Home » پوھوزانت » جدوجہد کا پیکر عبداللہ جان ۔۔۔۔ س ب کھوسہ

جدوجہد کا پیکر عبداللہ جان ۔۔۔۔ س ب کھوسہ

1990کی دہائی میں عبداللہ جان  جمالدینی کے نام سے شناسائی ہوئی۔ اس وقت میں سرکاری ملازم تھا۔ بہت ہی ذہین روشن خیال ترقی پسند نوجوانوں سے یارانہ ہوا۔ جن میں محمد بخش جی سومرو (ادیب) جو کہ میرے کلیگ تھے۔ خدابخش سومرو لوکاٹسٹ۔ منچ اداکار، ادیب) اللہ رکھا لاشاری،غلام حسین لاشاری،رفیع اداکار، دورلیت کار شامل تھے۔ ان دوستوں کی توسط سے کامریڈ برکت آزاد سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔ انہوں نے ہی عبداللہ جان جمالدینی کے نام سے روشناس کرایا۔ اسلم اچکزئی اور عبداللہ جان کا مریڈ برکت آزاد کے پاس آتے رہتے تھے عبداللہ جان سے تعارف یوں ہوا کہ کامریڈ برکت سے دوستی کی وجہ سے عبداللہ جان نے  نائب تحصیلدار کو خیر باد کہہ دیا۔ اور کامریڈ بن گیا۔ پھر 1986میں انجمن ترقی پسند مُصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس کراچی میں منعقد کی گئی۔ میں بطور سیکریٹری سندھی ادبی سنگت جیکب آباد اور یونس مہر (موجودہ چیف ایڈیٹر روزنامہ ہلچل حیدرآباد) ممبرس اس بطور مندوبین شریک ہوئے۔ وہاں کئی مقتدر شخصیات سے ملنے اور دیکھنے کا موقع ملا۔ کامریڈ سوبھو۔ سید سبط حسن محمد ابراہیم جو یو۔ وغیرہ شامل تھے۔ مندوبین کو ایک تھیلا تھما دیا گیا۔ اس میں پروگرام کے علاوہ ایک کتاب گفتگو شامل تھی۔بلوچی ادب پر میر عبداللہ جان کا انٹرویو شامل تھا۔ ان کے نام سے شناسائی تو بہت پرانی تھی۔ انٹرویو پڑھنے کے بعد ان کی شخصیت کا گرویدہ ہوگیا۔ میں نے عبداللہ جان کا انٹرویو سندھی زبان میں ترجمہ کرڈالا۔ ہمارے جیکب آباد کے ایک سیاسی ساتھی اور صحافی امداد علی اڈبو جیکب آباد سے  ہفت روزہ اخبار ”سندہ سبحاگ“ Awalkening of sindhشائع کرتے تھے  مجھے بطور ایڈیٹر اخبار میں کام کرنے کا موقع ملا۔ پھر امداد اڈھو اخبار کو کراچی لے گئے۔ مرحوم  فقیر محمد لاشاری سے مل کر ”سندھ سبحاگ“ میگزین نکالنے لگے۔میں نے عبداللہ جان کے انٹرویو کا ترجمہ بھیج دیا  اس طرح وہ انٹرویو سندھی زبان میں شائع ہوا۔ مجھے کہیں سے عبداللہ جان کا پتہ مل گیا اور میں نے انہیں خط لکھا کہ آپ کا ایک عدد فوٹو اور تعارف درکار ہے۔ گفتگو  کا سندھی ترجمہ سندھی ادبی سنگت کی جانب سے شائع کرانے کا متمنی ہوں۔ میر عبداللہ جان نے فوٹو اور اپنا تعارف بھیج دیا۔ مگر مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے ترجمہ شائع نہیں ہوسکا۔عبداللہ جان کی توسط سے پشتو ادیب طاہر آفریدی اور پنجابی ادیب شفیع عقیل کے ایڈریس بھی ملے۔ اس کے بعد عبداللہ جان سے خط و کتابت کا سلسلہ چل پڑا۔میں نے انہیں بلوچی ادب پر اس کی جانب سے لیکچر دینے کی دعوت دی۔مگر انہوں نے صحت (بلڈپریشر) کا مسئلہ بتا کر معذرت کرلی۔ پھر میں نے بلوچی شاعر مست توکلی پر مضمون لکھنا چاہا اور خط لکھ کر میر عبداللہ جان سے تعاون مانگا تو انہوں نے ایک ادیب کا مست توکلی پر ”ڈان“ اخبار میں چھپا مضمون بھیج دیا۔ اس طرح عبدالہ جان سے محبت اور احترام کا رشتہ قائم ہوا۔ مجھے خط لکھنے نہیں آتے اسی وجہ سے خط وکتابت کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ پھر ایک سندھی کالمسٹ کا کالم پڑھا اور میر عبدالہ جان کی وفات کا پتہ چلا۔ بہت ہی دکھ ہوا  یوں لگا جیسے اپنے ہی خاندان کا فرد بچھڑ گیا ہو۔ کیونکہ میں بھی میر عبداللہ جان کی سیاسی تحریک کمیونسٹ تحریک کا حصہ بن چکا تھا۔

بلوچی ادیب شاعر استاد میر مٹھا خان مری سردیوں کے موسم میں جیکب آباد آتے تھے سندھ کے نامور افسانہ نویس، شاعر ابنِ شاعر فتاح عابد (عبدالکریم گدائی،سندھ کے مزاحمتی شاعر کے فرزند) نے میر مٹھا خان مری سے ملاقات کرائی۔ میر مٹھا خان مری اس کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے تھے۔ انہوں نے عوامی شاعر عبدالکریم گدائی عرف چاچا گدائی کو نذرانہ عقیدت شاعری میں پیش کیا جو کہ آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ میر مٹھا خان مری نے عبداللہ جان کے لیے کہا تھا کہ مجھے عبداللہ جان جیسے شاگرد پر فخر ہے (شاہ محمد مری مضمون ”’میر مٹھا خان مری) طویل جدوجہد۔ شرافت نظریاتی پختگی آدرشوں کو اولیت دینا غیر طبقاتی سماج کی تعمیر لیے لڑنے جیسے عظیم افکار کی وجہ سے عبداللہ جان تاریخ میں ان مٹ نشان چھوڑ گئے؟

میرے ماموں خادم حسین کھوسو مرحوم احمد وال میں پٹواری امینان ہوئے۔ میں اس وقت جمدیہ پرائمری اسکول جیکب آباد سے 5درجہ پاس کر چکا تھا اور چھٹی جماعت میں داخلا لینا تھا۔ ماموں مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ ہم چار افراد میں میری چھوٹی خالہ،ممانی اور ماموں احمد وال میں وارد ہوئے۔ احمد وال میں بھی پرائمری اسکول تھا۔ اس لیے تعلیم مزید جاری رکھنے سے قاصر رہا۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ سپیزنڈ اسٹیشن سے ایک ٹرین تافتان تک چلتی تھی شام کو ٹرین دیکھنا میرے تفریحی پروگرام میں شامل تھا۔ اور پھر اسکول کے لڑکے نوشکی میں فٹ بال کا میچ کھیلنے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ اس طرح عبداللہ جان جمالدینی کے آبائی گاؤں نوشکی سے بھی شناسائی ہوئی۔ یقینا آج کے نوشکی اور اس وقت کے نوشکی میں بڑا فرق ہوگا۔ عبداللہ جان اور ان کے ساتھیوں کی علمی کاوشوں سیاسی جدوجہد سے ترقی پسند فکر پروان چڑہا ہوگا۔ ظلم واستبداد، سرداروں کے ظلم خلاط نفرتیں بڑہی ہونگی، میر گل خان نصیر نے کہا تھا ”راج کرے سردار“ ”بچے رو رو نین گنوائیں۔ بوڑہے در در ٹھوکر کھائیں۔ چھپ چھپ مائیں نیر بائیں۔ بھیک ملے نہ ادھار۔رے بھیا۔ راج کرے سردار“

میر عبداللہ جان نے سرداروں نوابوں کے انسان دشمن رویوں کے خلاف جدوجہد کی۔ عوام کو شعور دیا۔میر غوث بخش بزنجو،میر گل خان نصیر کے ساتھ سیاسی اور ادبی تحریکوں میں کام کیا۔ مگر جب اصولوں کی بات آئی تو عبداللہ جان علیحدہ کھڑے ہوگئے۔ اصولوں پر مفاہمت نہیں کی۔میر بزنجو سے سرداروں کی ششک کی وصولی پر علیحدہ ہوگئے میر گل خان نصیر سے بھی کوئی مفاہمت نہیں کی۔ کیونکہ عبداللہ جان مزاحمتی شخصیت کے مالک تھے۔ عبداللہ جان کی زندگی کا کھاتہ اگر چہ ترتیب دیا جائے تو خوشیاں محرومیاں، کامیابیاں ناکامیابیاں، غربت، خوشحالی جیسے ابواب پڑھنے کو ملیں گے۔ مگر عبداللہ جان ناکامیوں کو کامیابی میں بدلنے کا فن جانتے تھے۔ غربت سے نمٹنے کا گرجانتے تھے۔ اس لیے وہ کبھی بھی مایوس نہیں ہوئے۔ سماج کی بیماریوں کا علاج ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے خود بیماری کا شکا ر ہو گئے۔  دونوں پیر سال محبوب اپنی اپنی بیماری اور بے ہوشی کے ہاتھوں ایک دوسرے کی موت کا غم دیکھے بغیر مر گئے بچوں کے ہرے بھرے گھر کو ویران بنانے اور ویران قبرستان کو بورستان بنانے والے ماں باپ دونوں ایک ہی روز چل بسے عبداللہ جان جمالدینی طویل علالت کے بعد 19ستمبر 2016کو رات سوا  آٹھ بجے فوت ہوگیا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *