Home » شیرانی رلی » فکرِ علیل ۔۔۔ عبدالرحمن غور

فکرِ علیل ۔۔۔ عبدالرحمن غور

(والدِ مرحوم کے مزار پر)

 

دُورآبادیِ گُنجاں کے چراغ

جگمگاتے ہوئے تاروں کی طرح

ہر جھلک میں وہ تصّور کے نقوش

ترے مبہم سے اِشاروں کی طرح

یوں تصّور میں آتے ہیں نظر

جیسے رنگین مناظر کی بہار

اِک طرف ذوقِ نظر کا یہ سماں

اِک طرف تیرا شکستہ سا مزار

جی میں آتا ہے لپٹ کر اس سے

آج کچھ دیر میں روتا ہی رہوں

روتے روتے جو میں سوجاؤں یہیں

اس طرح سوؤں کہ سوتا ہی رہوں

ترے ماضی کے یہ دھندلے سے نقوش

مری دنیا کے تصور کے لیے

کھینچ لے کھینچ لے تصویرِخیال

اور کچھ بھی ہے مصور کے لیے

گردشِ دہر سے آزاد ہے تُو

تجھ کو معلوم نہیں آج یہاں

خون اپنا تو بہاتے ہیں غریب

اور امیروں کا ہے اب راج یہاں

ظلم خود اِن کو مٹائے گا کبھی

وقت ایسا بھی تو آئے گا کبھی

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *