوچستان میں بھی ہوا۔ یہاں بھی عالمی جنگ میں انگریز نے عالمی محاذوں پر لڑنے کے لیے سرداروں سے اضافی نفری مانگی۔ اس بھرتی مہم میں سرداروں میں سے جو جلدی پگھل گئے انہوں نے ایک خاص تعداد میں آدمی دینے کی حامی بھرلی اور نام رجسٹروں میں لکھوا بھی لیے۔ مگر بات جب ہمارے خطے کے سب سے بڑے سامراج دشمن قبیلے مری کے سردار تک آئی تو اس (خیر بخش مری اول)کا جواب یوں تھا:

”مانگنے سے کوئی کسی کو چار آنے نہیں دیتا، ہم اپنے بھائی بیٹے تمہیں کیسے دیں گے؟“۔ احمد خان نے بھی ایسا جواب دیاجو آج تک وہاں کے فولکلور کا حصہ ہے۔

” کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین شیئر نہیں کرتا”

احمد خان یہ شجاعانہ جواب دے کر واپس علاقہ  چلا گیا۔ فریقین جان گئے کہ اس انکار کا مطلب ہی طبل ِجنگ بجنا تھا۔

اب جب ایک سوپر پاور کو چیلنج کرلیا تو اُسے بھگتنا بھی تو تھا۔ احمد خان قاتل وبے رحم سامراج کو گھوڑے اور افرادی قوت نہ دینے کے نتائج جانتا تھا۔ اس لیے وہ آرام سے گھرنہ بیٹھا بلکہ اس نے قبائل کو ساتھ کر لیا اور ہر جگہ لڑائی کی تیاری شروع کردی۔

انگریز خوف اوردہشت پھیلانے کے لیے جائز نا جائز گرفتاریاں کرتارہا، گاؤں جلاتا رہا، مویشی قبضہ کرتارہا مگر وطن کی آزادی بھلا خوف سے رک سکتی ہے؟۔چنانچہ جنگ ِ آزادی جھاڑیوں، کھائیوں میں محتاط انداز سے شروع ہوئی۔ (میں جن بوجھ کر جنگِ آزادی بول رہا ہوں۔اس لیے کہ وہاں کے دانشور جنگِ آزادی کے بجائے تحریک ِآزادی کہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اور اس سے ان کا مطلب انگریز کی مخالفت نہیں، ہندو دشمنی ہے)۔

یہاں انگریز افسر الفنسٹن ٹھا۔ پہلی عوامی ابھار کو بھی وہی نمٹا تھا۔ یہ ابھار گوگیرہ، ہڑپہ اور چیچہ وطنی میں ابھری۔انگریز ہر جگہ عوام کے غیض کی زد میں تھا۔ کیا سردار، کیا کاشتکار، اور کیا چرواہا؟۔ جس کے ہاتھ جو آیا اسے ہتھیار بنالیا اور جب موقع ملا حملہ کردیا۔ گزٹیئرز اور دیگر برطانوی دستاویزات اس طرح کی چھوٹی موٹی وارداتوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں۔ میں تو حیران ہوں کہ کس نے کس کمال کے ساتھ پنجابیوں کے نصاب وتاریخ سے انگریز سامراج دشمنی کا باب نکلوادیا اور پندرہ کروڑ پنجابی لوگوں کو باور کرادیا کہ تیرا دشمن انگریز نہیں، ہندو ہے۔اسی چالاکی کا خمیازہ پنجابی عوام بے کلچری،اور بے تاریخی کی صورت بھگت رہے ہیں۔ ان کا ہیرو کھرل احمد خان نہیں ”سر سید“ احمد خان بن گیا ہے۔

جنگ میں ابتدائی دباؤ کے بعد انگریز سنبھل گیا۔ اس کی فوجوں نے ایک طاقتور کاروائی کے ذریعے اپنے میجر چیمبرلین کو آزادی پسندوں کے محاصرے سے چھڑا لیا اور کچھ دیگر کامیابیاں حاصل کیں۔

مگر وطن پرستوں کی لگائی آگ ایک جگہ تک محدود تھوڑی ہوتی ہے؟۔ کبھی ایک علاقہ بدامنی میں تھا تو کبھی دوسراعلاقہ شورش میں۔ یہ ایک ایسی زیرِ زمین ہولناکی تھی کہ اِدھر حالات قابو کر لو تو عوامی اژدھا اچانک دوسرے علاقے میں بھسم کرنے والی شُو کار کے ساتھ نمودار ہوجاتا۔ سرکا چکرانا کسے کہتے ہیں، دِل کا نکال دینا کیا ہوتا ہے؟ اوسان خطا کروانا کیا چیز ہوتی ہے؟۔

آزادی پسند احمد خانیوں کی مقبولیت سے قبضہ گر کے رینک اینڈ فائل میں خوف پھیل چکا تھا۔ایک بڑا خوف یہ تھا کہ کہیں انگریز کے اپنے تنخواہ دار مقامی سپاہی ہی آزادی کی تحریک سے نہ جا ملیں۔چنانچہ انگریز نے ملتان اور گوگیرہ میں مقیم اپنے دیسی فوجیوں کو غیر مسلح کردیا۔ حتی کہ خزانہ کی حفاظت پہ مامور فوجیوں کو بھی غیر مسلح کردیا۔۔۔۔۔خوف شکست کی اولین علامت ہوتی ہے۔ اور انگریز اس خوف میں سر سے ایڑی تک مبتلا ہوچکا تھا۔

انگریز کو بہر صورت پانسہ پلٹنا تھا۔ اس کے پاس سوائے شدت کے، سوائے ناروائی اور بے حساب ظلم کے اور کوئی راستہ نہ تھا۔

اس نے ایسا ہی کیا۔ آس پاس کے علاقوں سے فوجی دستے منگوائے۔ خود کو اپنے حساب سے زبردست مضبوط کیا۔

اور پھر اُس کے ساتھ وہی ہوا جس کا اُسے خدشہ تھا۔ سپاہی یا تو فرار ہونے لگے، یا پھر باقاعدہ بغاوت کرنے لگے۔ ہر ہر جگہ ایسا ہونے لگا۔ بالخصوص ملتان کے مقامی سپاہیوں نے باقاعدہ بغاوت کردی۔اور سینکڑوں کی تعداد ٹولیوں کی شکل میں عوامی لشکر سے ملنے روانہ ہوئے۔

مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ وہ باپ دادا کے زمانوں سے جس سانپ کو دودھ پلاتے آئے ہیں، وہ دشمن کا ہوچکا ہے۔  بہاوالدین زکریا کے سجادہ نشین نے انگریز کے کہنے  پر اپنے مریدوں کو ساتھ لیا اور بغاوت میں فوج سے بھاگے مقامی سپاہیوں پر حملہ کردیا۔ جی ہاں پیر نے ہم وطن عوام الناس پر سات سمندر دور سے آئے ہوؤں کی خوشنودی کے لیے حملہ کردیا۔ بلوچی میں پیر کو نہ ماننا ایک گالی ہوتا ہے:”بے مرشد“۔ بہت بری گالی۔اب پتہ نہیں زکریا پیر کے سجادہ نشین کو کیا نام دیا جائے؟۔ اس قریشی سجادہ نشین نے تین سو کے قریب نہتے باغی سپاہی قتل کردیے۔ ”مریدکش!“۔۔۔شاہ محمود قریشی تھا اُس کا نام۔جو قریشی پیپلز پارٹی میں بھی وفاقی وزیر، اور عمران خان کی بادشاہی میں بھی وزیر، وہ اُس قریشی کی آل اولاد ہے، اور اِس کا نام بھی اسی شاہ محمود قریشی پہ رکھا گیا ہے۔ ہر الیکشن جیتتا ہے۔ ہر بار وزیر گزیر بنتا ہے۔ یونیورسٹیوں کالجوں، علاموں، علاماؤں کے خطے کی اس قدر پسماندگی!! اس قدر بے شعوری!!۔(طعنہ ہمیں پسماندگی اور جہالت کا دیتے ہیں!)۔

اسی طرح دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کو حکم دے کر وہاں آزادی پسندوں کا قتلِ عام کیا۔ جو لوگ بچ گئے ان کو پھر سلطان احمد بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور کے مریدوں نے شہید کردیا۔ وطن پرستوں کی ایک ٹولی کو فخر امام کے پردادا کے مریدوں کا ذبیحہ سہنا پڑا۔

چنانچہ آگے بڑھنے سے پہلے،میرے قارئین بس ایک کلیہ گرہ میں باندھ لیں۔ وہ یہ کہ جہاں کہیں سامراج دشمن اور عوامی حمایت کی جنگ ہوگی تو وہاں مقامی اشرافیہ کی اکثریت بیرونی لٹیرے اور ظالم کے ساتھ ہوگی۔ دنیا بھر میں ایسا رہا ہے۔ سویہاں اس عوامی جنگ میں بھی یہی ہوا۔اب جب کہ 81 سالہ بہادر کی قیادت میں عوام الناس سامراج کے خلاف جنگ کر رہے تھے تو  خطے کے درگاہوں کے سجادہ نشین، پیر، بڑے جاگیردار اور ملّا اپنی عزت وناموس کی کلاہ انگریز کے قدموں میں بچھائے چلے جارہے تھے۔دربار سید یوسف گردیز کا سجادہ نشین سید مراد شاہ گردیزی،دربار بہاء الدین زکریا کا سجادہ نشین شاہ محمود قریشی،فریدالدین گنج شکر کا گدی نشین مخدم آف پاکپتن،خاکوانی،اور ڈاھا سب کے سب انگریز کے ساتھ تھے۔ ساتھ دینے کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مریدوں کے جتھے لے کر عوامی تحریک پر حملے کر رہے تھے، انہیں قتل کررہے تھے، انہیں گرفتار کروا رہے تھے۔ اورجواب میں جاگیریں پارہے تھے۔۔۔بہاوالدین زکریا کے سجادہ نشین کو ایک رسالہ کے لیے 20آدمی اور گھوڑے فراہم کیے گئے۔ اسے اِس جنگِ آزادی کے کچلنے میں انگریز کا ساتھ دینے پہ 3ہزار روپے نقد، اور سالانہ سترہ سو پچاس روپے کی جاگیر، اور ایک باغ دیا گیا۔نورشاہ گیلانی کو انگریز نے 300روپے خلعت اور سند عطا کی تھی۔ مخدوم آف شیر شاہ کو بھی جاگیر دی گئی۔

بد قسمتی دیکھیں کہ انہی لوگوں کی نسلیں آج بھی عوام دشمن اقتدار کی غلام گردشوں میں دُم ہلاتے نظر آتے ہیں۔پنجاب کا ہی مسئلہ ہوتا تو ہم وہاں کے مڈل کلاس کو برا بھلا کہہ کر چپ ہوجاتے۔ مگر یہاں تو یہ انگریز نواز لوگ وفاقی وزارتیں لے کر پورے پاکستان پر حکمرانی  کررہے ہیں۔ ہم پہ ایسے لوگ حکمران ہیں جن کے اجداد انگریز سامراجی سوچ کے اصطبل کے سائیس ہوا کرتے تھے۔ دو سو سال گزرنے کے باوجود وہ سوچ غدار نہیں، بلکہ ہماری حکمران ہے۔

آؤ میٹھی بات کرتے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے جوزی مارٹی سے لے کر ساہیوال کے احمد خان تک دنیا بھر میں عوامی ہیروؤں کی گھوڑی بہت مشہور ہوتی ہے۔ پرتگیزیوں کے خلاف وطن پرست بلوچ ہمّل کی گھوڑی سے لے کر مہلب، سیاہ اور، اڑ بنگ تک اُن سارے گھوڑوں پہ ایک کتاب لکھنی چاہیے،جن کے مالک اپنے وطن کے عشق میں گرفتار تھے اور گھوڑی اُن کی جنگوں کی کامریڈ رہی۔۔۔ کامریڈ اِن آرمز۔۔۔۔

احمد خان کی گھوڑی کا نام ”ساوی“ تھا۔

انگریز سامراج پکنک منانے تو نہیں آیا تھا۔ وہ تو لوٹنے، چھیننے، اورڈاکہ ڈالنے آیا تھا۔ آج کا برطانوی خواہ کاٹنے چھری سے کھانا کھائے یا تھری پیس سوٹ پہن کر دنیا کو مہذب بنانے کی ڈینگیں مارتا پھرے، سچ یہ ہے کہ وہ بھیڑیا، ڈاکو، قذاق،دھاڑے مار اور حقیر درجے کا گنڈھ کپ رہا ہے۔ کہیں دو سو سال تک، کہیں چار پانچ صدیوں تک۔اسے پیچھے انگلینڈ میں دولت کی ضرورت تھی۔ ایک پورا ایمپائر چلانا تھا۔ وہاں صنعتیں لگانی تھیں، معیارِ زندگی بلند کرنا تھی۔۔اس لیے ہم نے انگریز کا گندہ اور مکروہ چہرہ ہی دیکھا۔ ہمیں شیکسپیئر سے شناسائی نصیب نہ ہوئی۔

اِس بھوکے انگریز کو کاشت کاری  علاقوں میں دولت زراعت ہی سے حاصل ہوسکتی تھی۔ لہذا کاشتکاروں پر بہیمانہ ٹیکس لگائے گئے۔ کسان بھوک سے مرے یا، اُس کے اہل خانہ غیر انسانی زندگی گزاریں، انگریز کو اس سے کوئی غرض نہ تھی۔

ان ٹیکسوں کے بوجھ سے عوام کی کمریں دوہری ہوتی گئیں۔اگلی فصل کے پک جانے تک سال کا غلہ تک نہ بچتا تھا۔ وہی:

کھادا پیتا لاہے دا

باقی احمد شا ہے دا

تنگ آکر آٹھ جولائی 1857کو وٹو قبیلے کے ایک گاؤں والوں نے انگریز کو مالیہ دینے سے انکار کردیا اور مالیہ اکٹھا کرنے والے سرکاری عملہ کو مار پیٹ کر گاؤں سے بھگادیا۔

ہم تصور کرسکتے ہیں کہ انگریز کتنا غصہ ہوا ہوگا۔ وہ یہاں سے انگلینڈ تک دولت لے جانے والی پائپ لائن کوکسی صورت بھی اپ سیٹ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ لُوٹ کی یہ لائن تو اُس نظام کی زندگی کی اہم ترین شریانوں میں سے ایک تھی۔ وٹو قبیلے کا وہ گاؤں چھوٹا تھا یا بڑا، ایک تھا یا تعداد میں زیادہ، انگریز لوٹ مار کے اپنے دھندے میں آکسیجن کے ایک مالیکیول کی کمی بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ قہر نا کی میں انگریز نے اگلے ہی دن گاؤں پہ ہلہ بول دیا، پکڑ دھکڑ اور گرفتاریاں شروع کردیں۔ صرف اُس گاؤں کا یہ حشر نہ ہوا بلکہ خوف وعبرت کی ریڈیائی لہریں پورے علاقے میں پھیلا دی گئیں۔لوگوں کو مویشیوں کی طرح ہانک ہانک کر، مارتے پیٹتے جیل میں پھینک دیا گیا۔یوں گوگیرہ کا جیل قدیوں سے بھر گیا۔

کیا گناہ گار، کیا بے گناہ؟۔ مقصد تو خوف پھیلانا تھا۔ خوف جو انسانی تاریخ میں استحصال کرنے والے کا اولین ہتھیار بھی بنا، اور بش اور ٹرمپ کے زمانے تک جبر و قہر کی قوتوں کا من بھاتا طریقہ بھی رہا۔

سرکارکے ساتھی سرداروں نے حکام بالا کو لوگوں کی بے گناہی سے آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ آخرکاردلیل وگویائی کا بیٹا،احمد خان الفنسٹن کے پاس گیا۔ اور زبردست دلائل دیے، حقائق بتائے اور عوامی جذبات کی سنگینی اور اُن میں موجود غیض و غضب کے بارے میں بتایا۔ خوف نے خوف کو کاٹ لیا۔ بڑا خوف چھوٹے خوف کو نگل گیا۔۔۔انگریز نے قیدی رہا کردیے۔

مگر انہی قیدیوں سے پتہ چلا کہ جیل میں تو اور بھی بے شمار قیدی موجود ہیں۔اور یہ قیدی عام چوری چکاری اور ڈاکہ اور اغوا کے مجرم نہیں تھے۔۔۔یہ تو مالیہ نہ دینے سے زیادہ بڑے ”مجرم“ تھے۔ وہ تو سیاسی لوگ تھے۔ اور سب سے بڑی سیاست تو اپنے وطن کی انگریزوں سے آزادی تھی۔  آزادی جو کہ شارٹ ٹرم اور معمولی مطالبات سے بڑا مطالبہ تھی۔ آزادی جو مطالبات کی ماں تھی۔

یک دم اندازہ ہوگیا کہ اتنے زیادہ قیدی نہ منتوں سے رہا کرائے جاسکتے ہیں، نہ ہی دلائل اور دھمکیوں سے۔احمد خان کا لیننی ذہن لمحہ بھر میں یہ بات سمجھ گیا کہ قیدیوں کی رہائی بھی لازمی تھی اور کوئی پُر امن راستہ بھی موجود نہ تھا۔

چنانچہ قیدی بزور قوت چھڑانے کا فیصلہ ہوا۔ مراد اور بہلول جیسے جی داروں کی معیت اور احمد خان کی سربراہی میں آزادی پسندوں نے 24 جولائی 1858 کو گوگیرہ جیل پہ حملہ کر دیا۔ انگریز پہلے ہی سے خبردار تھا۔ لہذاگھمسان کی جنگ ہوئی۔اس جنگ میں سو سے زائد فوجی ہلاک ہوگئے۔جن میں جیل ڈپٹی سپرنٹنڈ نٹ منچورڈ بھی شامل تھا جسے احمد خان کی دشمن آشنا گولی لگی۔ گردنیں اڑا دینے والی اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ وطن پرستوں نے اپنے قیدی بزور رہا کردیے۔ آزاد ی پسند،انگریز کا گولہ بارود بھی لے گئے۔

اِس طرف بھی نقصان ہوا۔ اُن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ احمد خان کھرل کے رُسمتی پاک بازو پہ بھی گولی لگی۔

حملہ کرنے والے آزادی پسند تو آسمانی بجلی تھے، چمکے، بھسم کیا اور روئے زمین سے غائب!۔ سب لوگ راتوں رات اپنے اپنے ٹھکانے پہنچے۔ احمد خان بھی آزادی کی تحریک کے مقدس ہیڈ کوارٹر جھا مرے پہنچا(2)۔

 

حوالہ جات

۔1۔ اشرف، ایم اے۔ تاریخ ِ ساہیوال۔ 2014  پنجاب لوک سبحاگ۔۔ صفحہ 227

۔2۔ اعجاز، اے ڈی۔ کال بلیندی۔2006  پنجاب لوک لہر۔    صفحہ 41

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *