Home » پوھوزانت » آل انڈیا بلوچ کانفرنس ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

آل انڈیا بلوچ کانفرنس ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

پارٹی پر سرکاری یورش

۔1۔ یوسف جلاوطن، اور ساتھی گرفتار

 1933کاحیدر آبادجلسہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی  آخری بڑی عوامی سرگرمی تھی۔    اس جلسے سے چار ماہ قبل ستمبر 1933کو اعظم جان کی موت کے بعد اس کا بیٹا میر احمد یار خان قلات کے تخت پر بیٹھ گیا تھا۔ یہ خان بھی اپنے والد کی طرح  یوسف عزیز اور اس کے رفقا کے آدھے پروگرام کا حامی تھا۔ لہٰذا اُس کی بادشاہی کے اولین دنوں میں یوسف کے کام میں کافی آسانیاں پیدا ہوگئیں۔ مگر بہرحال وہ انگریز کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتا تھا۔ اسے بہت سی باتوں کے لیے یوسف کی مدد کی تو ضرورت تھی مگر مقصد نکل جانے کے بعد اسے پھر اس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔

                                                                                                                                                                                                                                             اسی اثنا میں ظفر علی خان نے بلوچستان کے بارے میں اخبارزمیندار میں مضامین لکھنا شروع کیے اور ہندوستان کے سارے لیڈر میر یوسف علی خان کی حمایت میں بیانات دینے لگے۔ برطانوی حکومت اس سیاسی ایکتا سے گھبرا گئی۔

ویسے بھی آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے خلاف چیزیں اس قدر زیادہ اکٹھی ہوگئیں کہ حکومت کے خیال میں ” اب یہ سب نہیں چلے گا“ ہونا تھا۔ اب تو بس قلات اور برطانیہ کے اسٹیبلشمنٹس  نے ”کیا کیا جائے“ سوچنا تھا۔ اور اس کے لیے اب زیادہ وقت نہیں رہ گیاتھا۔

انگریز نے میریوسف علی خان کو خریدنے، ڈرانے، قید کرنے اور لبھانے کی کئی کوششیں کی تھیں۔ مگر جب ہر لالچ ناکام رہا، ہر ترغیب نے منہ کی کھائی، اور ہر تحریص کو شکست ہوئی تو اے جی جی،سرنارمن کیٹر نے اُسے ملاقات کے لیے طلب کیا۔ اس  نے مگسی صاحب  سے جو باتیں کیں وہ اُس وقت کے اے پی اے(اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ) ویکفیلڈ نے اپنی ڈائری میں درج کیں:

”آپ نوجوان ہیں اور آپ نے احباب کے انتخاب میں عقل مندی سے کام نہیں لیا ہے۔ میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ بارہ ماہ کے لیے بلوچستان چھوڑ دیں اور ولایت کے سفر سے اپنی فکر کو وسعت دیں۔ آپ یورپ کیوں نہیں جاتے اور وہاں آکر خود اپنی آنکھوں سے کیوں نہیں دیکھتے کہ یورپ کیسا ہے؟“۔

یوسف علی خان مگسی نے احتجاج کیا۔

”میں اپنا وطن چھوڑنا نہیں چاہتا“۔

”تمہیں ہر حال میں وطن چھوڑنا پڑے گا۔میں تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ تم بلوچستان میں رہو اور مشکلات پیدا کرتے رہو۔ اگر تم عقل مند ہو تو رضا کارانہ طور پر وطن چھوڑ کر باہر چلے جاؤ۔ کسی شخص کو یہ معلوم بھی نہ ہوگا کہ تم نے اس معاملے میں میرے مشورے پر عمل کیا ہے“۔

انگریز نے اسے وطن بدر کرنے کے لیے دوسرے طریقوں سے بھی دباؤ بڑھانا شروع کیا۔اس کے قریب ترین  ساتھی میر عبدالعزیزکرد کو گرفتار کرلیا گیا۔عبدالعزیز کرد جو بلوچستان کا انتہائی ہر دل عزیز اور محبوب قومی کارکن تھا۔ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے پنجاب کے اخبارات میں چند اصلاحی مضامین شائع کر وائے تھے۔  اس نے ایک مضمون میں لکھا کہ بلوچستان میں ایک غیر آئینی حکومت قائم ہے اور سرداروں کا جرگہ انصاف نہیں کرتا۔

اس جرم میں شاہی جرگہ سبی نے اسے تین برس کی قید بامشقت کی سزا سنائی اور اُسے مچھ جیل میں ڈال دیا۔  یہی نہیں بلکہ ایک اور انہونی بھی ہونی تھی۔ پولٹیکل ایجنٹ نے سرداروں کے جرگے کی اس سزا کو بہت کم گردانا۔ اس نے جرگہ کو اشارہ کیا۔ فیصلہ تبدیل اور جیل اب 5برس ہوگئی۔

   اس کی گرفتاری کے بعد 29جنوری 1934  کو مگسی صاحب کے دوسرے فکری و تحریکی ساتھی عبدالصمد خان اچکزئی کو بھی مچھ جیل روانہ کردیا گیا۔اسے  کراچی اور حیدر آباد میں تقاریر کے جرم میں نظ ر بند رکھا گیا تھا۔اُن دونوں جوانوں کے مخلص رفیق،ماسٹر پیر بخش نسیم کو گورنمنٹ سروس سے بلا وجہ ہٹا دیا گیا۔

 بہر حال،میر یوسف علی خان نے اپنے احباب کو انگریز کی دھمکی آمیز مشورے کا ماجرا سنایا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ جیل جانے سے بہتر ہے کہ وہ کچھ عرصہ جلا وطن رہے۔

 مرید حسین نے میر یوسف علی خان کے ”سفرِ انگلستان“ کی غرض وغایت ””علاج“ظاہر کی ہے۔ دیگر لوگوں نے بھی اس طرح کی بات  کی تھی۔ خود میر یوسف عزیز نے بھی اپنے خطوط میں  بیماری کا تذکرہ کرکر کے چیزوں کو اچھا خاصا الجھادیا تھا۔مگر اندر کی سٹوری یہی تھی: جلاوطن ہو جاؤ۔

 چنانچہ27 مارچ       1934 میں اسے وطن سے باہر بھیج دیا گیا۔

۔2۔اخبار، البلوچ بند

  وہاں یوسف عزیز کو ملک بدری کرنی تھی، اور یہاں اُس کی سب سے بڑی اور موثر آواز یعنی ہفت روزہ  ”البلوچ“  بند ہوگیا۔ ”البلوچ“ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا ”اسکرا“ تھا۔اُس کا نعم البدل تو سوچنا تھا۔ اخبار کے بغیر تو تحریک بے معنی ہوجاتی۔بالخصوص ایسے وقت جب عبدالصمد اچکزئی اور عبدالعزیز کرد جیل میں تھے۔دوسری مشکل یہ تھی کہ اب  تو ڈیکلریشن بھی  آسانی سے نہیں مل سکتی تھی۔ بالخصوص سرکار کے لیے کسی ناقابل ِقبول شخص کے نام  پہ تو بالکل نہیں  مل  سکتی تھی۔

   عنقا اور ”البلوچ“ نا پسندیدہ تھے تو ڈیکلریشن کسی نامعلوم یا سرکار کی نظروں میں نہ آئے ہوئے شخص کے نام پہ لی جاسکتی تھی۔ یوسف عزیز  اخبارات کے رول کو اتنی اہمیت دیتا تھا کہ اس نے حتیٰ کہ ایک محب وطن ساتھی اور سکول ٹیچر پیر بخش عرف نسیم تلوی کو کراچی بھجوادیا تاکہ وہ وہاں سے ایک اخبار نکال سکے۔نسیم تلوی بلوچستان سے کراچی آیا۔ یہ فیصلہ ہوا کہ نسیم تلوی کے نام سے اخبار کے ڈیکلریشن کے لیے درخواست دائر کی جائے۔

 یوں ”بلوچستانِ جدید“ جاری ہوا۔ یہ  ہفت روزہ اخبار تھا۔ جہازی سائز والا۔ یکم مارچ1934 کو اس کا پہلا شمارہ نکلا۔ایڈیٹر نسیم تلوی، ڈپٹی ایڈیٹر محمد حسین عنقا۔

اُس ”بلوچستان جدید“ کے جاری کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بلوچستان کے حق میں بلوچستان سے باہر پروپیگنڈا کیا جائے اور ہمسایہ ممالک میں ہمدردفضا پیدا کی جائے۔نیز یہ بھی کہ خود بلوچستان کے اندر لوگوں کو ان کے صحیح حقوق اور مطالبات سے آگاہ کیا جائے اور ان میں سیاسی بیداری پیدا کر کے انہیں ایک مرکز پر جمع کیا جائے۔بلوچستان جدید کے اولین شمارے میں درج تھاکہ یہ اخبار ایک ایسے بلوچستان کا پیا مبر ہوگا جوہندوستان کے دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات سے پورے طور پر بہرہ مند ہوگا اور جس کے باشندے اس کی حکومت میں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ ”بلوچستانِ جدید اُن سوئے ہوئے باشندوں کو جھنجوڑ جھنجوڑکرخواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کرے گا اور انہیں آنے والی زندگی کی دوڑ کے لیے تیار کرے گا۔ اور یوں بلوچستان کو بھی دوسرے صوبجات کے دوش بدوش چلانے کی کوشش کی جائے۔

نظم ”عافیت کو ش احباب سے“ اس کے سرورق کی زینت بنی۔ اس ہفت روزہ کے اولین شمارے کے اداریے میں یوں لکھا تھا:

”دنیائے جدید مذہبی سیاسی اخلاقی تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سے بہت ترقی کر گئی۔ مگر بلوچستان اِن اعتبارات سے نہ صرف پیچھے ہے بلکہ اس قدر گراہوا ہے کہ آج  صفحہِ دنیا کی مہذب آبادی اس کے نام تک سے واقف نہیں۔ بلوچستان کی آج ٹھیک وہی حالت ہے جو قرونِ وسطیٰ میں موجودہ دنیا کی تھی۔ اس کا عجیب و غریب اور دنیا سے نرالا طرزِ حکومت، اس کا دقیانوسی جرگہ سسٹم، اس کے گمراہ کن رسم و رواج، اس کے باشندوں کی مذہبی اخلاقی تعلیمی اور اقتصادی زبوں حالی آثار ِ عقیقہ سے کسی طرح کم نہیں“۔

 ان دنوں جب ہر طرف سے زبان بندی کا تاریک دور اپنے عروج پر تھا تو کراچی سے جب یہ اخبار ”بلوچستان جدید“کا اجراہوا۔ تواس پر مسرت موقع پر شیر علی بنگلزئی نے خیر مقدمی کلمات اپنے ان اشعار میں کیا خوبصورتی سے بیان کئے:

روزِ میمون ساعت ِخوش شدہویدا ہمچو عید

گردشِ افلاک رفت آمد بلوچستان جدید

ہاتفِ غیبی بگوش ہوش آورد این نوید

بربلوچستان رخشاں شد عجب نجمِ سعید

افتتاحِ باب آزادی بشد از حکم رب

آخرش ریحان بدست آمد پس ازمدت مدید

فضل ِ مولا شاملِ حالِ بلوچستان است

شد عجب اخبار ما از چاپلوسی ہا بعید

برگلستانِ بلوچستان نسیمے ؔآمدہ

حالت پژ مردہ مارا بدید وہم شنید

ہمت عنقائےؔ مارا باد صدہا آفرین

کرد ؔحبِ قوم مجبورش محن از کس ندید

اے علیؔ وردِ زبان کن مصرع حافظؔ مدام

ابرآزادی بر آمد باد نوِروزی وزید

اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ سامراج دشمن قومی تحریک کے اوائلی دور میں اُس پردھلی، علی گڑھ، لاہور اور ملتان کا بھی اچھا خاصا اثر رہا۔ مگر کراچی کا شہر اور اس کی اشاعتی سہولیات اُسی زمانے سے بلوچ ادبی و سیاسی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہیں۔

اس  ہفت روزہ کے پہلے شمارے(یکم مارچ   1934) پر مگسی صاحب کا پیغام چھپا ہے:

۔۔۔۔۔”میں اس اقدامِ مستحسنہ پر جہاں آپ دونوں  کو اپنے قلب کے عمق سے نکلا ہوا ہدیہِ تہنیت پیش کرتا ہوں، وہاں اہل بلوچستان سے بھی انسانیت ، قومیت،اور  وطنیت کے مقدس اور عزیز نام پر اپیل کروں گا کہ وہ فراخ دلی سے  اس ننھے قومی حریدہ کا استقبال کرتے ہوئے اس کی قلمی اور درمی امداد کریں۔

 ”میری قلبی آرزو ہے کہ’بلوچستان جدید‘ پھلے پھولے اور حقیقی معنوں میں بلوچستان کے لیے آنے والے عہدِ جدید کا پیامبر ہو“۔

زیر ضمانت آکر28جولائی 1934میں بلوچستان جدید بھی بند ہوگیا۔

۔3۔اخبار، ینگ بلوچستان

   یوسف عزیز مگسی کے اشارہ پر اس کے اخبار نویس ساتھی محمد حسین عنقا نے تیسرا اخبار”ینگ بلوچستان“ 4اکتوبر 1934کو کراچی سے جاری کیا۔ عنقا صاحب نے عیسیٰ نامی ایک بلوچ کے اخبار ”ینگ بلوچستان“ کی خدمات حاصل کیں اور ہفتہ وار کی بجائے اُسے سہ روزہ کیا۔ اس نئے اخبار کے شمارہ اوّل کے لیے یوسف عزیز نے لندن سے دس صفحات پر مشتمل ایک یاد گار مضمون ارسال کیا:

   ”جلسے جلوس، جماعت بندی، اخبار نویسی یہ سب جمہوریت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ فرنگی استبداد کا یہ حال ہے کہ ہمارے رفقا کو قید وبند میں ڈال دیا گیا ہے اور ہمارے ہمدردوں کو بے روزگار کیا گیاہے۔ دربارسبی سے خطاب کیا جاتا ہے کہ چند شورش پسند اٹھے ہیں جو بلوچستان کی پُر امن فضا کو مکدر اور اُس کے سکون کو درہم برہم کرناچاہتے ہیں۔ آؤ ہم مل کر ان کا استقبال کریں“ (1)

میرے پاس اس اخبار کا آخری شمارہ 24نومبر1934کا ہے۔

۔-4  نجات

 میرے پاس سہ روزہ”نجات کراچی کے 12دسمبر1934کا شمارہ موجود ہے۔ بطور (جلد نمبر1شمارہ نمبر1)۔اس میں صفحہ نمبر11میں ایک سرخی ہے: ینگ بلوچستان کی بجائے سہ روزہ نجات۔ اس میں درج ہے کہ ”۔۔۔ ینگ بلوچستان اور نجات کو دو جدا گانہ چیزیں تصورنہ کریں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ینگ بلوچستان  کو نجات میں مدغم کردیا گیا ہے۔۔  جن حضرات نے ینگ بلوچستان کا چندہ ادا کیا ہے، وہ ”نجات“ کے باقاعدہ خریدار تصور ہوں گے۔

  حکومت بلوچستان تشدد پر اُتر آئی تھی۔ جو اخبار خرید تا تھا، اس پر قیامت بپاکی جاتی تھی اس لیے خریداروں کی جانب سے اخبار کی آمدنی سُست پڑ گئی تھی۔

                میرے پاس اس اخبار کا آخری شمارہ 25مئی 1935کا ہے۔

*****

میر یوسف عزیز مگسی ہر وقت ایسے اخبارات کی سرپرستی کرتا رہا جو سیاست کی بالادستی اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے لکھنے کی پالیسی رکھتے تھے۔”البلوچ“،”ترجمانِ بلوچ“ اور ”اتحادِ بلوچاں“ ایسے ہی اخبار تھے۔ ان سب اخبارات کے اخراجات مگسی صاحب ادا کرتا تھا۔

بہت عرصہ بعد، خان عبدالصمد خان اچکزئی اُس کے اس عمل کو یوں بیان کرتا ہے: ”میرے میٹھے ساتھی نوابزادہ یوسف علی خان مگسی بہت دولت مند تھے اور بہت بڑے دل کے مالک بھی۔ پارٹی اور قومی کاموں پر بہت زیادہ اور عموماً بد خرچی کی حد تک خرچ کرتے تھے۔ پنجاب کے زمینداراور انقلاب نامی اخباروں پر بہت خرچ کرتے تھے۔ ان اخباروں پر انہوں نے تقریباً 25ہزار روپے خرچ کیے ہوں گے ] اُس زمانے کے 25ہزار!! مصنف[۔ پھر مولانا عبدالباقی اورباری کی سربراہی میں ایک الگ اخبار ”آزاد“ لاہور سے بڑے پیمانے پر نکالا اور اس  پر بہت زیادہ پیسہ لگایا۔  ظاہر ہے یہ اخبار بے انداز فضول خرچی کی وجہ سے نہیں چلا اور چند مہینوں میں بند ہو گیا“۔((2

حوالہ جات

۔   1۔ عنایت۔۔ مقتدرہ۔۔۔۔506

۔ 2۔خان۔ عبدالصمد۔ زما ژوند………… جلد نمبر 2 صفحہ 417

۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *