اس دل کی وحشتوں کا زمانہ تمام شد
اے یاد یار ! تیرا فسانہ تمام شد
درپیش اب مجھے ہے مری ذات کا سفر
اپنا ہو یا ہو کوئی بیگانہ تمام شد
اشکوں کا سیل خواب ہی سارے بہا گیا
آنکھوں میں حسرتوں کا ٹھکانہ تمام شد
میرے ہیں کام سارے ادھورے پڑے ہوئے
اب دوستوں کا بوجھ اٹھانا تمام شد
سیماب ! چپ لگی ہے کہو کیا ہوا تمہیں؟
موقوف ہے دلیل ، بہانہ تمام شد