Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ اسامہ امیر

غزل ۔۔۔ اسامہ امیر

شاعر سے پوچھ جا کے جمالِ کمالِ دوست

وہ ہی بتا سکے گا تجھے حسبِ حالِ دوست

 

پایانِ عمر میں بھی نہ خواہش وصال کی

اندوختہ نہیں ہے فراقِ جمالِ دوست

 

یہ اور بات ہے کہ ملے بھی نہ بے دھڑک

یہ اور بات ہے کہ گلے سے لگالے دوست

 

اک لمحہ بے دریغ سا آیا تھا میرے پاس

بعد از مجھے مزید ہوا ہے ملالِ دوست

 

گزرے ہیں بیس سال کم و بیش اس طرح

مجھ کو ملالِ دوست رہا یا خیالِ دوست

 

کیا قدر ہے شراب کی، مجھ تشنہ لب سے پوچھ

میں بڑھ کے تھام لوں جونہی ساغر اچھالے دوست

 

کس طرح گفت گو کروں اس پیچ و خم کی میں

وہ آپ ہی مثال ہے کیا ہو مثالِ دوست

 

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *