Home » پوھوزانت » چاک گریباں ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

چاک گریباں ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

حبیب جالب کی کتاب”  سرِ مقتل” جس کی اشاعت 1966 میں ہوئی ایک مہینے کے اندر چار ایڈیشن میں بکی۔لیکن یہ سلسلہ رکا  نہیں جب ساتواں ایڈیشن شائع ہوا تو حکومت نے اس کتاب کوضبط کرکے اپنی حکمرانی اور مارشل لاء کی بالادستی کا پیغام دیا۔ کتاب پر پابندی لگائی گئی گھر پر چھاپہ مارا گیا اور جالب کو ہتھکڑی لگی۔ لیکن دوسری طرف حبیب جالب کے انداز بیان میں مزید سختی، ردعمل اور جوش پیدا ہوا۔ جس کا اندازہ آپ اس شعر سے لگا سکتے ہیں۔

اس کو شاید کھلونا لگی ہتھکڑی

میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی

یہ ہنسی دے گئی کتنی طاقت مجھے

سبط حسن لکھتے ہیں۔ حبیب جالب عوامی انسان ہے۔ ان کے سوچنے اور محسوس کرنے کا اندار عوامی ہے۔ اُن کی قدریں عوامی ہیں۔ ان کی بحثیں اور تقریریں عوامی ہیں۔وہ عوام کے دکھ، درد اور امنگوں کی ترجمانی عوام ہی کی زبان میں کرتے تھے۔ یہ جو ہزاروں لاکھوں انسان، حبیب جالب سے اتنا پیار کرتے ہیں اور ان کے اشعار سن کر جذبات سے بے قابو ہوجاتے ہیں ۔ تو ان کا پیار ان کی وار فتگی بے سبب نہیں ہے۔

سبط حسن مزید کہتے ہیں ” کانٹوں کی پیاس بجھانا حبیب جالب کا مقدر بن گیا ہے اور غم کی نوید سنا نا ان کا مسلکِ زیست۔ وہ اگر ایک آنکھ سے روتے اور دوسری آنکھ سے ہنستے تو ان کے رونے اور ہنسنے دونوں انہی کے حوالے سے ہے۔ وہ روتے ہیں عوام کے حال زار پر اور ہنستے ہیں ان کے روشن مستقبل پر۔ان کی شاعری شکست ِدل کی صدا بھی ہے اور سوز یقین کی للکار بھی۔ وہ دل توڑنے ولواں کے ثروت اقتدار سے کبھی نہیں ڈرے بلکہ اندھیرے کے  پجاریوں نے شب خون مارے اور نقاب بھی اُوڑھی حبیب جالب نے ان کو نوچ کر پھینک دیا۔ سوچتا ہوں کہ اس درویش انسان میں یہ جرات انکا ر کہاں سے آئی۔ درحقیقت وہ قوت عوام کی حقیقت ہے۔۔۔۔ ان کے اشعار میں فرط جدبات سے بے قابو ہوجاتے ہیں۔ جو حبیب جالب کو ولولہ اورجوش عطاء کرتا ہے، عوام کی طاقت ہے۔ اسی عوامی طاقت کو لیے حبیب جالب نے زندگی میں آگے بڑھتے رہے۔ 1971 میں کسان ہال  لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا یحیٰ خان ملک توڑ رہا ہے میں چپ نہیں رہوں گا۔ چپ رہنا بد دیا نتی ہے اور جیل سے باہر رہنا بے غیرتی ہے۔ اس شاعری کے ساتھ جیل چلے گئے۔

محبت گولیوں سے بورہے ہو

وطن کا چہرہ خوں سے دھورہے ہو

گمان تم کو کہ راستہ کٹ رہا ہے

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

حبیب جالب نے نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ اپنا رشتہ آخر تک رکھا بلکہ1970 کے الیکشن میں نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا  اور ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی سے الیکشن میں شکست کھائی اور اسی دور میں بھی پابند سلاسل رہے ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو ایوانوں تک کون چھوڑے گا  جو ایوانوں کو ہلا کر رکھ دے حیدر آباد سازش کیس میں سرکردہ سیاسی رہنماوں کے ساتھ گرفتار ہوئے متواتر ادبی اور سیاسی حبیب جالب عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔

“ظلمت کوضیاء،صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا”

” پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا”

اس نظم کو اسلام آباد پریس کلب میں جوش جذبے سے سنایا تو وہاں سے گھر نہیں میاں والی جیل جانا پڑا۔ اس دور کی بدترین آمریت میں سٹرک بیچ عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے حبیب جالب پہنچے تو کارکنوں اور عوام کا جذبہ دیکھنے کا تھا جمہوریت کو پاوں تلے اوندہ گیا لیکن لاٹھیوں اور گولیوں  کی بوچھاڑ میں حبیب جال بولتے رہے، مارا گیا، پیٹا گیا، گھسیٹا گیا، بندوقوں سے ڈرایا گیا۔۔ گولی کھائی لاٹھی کھائی گرئے سڑک کے بیچ، کبھی گربیاں چاک ہوا اور کبھی ہوا دل خون جسم پہ جو زخموں کے نشان ہیں اپنے تمغے ہیں۔

جالب کی کتاب میں رکنے کا نام تھاہی نہیں۔ اُسے تو زندگی کے اس سفر میں مسلسل سفر کرناتھا۔ بیٹا شدید بیمار کم عمری  میں ہی ٹائیفائیڈ کی وجہ سے انتقال کرگیا۔۔۔۔

سوئم پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ فیڈرل سیکورٹی فورس نے جالب کے گھر کا گھیراو کیا۔ لوگوں کا ہجوم تھا  یہ دیکھ کر حیران رہ گئے جالب کے لیے اتنا  بڑا فورس گھر سے اُٹھا کر لے گئے جالب کی ماں جب ملنے گئیں تویوں مخاطب ہوا۔ بیٹا میں نے ہمیشہ تمہیں جاگتے میں اپنا دود ھ پلایا ہے حوصلہ رکھنا۔ ہمت سے کام لینا۔۔۔۔ یہ وہ ماں تھی جس کے جواں سال

نو اسے کا سوئم بھی پورا نہیں ہوا تھا۔ جالب نے اپنے آنسو ٹپکنے نہیں  دئیے بلکہ جذب کردئیے۔

غم اُٹھانے میں ہے کمال ہمیں

کر گیا فن یہ لازوال ہمیں

حبیب جالب کی زندگی، اُس  کی شاعری، رہن سہن کا طریقہ کار، اُس کی سادگی، اُس کے بے لوس خدمت، اُن کی کھٹن راہیں، اُسکے سمجھوتے، اُس کا اعتبار اُس کے جذبات اُس کا شہر، اس کی مطاقت، اُس کا انتظار اُس کا سرخ پرچم، اُس کا بائیں بازو،اُڑھنا بچھوڑنا۔ امن وامان کی جدوجہد، آمریت کی مخالفت۔ اُسے کسی اور  سے نہیں ملی، یہ سارا حاصل عوام سے تھا۔ اُن سے، اُن کی زندگی سے، اُن کی محرومیوں اُن کی تکلیفوں ہر اُونچے دربار میں  بلندی کے ساتھ کہتا رہا عوام کے جڑوں تک پہنچ گیا۔ جالب نے کبھی بھی یہ نہیں کہا میں خاص لوگوں کے لیے لکھتا ہوں۔ خاص لوگوں کے لیے پڑھتا ہوں۔ وہ تو ہمیشہ عام لوگوں کی طرح عام ہوئے۔ اور ہر زبان پر اپنی زبان رکھ دی اُس کی زبان کو  خریدانہیں جا سکا جالب بک گیا۔ جالب جھک گیا عوامی درباروں میں، سرتان کر کھڑا رہاشاہی درباروں میں، لٹریروں اور جاگیرداروں کے سامنے، سرمایہ داروں اورلوٹ کھسوٹ کے ماروں کے سامنے جھوٹے اور مکاروں کے سامنے عملی طور پر ایک راستے پر مستقبل مزاجی کے ساتھ  چلنا اور زندگی کی اردگرد  کی آرائشوں سے غافل بغیر کسی غرض کے اُن راستوں کا راہی بنا اور چلتا رہا،جو تاریک گلیوں کے فٹ پاتھوں اور فقیروں، کی بستی میں  لے جائے جہاں سے زندگی شروع ہوتی ہے ایسے بازار کی سیر کرنے میں کتنا لطف ہوتا ہے۔ کتنا سرور ملتا ہے۔ جہاں سے راستے بنتے ہیں۔ جہاں سے خیالات سچے اور حقیقی معنوں میں جنم لیتے ہیں۔ ایسے بازاروں کی سیر اور فٹ پاتھوں پر بسر کرنے والا دربدر  رہنے والا انسان کوئی عوامی ہی ہوسکتا ہے جن کی زندگی کا محور عوام ہی رہا ہو۔ اور متواتر ایک ہی مدار میں سفر کرتا رہا ہو۔جالب کے جذبات عوامی، ان کے حالات عوامی، لفظوں میں تھا درد عوامی، ان کے دن اور رات عوامی

” پھر کبھی لوٹ کرنہ آئیں گے                             ہم تیرا شہر چھوڑ جائیں گے۔

حبیب جالب نے نہ صرف عوامی شاعری میں اپنا لوہا منوایا بلکہ وہ فلمی گیت بھی لکھتے رہے۔ حبیب جالب نے لگ بھگ ۰۵ فلمی گیت لکھے  جن میں.  رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے، میر ا ایمان محبت ہے، ظلم رہے اور امن بھی ہو، اس شہر خرابی میں، اے شام غم بتا سحر کتنی دور ہے، آج اس شہر میں کل نئے شہر میں، میرے دل کی انجمن میں، اب اور پریشان دل شاد نہ کر، لو گ دیکھیں نہ  تماشہ  میر ی رسوائی کا، یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا  اور کئی نغمے قابل ذکر ہیں  جنھیں مہدی حسن، ملکہ ترنم نور جہاں، سیلم رضا، احمد رشیدی اور دیگر گلورکاروں نے گایا  ہے۔

بلوچستان جالب کا مسکن رہا ہے۔ حبیب  جالب کا بلوچستان کے ترقی پسند سرکرہ رہنماوں کے ساتھ بلوچستان آنا جانا رہا ہے۔ اُن کا بلوچستان سے لگاؤ اور جدوجہد کسی سے ڈھکی چپھی نہیں ہے۔ جالب آپ تو شہر چھوڑ گئے۔ شال کی سرد ہوائیں آپ کو آج بھی یا د کرتی ہیں۔ اور یا د کرتی رہیں گی اور تمہاری ہی طرح ساری دنیا کی خاک اُڑائیں گے۔ اور ” آنسووں کے دئیے جلائیں گے اور تیری یادوں کے لو لگائیں گے۔ اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔

میرگل خان نصیر۔۔۔۔ کہتے ہیں ”   جالب ہماری شمع انجمن ہیں بلوچستان کے نوجوان ان کے گروید ہ ہیں۔۔۔ میرغوث بخش بزنجو کہتے ہیں  ”  حبیب جالب کا قافلہ جہوریت کا پیادہ  سپاہی ہے وہ مزید کہتے ہیں ہمارا دوست اور کامریڈ حبیب جالب ہمارا خاص مہمان تھا،حبیب جالب سامعین کے بہت بڑے ہجوم کو اپنی مشہور نظموں سے ترنم میں گا کر اپنے خاص انداز میں گرماتا تھا۔۔۔۔۔ عاصمہ جہانگیر (مرحومہ) کہتی ہیں ” حبیب جالب نے  عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں اہم کردار داد کیا۔۔۔۔قصور گردیزی نے ایک موقعے پر کہا  حبیب جالب بھولے بھالے، سیدھے سادے نظرآتے ہیں درحقیقت وہ آہوئے زخم خوردہ کی طرح اپنے گردوپیش پر گہری نظر رکھتے ہیں۔”ممتا ز دانشور احمد سیلم نے جالب کو یوں یاد کیا ہے”  حبیب جالب کی شخصیت، اسکا کردار، اس کی شاعری، بجائے خود پر سوال کو دوٹوک جواب ہے۔۔ قتیل شفائی کہتے ہیں ” وہ اکثر جیل میں رہتے تھے وہ دیوانہ جس کو زمانہ جالب جالب کہتا تھا۔بلوچستان و دیگر ملکی  سرکردہ بائیں بازوکے  لیڈروں کے ہمراہ حبیب جالب بھی حید ر آباد سازش کیس میں زندگی کے کٹھن دن جوانمرادی سے  گزار رہے تھے تو انھیں  “میرگل خان نصیر نے کہا۔

“میرے دل و جان  کے ساتھی تم سیاہ زندان میں ہو،

آ، دل کے تاروں کو ہلا دے، اپنے پُر سوز شعروں سے

جمہوریت  کے دفا ع کند گان کو، بڑی شان والے،

بہت بھاری لوگ آج تمہارے  گرد جمع ہیں

جالب شکر گال زندان کے ایام کو کام میں لا،

تمہارے اشعار ہوائیں ہیں دلوں کے زخموں کے

تم جالب ہو میں نصیر ہوں۔ ہم دونوں چاہ زندان ،                        میں پڑے ہیں آ و  دونوں مل کر شاعری کا سیلاب  بہادیں ”

فارسی شاعر (شہریا ر) نے کیا خوب کہا ہے

اے ساتھی جب تک میں رہوں تم نہیں جان سکتے

میں کون ہون اور ایک دن آپ کو پتہ چلے گا۔

کہ میں نہیں رہا تو آپ مجھے پہچان جاو گے۔

آئیے جالب کے ساتھ  کوئے یار چلتے ہیں       سوئے دار کو راستہ بھی وہیں سے جاتا ہے۔

روشنی اور اندھیرے کے سنگم میں جالب روشنی کا ایک ایسا ستعارہ اور پیغام ہے  جیسے معاشرے کے ہر طالب علم کو پڑھنے، سمجھنے  اور لکھنے کی ضرورت ہے۔

وہی  سماں، وہی شب کے حصار ہیں جالب

سیاستوں کے وہی کاروبار ہیں جالب

تیرے عوام تیر ے جانثار تیرے بعد

بہت اُداس بہت بے قرار ہیں جالب

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *