Home » پوھوزانت »   کچھ یادیں کچھ باتیں ۔۔۔ شبنم گل

  کچھ یادیں کچھ باتیں ۔۔۔ شبنم گل

والد ڈاکٹر تھے۔ ہر تین سال بعد سندھ کا ایک نیا شہر ہوتا۔ ایک دن دل سے دعا کی کہ کاش ابا کا تبادلہ مکلی ہوجائے۔ انٹر کے کے امتحانات ختم ہوتے یہ خوشخبری ملی کہ ہم مکلی جارہے ہیں۔

میری دعا قبول ہوگئی۔ مجھے ٹھٹہ شہر اپنی طرف کھینچتا تھا۔ مکلی کی فضاؤں میں ایک عجیب سا جاہ و جلال تھا۔ اب توسندھ کے متعدد شہروں میں رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سندھ کے اکثر علاقوں میں علم و ادب اورتاریخی نشانیاں و آثار ملتے ہیں۔ یہ بھولی بسری کہانیاں، ماضی کی شاندار روایتوں کی امین ہیں۔ جا بجا مزارات، مندر اور مقبرے اس خطے کے مکینوں کے مزاج، عقیدے اور رجحانات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔متعدد معروف عالم دین ٹھٹہ ہی میں پیدا ہوئے۔۔ اور آج بھی بہت سے بزرگان دین یہاں مدفون ہیں، مثلاً شاہ یقیق، عبد اللہ شاہ اصحاب، شاہ گور گنج، شاہ مراد شاہ شیرازی، محمد ہشام ٹھٹوی، پیر پاتھو، جمیل شاہ داتار، شیخ حالی، حاجی اللہ ڈنو میندھرو، صوفی شاہ عنایت اور شاہ پریوں ستیوں۔

سندھ کے ہر خطے کا اپنا منفرد لب و لہجہ، انداز زندگی، ثقافت اور رسم و رواج ہیں۔ یہ رنگا رنگ تہذیب محبت اور مہمان نوازی کے رنگوں سے سجی ہوئی ہے۔ ٹھٹہ شہرفن و فکر, ہنرو تجارت کی سرزمین ہے۔  ‘تاریخِ طاہری’ کے مصنف میر طاہر محمد تحریر کرتے ہیں کہ: “ٹھٹہ کی بنیاد کسی اچھی ساعت میں پڑی تھی۔ ٹھٹہ شہر میں چار ہزار سے زائد خاندان کپڑے بننے والے ‘کوریوں ‘ کے تھے۔”

کہیں یہ رنگ گہرے تو کہیں مدھم و پراسرار دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر مکلی میں گزرے ہوئے زندگی کے کچھ سال اہمیت کے حامل ہیں۔ قدیم زمانے میں ٹھٹہ دریائے سندھ کے ڈیلٹائی علاقے کے کنارے ایک بندرگاہ ہوا کرتا تھا۔ یہ شہر صدیوں سے فن و فکر کی سرزمین کہلاتا رہا ہے۔ مختلف ادوار میں یہ شہر سندھ کا دارالحکومت بھی تھا۔ یہ تاریخی شہر کراچی سے 98 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ٹھٹہ شہر کے بننے اور اجڑنے کے سفر میں کئی تہذیبوں کا ذکر ملتا ہے۔ اس شہر پر سمہ، سومرا، کلہوڑہ اور ڈاہر جیسے طاقتور حکمرانوں نے حکمرانی کی۔ جن کے دور حکومت میں اس شہر کی علمی، ادبی و فنی سرگرمیاں پروان چڑھتی رہیں۔ لہٰذا یہ خطہ علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق سمہ خاندان نے اس شہر پر طویل عرصے تک حکمرانی کی۔ یہ سمہ خاندان کے حاکم جام نظام الدین عرف نند اتھے جس نے 1475میں ٹھٹہ شہرکی بنیاد ڈالی۔

جب ہم اس شہر سے دور تھے تو یہ بے اختیار اپنی طرف کھینچتا۔ وہاں رہ کے اندازہ ہوا کہ اس کی خاموشی اور پراسراریت میں کس قدر کشش ہے۔ میرے والد اس زمانے میں مکلی ہسپتال میں آر ایم او کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ یہ مکلی کے ماحول کا تعمیری اثر تھا کہ میرا قلم نوعمری سے ہی بے اختیار ان کہی داستانیں قلم بند کرنے لگا۔ خطوں کا ہمارے مزاج پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ فکری ارتقا کا یہ حسین سفر تھا۔

گھر کے قریب ہی مکلی کا وسیع و عریض قبرستان واقع تھا۔ جو نو کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ جہاں دس لاکھ سے زائد قبریں خاموشی کی زبان میں ماضی کی کہانیاں دہراتی رہتیں۔ ان قبروں میں علما، شعرا، شہدا، اہل دانش اور حاکم ابدی نیند سو رہے ہیں۔ جو سمہ، ارغون، سومرہ، کلہوڑہ، ترخان اور مغل خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس دور میں چچا شاہ محمد ایک ایسی شخصیت تھے جو مجھے جہاں کہتی چل پڑتے۔ ان کا تعلق ہندوستان کی ریاست پٹیالہ کے شہر سرہند بسی سے تھا۔ ان کے والد اللہ بخش جج تھے۔ تقسیم پاکستان کے وقت شاہ محمد محاذ پر تھے کہ ان کا خاندان پاکستان جاتے ہوئے راستے میں شہید کردیا گیا۔ کچھ عرصہ لاہور کے مینٹل اسپتال میں زیر علاج رہے۔ ان ہی دنوں میرے والد سے ملاقات ہوئی جو دائمی دوستی میں بدل گئی۔ ان کی مادری زبان پنجابی تھی۔ گھر میں شستہ اردو بولتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا۔ مجھے مکلی کے قبرستان لے جاتے۔ چچا نے زندگی کے ہر قدم پر میری راہنمائی کی۔ کہا کرتے تعصب اور جنگ کے خلاف لکھو۔

زندہ اور متحرک دنیا کی اپنی منفرد توانائی ہے۔ مگر قبرستان کی بھی غیر محسوس توانائی ہوتی ہے اگر اس میں خوبصورت ذہن و محبت سے سرشار دل مدفن ہوں۔ یہ توانائی بار بار آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ شہر خموشاں، مختلف مناظر کے پس منظر میں حسین دکھائی دیتا ہے۔ سورج غروب ہونے کا منظر ہو یا چاندنی راتیں، سردی کی ٹھنڈی دھوپ کا لمس ہو یا خزاں کی خفگی بھری خزائیں یہ شہر اپنی قدامت میں بے مثال ہے۔ یہ آپ کو جینے کی امنگ اور زندگی کی قدر سکھاتا ہے۔ زندگی کی بے ثباتی کا احساس الگ دھرنا مار کے دل و دماغ میں رچ بس جاتا ہے۔

پہلا دور مغلیہ دور حکومت تھا جو سولہویں سے اٹھارویں صدی تک محیط ہے۔ اسی دور میں بنی ہوئی قبریں اور مقبرے ہیں۔ عیسیٰ خان ترخان، جان بابا، جیوان شریف خان، نواب امیر خان، جانی بیگ ترخان، باقی بیگ ازبک اور غازی بیگ ترخان اور ان کے اہل خانہ دفن ہیں۔

شمال کی طرف شاندار مقبرہ دکھائی دیتا ہے جو جام نظام الدین کا ہے۔ جس کا تعلق سمہ دور سے تھا۔ اس مقبرے کا کام اس حکمراں کی زیر نگرانی شروع ہوا مگر ان کی موت کے ایک صدی بعد جا کے مکمل ہوا۔ 1508میں یہ مقبرہ پایہ تکمیل تک پہنچا۔

مکلی کے پہاڑ کے نشیبی علاقے میں ٹھٹہ شہر قائم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مکلی ایک نیک خصلت خاتون کا نام تھا۔ مکلی سے صوفی شاعر سرمد شہید کے عشق کی انوکھی داستان وابستہ ہے۔ اس صوفی شاعر نے ابتدائی زندگی ایران میں بسر کی۔ جس زمانے میں اس نے سندھ کا رخ کیا تو اس وقت مغل حکمران اس خطے پر قابض تھے۔ سرمد کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک یہودی تھا۔ اس نے کافی کتابیں فارسی میں ترجمہ کی تھیں اور ایران کے صوفیاسے فلسفے کا علم بھی حاصل کیا۔ تاجر کی حیثیت سے وہ ہیرے جواہرات اور فن پاروں کا کاروبار کرتا تھا۔ تاریخ نویس ہینری جیارج کے مطابق ”سرمد اس کا شاعرانہ نام تھا جب کہ وہ آرمینیائی تاجر تھا۔ جو شاہجہان کے دور حکومت میں ہندوستان آیا تھا۔ بعد میں اس نے ٹھٹہ سندھ کا رخ کیا اور ایک ہندو لڑکے ابھیچند کے عشق میں مبتلا ہو گیا۔“

ٹھٹہ شہر میں منعقد ہونے والی شاندار محفل موسیقی میں، اس نے ابھیچند کو فن کا مظاہرہ کرتے دیکھا۔ سرمد پہلی نظر میں اس کی محبت کا اسیر ہو گیا۔ اس کے بعد وہ روز اس کا گانا سننے جایا کرتا۔ ابھیچند کی خوبصورت آواز دل سے ہوتی ہوئی اس کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی۔ وہ یہ تک بھول گیا کہ وہ پانی کے جس جہاز سے آیا وہ واپس بھی جا چکا۔ ابھیچند بھی سرمد کی محبت کا اسیر ہو چکا تھا۔

لوگوں نے ان کے متعلق باتیں بنانا شروع کیں۔ اس وقت کے گورنر اور ابھیچند کے والدین نے دونوں کو علیحدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں نے لاہور کا رخ کیا۔ کچھ مورخ یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ ہندوستان میں گزار کے، آخر میں لاہور میں پہنچے تھے۔ سرمد شاعری کرتا اور ابھیچند ان الفاظ کو آواز کا ہنر عطا کرتا۔ اس کی گائیکی پر اثر تھی۔

سرمد کی شاعری مجاز سے عشق حقیقی کی طرف سفر کرتی رہی۔ بے خودی میں وہ کہتا ”کون طالب ہے اور کون مطلوب؟ بت کون ہے اور بت گر کس طرف؟ کعبے کا محبوب کون ہے اور کون ہے مندر کا معبود اور کس نے ہے یہ مسجد بنائی۔ تم رنگین باغ میں آ کر دیکھو کہ تمام رنگ کس قدر متحد ہیں۔ اب بولو کہ کون عاشق ہے اور کون محبوب۔ پھول و کانٹے میں کون بستا ہے؟“

داراشکوہ سے سرمد کی دوستی تھی۔ اس کے زوال کے بعد وہ بہت دل شکستہ ہوا۔ عشق کی کٹھن راہوں پر بھٹکتا وہ ہوش و حواس کھو بیٹھا، اس نے عشق میں دنیا تیاگ دی۔ سماجی زندگی کے روابط توڑ ڈالے۔ عیش و عشرت کی زندگی کو خیرباد کہہ دیا۔ اپنا پیرہن تک چاک کر ڈالا۔ داراشکوہ کے زوال کے وقت وہ دلی میں تھا۔ ایک دن برہنہ، سر میں مٹی ڈالے وہ اورنگزیب کے دربار میں آہ و فغاں کرتا ہوا پہنچا۔ حاکم وقت پہلے ہی اس سے نالاں تھا۔ اسے یہ حرکت ناگوار گزری۔ لہٰذا اسے شہید کر دیا گیا۔ سندھ کا اسیر یہ صوفی شاعر دہلی میں نظام الدین اولیا کے مزار کے قریب مدفون ہے۔سرمد کی شاعری میں گہرے وجد کی لہریں رقصاں ہیں۔ وہ محبوب کو الگ نہیں سمجھتا۔ یہ قربت ایسی ہے جیسے دل سے درد کا رشتہ، آنکھ سے آنسوں یا پھول اور خوشبو۔ آج بھی مکلی کی فضاؤں میں سرمد اور ابھیچند کی محبت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *