Home » قصہ » غیرت ۔۔۔ عابد لغاری / عبدالسلام کھوسہ

غیرت ۔۔۔ عابد لغاری / عبدالسلام کھوسہ

                ”کمینی تم مجھے جواب دے رہی ہو کہ تم کام پر نہیں جاؤ گی!تم کون ہوتی ہو جواب دینے والی“۔ بلو آنکھیں دکھاتے ہوئے اور ہاتھ اٹھاتے ہوئے میری طرف بڑھا۔

                ”کیوں باولے ہوئے ہو۔ کچھ ہوش سنبھالو۔ غیرت بھی ہے تم میں یا نہیں؟“۔ میں نے گھورتے ہوئے کہا۔

                ”آخر مرد ہو مرد، معذور اور محتاج تو نہیں ہو۔ سارادن لولوؤں اور لنگڑوں کی طرح گھر میں پڑے ہوئے ہو۔ اپنا حالت تو دیکھو! کون کہے گا کہ تم بھی“؟

                ”بند کرو اپنی زبان مردار: ایسا نہ ہوکہ یہاں ہی تمہارے بال نوچ کے تمہیں تمہارے باپ کے گھر بھیج دوں۔ تم مجھے طعنے دے رہی ہو؟۔ بے حیا بے شرم!“۔

                ”میں کہہ رہا ہوں کہ تم کو وڈیرے کے ڈیرے پر جاکر کام کرنا پڑے گا۔ میں کام نہیں کروں گا۔ مجھے لاچار ی بھی کیا ہے۔بچے بھی تمہارے ہیں۔بے شک بھوک سے مریں“۔

                 بلو پھر بھی اکڑ کر آنکھوں ں میں انگلیاں لگاتا کہتا رہا۔ ”وڈیرہ تو باپ ہے۔تم کو اس کے گھر جانے میں کیا عار!۔خامخواہ لوگ ہنساؤ گے۔ خاموشی سے کچھ گزر بسر کا سوچ۔بھلا آئے گا کہاں سے اور کھائیں گے کہاں سے“؟۔

                ”بتایا تو ہے کہ تمہارا باپ آنکھیں ڈالے بیٹھا ہے۔تم کو کھول کے بتاتی ہوں کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ کچھ غیرت بھی ہے تم میں یا سب کچھ نشے میں ضائع کر کے آئے؟“۔

                ”چخ چخ مت کرو۔ میں سب سمجھ گیا ہوں۔کم ذات تم کام نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈھ رہی ہو۔ تمہارا جسم پلنگ اور بستر چاہتا ہے۔ لیکن کان کھول کر سن لو۔تم کسی امیر کے گھر میں نہیں بلکہ مسکین کے گھر میں ہو۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاتھ چلاؤ گی تو پیٹ کا گزر بسر ہوگا۔ نہیں تو ایسے ہی مٹی پاؤگی۔ کوئی پوچھے گا بھی نہیں“۔

                ”مٹی تو تم پارہے ہو موئے“۔ میں نے منہ سجھاتے ہوئے کہا۔”خامخواہ مجھے دوسروں کے دروازوں پر دھکے دلواؤ گے۔ اگر اتنا ہی تمہارا جسم ہلکا تھا اور لاڈلے تھے تو شادی کیوں کی۔ تم کو تو بھنگ خوروں اور چرسیوں سے چھٹکارا ہی نہیں ملے گا۔ موالیوں کی محبت اتنی ہی میٹھی تھی تو مجھ سے رشتہ نہ کرتے۔ مجھ کو اس جنجال میں نہ ڈالتے“۔

آخر تمہیں کام کرتے ہوئے بخار کیوں پکڑتا ہے؟“۔

”اپنی غیرت کو اپنے ہاتھوں سے نیلام کر رہے ہو“۔

                ”تم ایسے خاموش نہیں ہوگی“اور بلو نے جوتا اٹھا تے ہوئے کہا۔”میں کہتا ہوں ایسی بے ہودہ باتیں میرے سامنے مت کر“۔ وہ میری گردن پر جوتے مارتے ہوئے کہتا رہا۔ ”کون کہے گا کہ تم کوئی بیوی ہو۔ تم تو ڈائن ہو ڈائن۔ آج تمام کسر پوری کردوں گا“۔ میرے چیخنے اور جوتوں کی آوازوں پر وہ بھی کہتا رہا۔”دیکھتا ہوں آج تمہیں مجھ سے کون چھڑاتا ہے تمہاری روز روز کی کِل کِل آج ختم کرنی ہے۔ دیکھتا ہوں کیسے تم وڈیرے کے گھر نہیں جاتی ہو!“۔

                ”وہ مجھ پر ہاتھ ڈالتا ہے“میں نے اصل بات کھولتے ہوئے کہا۔

                ”جھوٹ بول رہی ہو بہانے باز۔ سر میں مٹی ڈال رہی ہو“۔

                ”وہ کھینچ کر سینے سے لگاتا ہے اور۔۔۔۔“میں نے حقیقت بیان کی۔

     ”اور۔۔ کی بیٹی تمہیں کھا تو نہیں جائے گا؟“۔

                ”اس کی کھینچا تانی کے نشانات اب تک موجود ہیں۔ اندھے تو نہیں ہو۔ دیکھتے نہیں ہو؟

                ”تمہارا دماغ خراب ہے عورت۔ وڈیرے پر بہتان لگا رہی ہو۔ آج تیرے سارے چکر نکال دوں گا۔ تونے سمجھا کیا ہے؟“۔

                ”بیماریوں کے مارے ہوئے۔ اے اللہ سائیں۔ سمجھتے کیوں نہیں ہو وہ جھنجھوڑ  کر کمزور کر دیتا ہے۔۔۔کپڑے بھی پھٹ جاتے ہیں۔ تم خود نہیں دیکھتے ہو۔اماں اے۔۔۔میں تو اس کے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح ناچتی ہوں۔ پر تمہیں کیا پرواہ“۔

                 میں نے بہت غیرت دلایا۔ پر وہ ہڈ حرام جب مار مار کر تھگ گیا۔ تب بڑ بڑ کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا کہ”مجھ سے کام نہیں ہوگا چاہے کچھ بھی ہوجائے“۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *