Home » قصہ » شاخ تمنا ۔۔۔ افضل مرادؔ

شاخ تمنا ۔۔۔ افضل مرادؔ

آپ ذرا رکیں تو سہی، ذرا میری طرف توجہ تو دیں۔مجھے تھوڑی سی توجہ تھوڑا سا وقت چاہیے آ پ کا ……میں آج شاخ تمنا کی الجھی گتھی سلجھانے نیناکی کہانی آپ تک پہنچانے آیا ہوں ……!!!۔

حُسن کی طلب ہماری فطرت ہے۔جبلت یا کوئی تسکین کی خواہش …… مجھ پر ابھی تک نہیں کھلا یہ طلب کی راہ ہمیں بٹھانے اور الجھانے کا سبب تو نہیں! شاید اسی لئے حسن کے جلوے اور طلب کے راستے ایک دوسرے سے فاصلوں میں پناہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں طلب جب تشنگی بنتی ہے توفن نکھرتا ہے ……!!!

 فطرت،جبلت یا خواہش کی پاتال سے نکلی ہوئی کوئی طلب کہی جا سکتی ہے۔لیکن میں نتیجہ نہیں نکال رہا میں صرف چند سوال سامنے لا رہا ہوں۔ آگے چل کر میں ایک بے حد خوبصورت مگر غریب گھرانے کی ایک لڑکی کی کہانی سامنے لانے جارہا ہوں۔اسے نتیجے کے لئے نہیں بلکہ آپ کے گمان کو یقین کی حد تک لانے کے لئے میں نے ماں کا لہجہ اختیار کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں خدا کے بعد ماں اعتبار کی علامت ہوتی ہے۔اب آئیں ناہید کے کردار کو فوکس کرتے ہیں۔

 ”ناہیدنہ صرف گھر کی لاڈلی تھی بلکہ اپنی پر کشش آنکھوں اور خوبصورت باتوں کی وجہ سے ارد گرد میں سب کی آنکھوں کا تارا تھی۔ وہ ہمارے گھر کا سہارا تھی۔

 وہ مجھے اوراپنے بابا کو حج کرانے کا وعدہ کر چکی لیکن ……!!“

 نینو کی ماں لرزتے لبوں پر پھیلنے والی جھاگ کو اپنی پھٹی ہوئی چادر کے کونے سے بار بار صاف کرتے ہوئے بے خواب ہوتی سرخی مائل آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ تھانے میں بیٹھی پولیس کو اپنا بیان دے رہی تھی …… حوالدار نے اس کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں پوچھا ”اتنی خوبصورت بیٹی تمہاری ہی ہوسکتی ہے……؟“ نین کی ماں کا ہاتھ اس کی چپل کی طرف بڑھا تو حوالدار زرا دور جا کھڑا ہوا …… اماں نے بے ساختہ کہا تو کیا تیری ماں نے جناتھا اسے ………… بولتا کیوں نہیں بکواس کر ……”بول بول کیا تیری بہن تھی ……!!بول نا ……“

  ”خوبصورتی اللہ کی نعمت ہوگی تیرے لئے ہوگی……! میرے لئے میرے خاندان کے لئے …… میری بیٹی تو ایک ذلت کا نشان بنی ہے۔ …… میراتو گھر تباہ کر دیا بیٹی کی خوبصورتی نے …… میں دعا کرتی ہوں کسی کو مولا کریم خوبصورت بیٹی نہ دے …… اور اگر دے بھی تو میری نینا کی طرح کا نصیب نہ دے ……“

 بوڑھی خاتون تھانے میں دھرنے دیئے ہر آنے جانے والے سے کچھ نہ کچھ کہتی جاتی۔ کچھ لوگ اس پر ترس کھاتے کچھ حیرت کا اظہار کرتے اور اکثر لوگ بڑھیا کو پاگل سمجھ کر مسکراتے ہوئے آگے نکل جاتے …… تھانے کا عملہ تنگ آ چکا تھا۔وہ اس کوشش میں تھے کہ بڑھیا اپنی رپورٹ درج کرائے اور یہاں سے دفع ہوجائے۔

                وقت کا پہیہ قدرے پیچھے کی طرف لے جاتے ہیں۔

                ناہید بچپن سے ہی شوخ شنگ تھی۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتی تھی۔کھیلنے میں اُسے چھپن چھپائی سب سے اچھا لگتا تھا۔وہ اپنی سہیلیوں اور دوستوں کو حیران کرنے میں خوشی محسوس کرتی تھی…… اسے جیسے حیرت میں ڈالنے اور حیرت سے نکالنے پر عجیب خوشی کا احساس ہوتا تھا۔غریب با پ کی بیٹی کی امیروں کی طرح کے چونچلے دیکھ کر اُس کا ابا بہت پریشان ہوتا۔اماں اکثر اسے دو چار تھپڑ رسید کرتی او رسمجھاتی ”بیٹی ہم غریب لوگ …… مجبور محتاج لوگ ہیں۔ ہمیں اتنی بلند آواز میں بات کرنا…… اتنی دلیری دکھانا…… اچھی بات نہیں ہے …… ہمارے علاقے کے بڑے اور معتبر لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہم اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رہے ہیں اُن کی برابری کر رہے ہیں شاید۔“

 ناہید ماں کی بات پر تڑپ اٹھتی اور کہتی ’’مجھے کسی کی پرواہ نہیں …… اماں میں بتا رہی ہوں مجھے کسی نے کچھ کہا یا میرا راستہ روکا تو میں پتھر اٹھا کر مار دوں گی …… سر پھوڑ دوں گی۔ہاں مجھے اتنی نصیحتیں نہ کر …… بس میں جیسی ہوں ویسی رہوں گی ۔“

                ناہید کے اماں ابا اُس کی خوبصورتی اور دلیری دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے اندر اندر خوف زدہ تھے۔ناہید نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ کپڑوں کے ڈیزائن والے ادارے میں چلی گئی۔وہ اپنے لئے اچھے اچھے ڈیزائن والے کپڑے بنواتی اور فلمی اداکاروں کے انداز میں سب کا دل بہلا تی رہتی۔ اُس کے بہن بھائی اس کی بے باکی پر جھگڑ تے۔ اُس کا ایک بھائی تو اس کی حرکتوں کی وجہ سے گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ناہید اب گاؤں سے شہر تک اور شہروں سے گاؤں تک اپنی شہرت کی وجہ سے تذکروں میں آرہی تھی۔کچھ لوگ طنز کرتے کچھ لوگ مذاق اڑاتے اور کچھ لوگ اُسے دیکھنے کی تمنا لئے ہوتے …… اب ناہید نے اپنے گھر کے لئے خود کمانا شروع کر دیا۔ تھوڑی بہت زمینیں بیچ کر اُس نے کپڑوں کی ڈیزائننگ، بوتیک اور ماڈلنگ کے ذریعے اپنی آمدنی میں خاصا اضافہ کیا۔لیکن دوسری طرف اُس کی خوبصورتی اور کشش نے اس کے مخالفین کی تعداد بھی بڑھا دی تھیں۔ ناہید ان سب سے لا پرواہ اپنی قسطوں پر لئے ہوئے گاڑی میں شہر کی طرف نکل رہی تھی کہ اسے نا معلوم افراد نے جانے کہا ں پہنچا دیا۔

                اب حال کی صورت دیکھیں ……

 حوالدار نے دور پڑے مٹکے سے سپاہی سے پانی مانگے بنا خود جاکر پانی پیا …… اور فاصلے پر کھڑا رہا۔ایس ایچ او کے کمرے میں رکھے ٹیلی ویژن پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی ……“ خوبرو دو شیزہ کے قتل کا معاملہ الجھنے لگا۔پولیس، انٹیلیجنس ادارے کا رروائی کر رہے ہیں۔ نئے انکشافات کی توقع ہے، قتل میں کہیں اہم شخصیات کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ نین کی ماں بے زاری کے ساتھ بیٹھی پولیس کی پھرتیاں دیکھ کر اٹھتی ہے اور تقریباً چیختے ہوئے کہتی ہے …… ”ارے بد بختو میری نیناں مری نہیں ہے وہ ماری گئی ہے تم لوگ اپنی اپنی نوکریاں پکی کر رہی ہو میری بیٹی کے قاتلوں کو تلاش کرنے کی بجائے تم لوگ اپنی فوٹویں بنواتے پھر رہے ہوں …… بد بختو میں جارہی ہو ں ……“

                 تھانے میں جیسے ایک شور سا اٹھا۔ایس ایچ او نے اماں کے سامنے ہاتھ باندھے ا اور تفتیشی کو بیان لکھنے کا حکم دیا۔اماں نحیف و نزار جسم کا بوجھ سہا رنہ سکی اور بینچ پر بیٹھ گئی سر پر چادر اوڑھتے ہوئے گویا ہوئی ……

”نین میری اور اپنے بیمار باپ کی پونجی تھی۔ وہ ہمارے لئے سجتی بنتی تھی۔ وہ ہمیں بھوکا مرنے کے خوف میں محنت مزدوری کرتی تھی ناچتی گاتی تھی، ادائیں دکھاتی بھائیوں کی بے روزگاری کا علاج کرتی تھی۔ تفتیشی افسر نے اسے روکتے ہوئے کہا …… ”ماں آپ داستان سنانا چھوڑیں یہ بتائیں نیناں کو کس نے مارا آ پ کو کس پر شک ہے ……؟“ اماں نے گلو گیر لہجے میں کہا …… شک نہیں مجھے پورا یقین ہے۔میں اس کے قاتلوں کو جانتی ہوں …… تفتیشی نے قلم کان سے اتارتے ہوئے بے چینی سے کہا …… جلدی بتائیں اپنا بیان لکھوائیں ہم کوشش کریں گے کہ قاتلوں تک پہنچ جائیں تجھے انصاف ملے۔

اماں دھیمے لہجے میں روتے ہوئے بول اٹھی …… نین پہلی بار بالغ ہوتے ہوتے قتل ہوئی تھی۔ جب ایک پنوں نے اس کا دل توڑا تھا اس کے ساتھ دغا کیا تھا دوسری بار وہ بس کے پہیوں تلے کچل کر ماری گئی تھی ……!!۔

  لیکن وہ موت کو شکست دیتے ہوےء زندگی کو پیار کرنے لگی تھی وہ ہمیں بھی زندہ رکھنا چاہتی تھی وہ ماڈل بنی تو باپ بھائیوں نے سزا دی وہ دوسرے ملکوں میں اپنی خوبصورتی کا ہنر لے کراپنے نالائق اور بے روزگار ہڈ حرام بھائیوں کی خدمت کرنے لگی تھی باپ کو پیسے بجھوانے لگی۔ مگر وہ ادھر بھی اپنوں کی وجہ سے مارے جانے لگی اورجان بچا کر گھر آگئی مگر ……!!!

                قاتلوں نے اس کا پیچھانہیں چھوڑا ان سب نے ایک دل بہلانے والی چیز سمجھا اس کی خوبصورتی اور دل کشی کو اپنی شیطانی خواہشوں کے ساتھ کچلنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے بار بار قتل کرتے رہے مگر کہیں کوئی ایف آئی آر نہیں کٹی ……“ یہ تیرے بڑے بڑے عالم، سیاستدان اور مہربان اس کو دل و جان پیش کرتے مگر عزت دینے کو کوئی تیار نہیں تھا ……!!اماں ذرا دیر کو جیسے بولتے بولتے تھک گئی۔چپ ہوگئیں تفتیشی نے صاحب کی طرف بے زاری کے ساتھ دیکھا۔ صاحب نے میڈیا والوں کی طرف اشارہ کیا …… اماں اب تو قاتل آپ کے سامنے ہیں آپ کس کا نام لیں ہم اسے پھانسی چڑھالیں گے ……!!

                ”اتنے سارے قاتل ہیں کس کس کو پھانسی چڑھاؤ گے کس کس کو سزا دو گے تم بھی تو ان کے ساتھی ہو ان کو بچاتے پھرتے ہو“…… اماں آہ بھرتے ہوئے ……!!

                ”میری ننھی سی شاخ تمنا کھلنے سے پہلے مر جھا گئی“

                 ایس ایچ او نے پہلی بار غصے میں آتے ہوئے کہا …… آپ کا دماغ کام نہیں کر رہا۔ لگتا ہے آپ پاگل ہوگئیں ہیں۔ آپ ہمیں یہ بتائیں آپ کی نین کو کس نے ……؟ میرا مطلب ہے ……!!۔

                 اماں نے بمشکل اٹھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولیں۔

                ”لکھو …… اور اپنی کارروائی پوری کرو میری نینو کا پہلا قاتل اس کی معصومیت تھی۔ دوسرا قاتل اس کی اپنے گھر ماں باپ اور بھائیوں سے محبت تھی۔ تیسرا قاتل اس کی سچائی تھی۔اور اور آخری قاتل جسے اپ کا قانون ضرور سزا دے وہ اس کی خوبصوتی تھی اس کی دلکشی تھی …… اس کا عورت ہونا تھا  …… صاحب عورت ہونا ……!!!۔

                                                                آپ نہیں جانتے عورت ہونا کیا ہوتا ہے ……!!۔

ماں نے تھانے سے نکلتے ہوئے سر سے چادر اتار کردعا کے لئے ہاتھ اٹھائے  …… ”خدا کرے کہ کسی کے بیٹے نا لائق نہ ہوں …… کسی کا باپ معذور ی کی زندگی نہ گزار رہا ہوں …… اور …… اور کسی کی بیٹیاں خوبصورت نہ ہوں ……!!!“۔

 

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *