Home » پوھوزانت » امین کھوسہ ۔۔۔ شاہ محمد مری

امین کھوسہ ۔۔۔ شاہ محمد مری

محمد امین بلوچوں کے کھوسہ قبیلے سے تھا۔ جیکب آباد کا رہنے والا کھوسہ۔ جیکب آباد کے اِسی کھوسہ قبیلے کے لوگوں نے 1857 والی جنگِ آزادی میں انگریز کے خلافحصہ لیا تھا۔اِن کے ایک سرکردہ شخص دل مراد کو اُس کے دو ساتھیوں دریا خان جکھرانی اور سید عنایت علی شاہ کے ساتھ گرفتار کرلیاگیا۔اُس کے ساتھیوں کو تو عدن جلا وطن کیا گیا اور خود اُسے عمر قید دے کر کالا پانی(جزیرہ انڈیمان) بھیج دیا تھا اور وہیں اس کا انتقال ہو اتھا۔ نام نہاد ’’مہذب ‘‘ انگریز نے اس کی لاش تک واپس نہ آنے دی۔
دلمراد خان کے بھائی شاہل خان کو بھی گرفتار کر کے مچ جیل میں پھینک دیا گیا جہاں اُسے شیشہ پیسنے پر لگا دیا گیا ۔ یوں وہ اندھا ہوگیا اور اسے ایک نابینا شخص کے بطور رہا کردیا گیا۔
دلمراد اور دریا خان کی وسیع اراضی کو ضبط کیا گیا ۔ سردار کا ٹائٹل بھی لے لیا گیا۔ دلمراد خان کھوسو کا اکلوتا بیٹا بہادر خان تھا جو چالی قبیلے کی ماں سے تھا۔ ماں اسے جنرل جیکب کے دربار لے گئی اور بہت بہادری سے اس سے کہا ’’میں تو عورت ہوں‘میرا دیورنا بینا ہے ۔ میں اس بچے کی کفالت نہیں کرسکتی۔ اس لیے درخواست کرتی ہوں کہ اس بچے کو گرفتار کر لیں اور اُس کے باپ کے ساتھ رکھیں‘‘۔ جان جیکب اس قبائلی عورت کی ان بے باک باتوں سے متاثر ہوا۔اور ٹھل تعلقہ میں دلمراد واہ کے قریب ایک قطعہِ زمین خاندان کو دینے کا حکم دیا۔ (1)
امین، کھوسہ قبیلے کی ذیلی شاخ جامانی سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ 11دسمبر 1913کو گوٹھ میر حیات خان تحصیل ٹھل ضلع جیکب آباد میں پیدا ہوا۔ والد کا نام حاجی عبدالعزیز تھا۔لفظ ’’حاجی ‘‘ ہی سے ظاہر ہے کہ اس کا گھرانہ کھا تا پیتا، امیر، اور پیسے والاتھا ۔ اس کے پڑدادا کا نام ولی محمد خان تھا۔ جو اپنے علاقے کا سخی مرد تھا۔ اس کے اِس پڑداداکے دو بیٹے تھے : میر حیات خان، محمد امین خان ۔ محمد امین خان پولیس میں بھرتی ہو کر سب انسپکٹر کے عہدے تک پہنچا۔ ایمانداری سے رہا ۔یہ امین ، ہمارے ممدوح امین کا دادا تھا جس کے ہاں میاں عبدالعزیز نام کا بیٹا پیدا ہوا تھا۔
عبدالعزیز نے زمین سنبھالنے کا کام کیا ۔ کفایت شعاری اور محنت سے آسودہ حال ہوا ۔ اس نے اپنے چچا میر حیات خان کی بیٹی سے شادی کی۔ جس سے اُسے دوبیٹے محمد امین اور نظام الدین پیدا ہوئے ۔
محمد امین نے ابتدائی تعلیم گوٹھ کریم بخش خان کھوسہ تحصیل ٹھل میں لی ۔پھرآدم پور تحصیل نصیر آباد میں ماسٹر عبدالرسول کھوسہ کے پاس پڑھنے بیٹھا۔ اوروہاں سے پانچ جماعتیں پاس کر کے جیکب آباد ہائی سکول میں پڑھنے لگا۔وہاں اُسے مسٹر غلام قادر خان وکیل اور مسٹر شیوار ام بھاگچند جیسے لائق استادوں کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ۔ اس نے 1928میں جیکب آباد ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ (2)
اُس زمانے میں سب سے بڑا تعلیمی ادارہ علیگڑھ تصور کیا جاتا تھا ۔ چنانچہ حاجی عبدالعزیز نے اپنے لختِ جگر کو اعلیٰ تعلیم کے لئے 1929میں وہاں بھجوایا۔جہاں اُسے نہ صرف اچھی تعلیم ملی بلکہ سامراج دشمنی اور وطن کی آزادی جیسے نظریات بھی میسر آئے ۔ انہی نظریات کی بدولت وہ اِس طرز کی سیاست کے دیگر کارکنوں اور راہنماؤں سے واقف ہوا۔اور انہی نظریات نے اُسے مستقبل قریب اور مستقبل بعید کے بے شمار دوست ، کامریڈ اور روحانی بیٹے بیٹیاں عطا کیں۔
علی گڑھ کے ایام کا ذکر کرتے ہوئے سبط حسن نے لکھا ’’امین کھوسو مرحوم بڑے مجلسی آدمی تھے ۔ وہ شام کے وقت ہوسٹل کے صحن میں مجمع لگا کر بیٹھتے ، چائے کا دور چلتا اور خوب گپیں لگتیں۔ کبھی کبھار ہم لوگ بھی وہاں جا بیٹھتے اور تب سوشلزم ، کمیونزم پر بحث شروع ہوجاتی۔ اختر (حسین رائے پوری) کو فقرے چست کرنا خوب آتا ہے چنانچہ بحث کے دوران وہ کوئی ایسا فقرہ بول دیتے کہ کھوسو تلملا اٹھتے ۔۔ وہ شکار پورسندھ کے رئیس زادے تھے اور سوشلزم سے سخت نفرت کرتے تھے ، البتہ بعد میں سوشلسٹ ہوگئے تھے‘‘۔
یوسف عزیز مگسی کا ایک خط بنام امین کھوسہ ہے جو اُس نے اسے تین ستمبر 1932کو لکھاتھا جس میں اُس کے ایف اے پاس کرنے کی مبارکباد کی خبر موجود ہے :
’’پیارے بھائی امین!
’’ مبارک ہو کامیاب ہونے کی بیچ امتحان ایف ۔ اے ، کے ۔ شاباش میرے بہادر! تو نے محبت پر علم وغیرہ کو نثار کیا تو محبت بھی علم وغیرہ تمام اشیا کو تم پر نچھاور کر دے گی۔ ۔۔۔ ‘‘
وہ ابھی علیگڑھ میں طالب علم ہی تھاکہ 1932والی جیکب آباد کی آل انڈیا بلوچ و بلوچستان کانفرنس منعقد ہوئی۔ وہ چونکہ میر یوسف عزیز مگسی سے آشنا تھااور اِس سارے تصور کے پیچھے اُسی کا دماغ تھا۔ اس لئے یہ بہت ہی فہمیدہ ، زندہ دل اور پر جوش شخص اس کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلے میں ہاتھ بٹانے لگا۔خان عبدالصمد خان لکھتا ہے کہ:’’1932 میں جیکب آباد کانفرنس کے دوران میری ملاقات محمد امین خان کھوسہ سے ہوئی جو اُس وقت نوجوان تھے ، اور علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ علی گڑھ میں وکالت پڑھ رہے تھے اور وہاں سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے ۔ اور اپنے اولین خطبہِ صدارت میں بلوچستان کے بارے میں بہت اچھی اور بھاری باتیں کی تھیں ۔ انہیں کالج سے نکال دیا گیا تھامگر سندھ و بلوچستان کے بے شمار لوگوں کے ٹیلیگراموں اور مطالبوں کے پیش نظر یہ احکامات واپس لیے گئے تھے‘‘ ۔
میر محمد امین کھوسہ نے علیگڑھ کے زمانے میں آل انڈیا بلوچ ایسوسی ایشن قائم کی جس کا محور و مرکز محدود قوم پرستی نہ تھی بلکہ بلوچوں کو متحد کرکے ایک زیادہ وسیع اور کل ہند سطح پر قومی جدوجہد میں شرکت کرنے کے لئے آمادہ کرنا تھا۔۔۔ وہ 1931 میں دہلی میں منعقد ہونے والی دوسری آل انڈیا مسلم کانفرنس میں بھی ایک مندوب تھا۔
یوں امین کھوسہ طالب علمی کے زمانے ہی سے سیاست سے نہ صرف بلدہو گیا تھابلکہ وہ ایک اچھی خاصی ہلچل والی سٹوڈنٹ پالٹکس کرتا رہا ۔ اُس زمانے میں آزادی کی تحریک پورے ایشیاء میں عروج پر تھی ۔ اور اس تحریک سے متاثر نہ ہونا نا ممکن تھا ۔ ایک بہت ہی غبی ، کند ذہن یا بے حس شخص ہی اس تحریک سے لا پرواہ رہ سکتا تھا ۔ امین کھوسہ تو بہت ہی حساس طبیعت کا مالک تھا ، اسے غلامی بھلا کیسے قبول ہوتی۔لوحِ محفوظ پر اُس کی تقدیر میں انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد میں ایک بڑا نام پیدا کرنا لکھا گیا تھا۔
۔1933 میں امین کی شادی ہوتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ 23 برس کا یہ نوجوان آس پاس کی دنیا کے بارے میں کتنا شعور رکھتا تھا۔ اس کے مضمون کا عنوان تھا:سیا سیاتِ بلوچستان پر مکمل تبصرہ۔ اور اُس کی ذیلی سرخی ’’تعلیمی زاویہ نظرسے‘‘ تھی۔(البلوچ، 16جولائی1933)۔
’’ میں ایک ایسے شخص کی حیثیت میں جو ’’درون خانہ ‘‘ سے بالکل اچھی طرح آشنا ہے ، اور پھر ’’برون در‘‘ سے نہیں۔’’ درون خانہ کے قلندر انہ سخن کہنے سے ایسے پہلو تھی نہیں کرتا کہ واقعات اور حقیقت چھپ نہیں سکتے، وہ کسی رازِ پوشیدہ کے انکشاف کرنے کے ارادے سے قلم نہیں اُٹھاتا ۔ اُسے یقین ہے کہ وہ سرہائے پنہاں جن سے محفل سازی ہوتی ہے مشتہر ہوہی جاتے ہیں یہ سخن ناگفتہ بہ سپر د قلم کر رہا ہوں۔ مجھے کافی احساس ہے کہ میری راست گفتاری یا تلخ گوئی سے ان حضرات کے جذبات کو سخت چوٹ لگے گی ، جو تصویر کا ایک رخ دیکھنے کے عادی ہیں۔ لیکن میں اپنی صفائی میں حضرت اقبال کو آگے بڑھاتا ہوں۔

اگر سخن ہمہ شوریدہ گفتہ ام چہ عجب
کہ ہر کہ گفت زگیسوئے اوپریشان گفت

ان حضرات کی تشفی کیلئے جو میرے موضوع کے اور اس کے تڑپادینے والے عنوان کو دیکھ کر متوقع ہوں گے کہ میں کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑوں گا جس پر کہا جائے کہ میں نے دیانتداری سے روشنی نہیں ڈالی ،عرض کرتا ہوں ۔

زبان اگر چہ دلیر ہست ومدعا شیریں
سخن زعشق چہ گویم جزایں کہ نتواں گفت

’’ مجھے ایچ ۔ جی ویلز کے اس قول سے کلی اتفاق ہے جس کو انہوں نے وضاحت کے ساتھ اپنی تصنیف ’’تاریخِ عالم کا خاکہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ ’’ان پڑھ جمہوریت‘‘ ایک کھوکھلی سی چیز ہے، کیونکہ وہاں سوچ سمجھ اور تفکر کو کوئی دخل نہیں ، جاہل ووٹر سر ہلانے ہاتھ اُٹھانے کے علاوہ امورِ سلطنت کی باریکیوں سے کہاں واقف ہوسکتا ہے۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ یہی نظامِ جمہوریت بدل کر مطلق العنانی کی صورت اختیار کرتا ہے۔اسی طرح سے بلوچستان میں ہوا ۔ اس امر سے کسی کو اختلاف نہیں کہ بلوچ قبائلی نظام کی بنا مطلق العنانی پر نہیں تھی ، کہ بلوچستان میں اگر جمہوریت کا دور دورہ کبھی ہوا تو وہ محض ’’جاہل جمہوریت ‘‘ تھی۔ سردار کا اقتدار ویسا ہی تھا جیسے عرب قبائل کے سرگروہوں کا رسول ﷺ کے بعثت سے پہلے تھا۔ یہ نہیں تو ایک حسین عورت پر ہزاروں بلوچوں کی گردنیں کٹنا چہ معنی دارد؟۔۔ مگر ایک اور بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہ سردار بلوچی قبائل کی وفاداری اس حد تک حاصل کر لیتا جس حد تک وہ اسے اپنے خیال کے مطابق سمجھتے یا اس کو سرداری سے تب تک نہ ہٹاتے جب تک اس میں اس کے چلانے کی اہلیت وصلاحیت رہتی !۔آہستہ آہستہ یہ جراثیمِ جمہوریت مفقود ہوتے گئے ، حتی کہ نوبت بہ اینجارسید کہ کہیں کہیں وقتی ڈاکہ زنی، بغاوت ،سر کشی اور سردار کے خلاف جوش میں آن کر ڈنڈے کو جنبش میں لانا ’’باقیات صالحون‘‘ سمجھے جانے لگے۔ اب یہ آخرین یادگارِ جمہوریت بھی شہریت کی نذر ہورہی ہے !۔خیر یہ دور ایساتھا کہ سردار قوم کے حقیقی روح رواں کی حیثیت میں جلوہ افروز ہوا۔ پہلے قوم جو کچھ کرتی تھی اس کو دائرہ عمل میں لانا ہوتا ، لیکن اب وہی (سردار)تجاویز وغیرہ کا مصدر ہوا اور قوم ان ’’احکام ‘‘کی تکمیل کیلئے آلہ کار بنی۔ سردار کے حکم کی خلاف ورزی نہایت مذموم سمجھی جانے لگی ۔یہ اس لیے کہ سردار کی شخصیت ’’میں کچھ تقدس ‘‘ کی آ میختگی بھی روا رکھی گئی ۔یہاں سے ابتدا ہوتی ہے اُن خرابیوں کی جو موجودہ بلوچ سوسائٹی کی جڑوں کو کھارہی ہیں، سرداروں میں شاذونا در علم دوست ہوتے یا واقعی پڑھے لکھے ہوتے، اس لیے اس کی طرف توجہ مبذول کرنا بے سود سمجھا گیا۔کچھ تو مخصوص حالات اور کچھ ان سرداروں کی عدم توجہی نے جہالت کوجائز قرار دیا۔ جو چیز سرگروہ کی پسندیدگیِ خاطر پر گراں گزرے اس کو فروغ کس طرح دیا جاتا ہے۔
چو کفراز کعبہ برخیزدکجاماند مسلمانی؟۔
بلوچستان میں جہالت کی تاریکی کو قائم رکھنے اور علم کی روشنی کو روکنے میں ایک زبردست پردہ ان سرگروہوں کی جہالت یا ان کی علم سے غیر توجہی ہے ! ۔وہی سردار جس کو زمانہ نے کچھ سکھلایا ہے اور جو شان ’’لولاک ‘‘ کے حقیقی وارث اپنے آپ کو نہیں سمجھتے، جو قوم سے حاصل کیے ہوئے پیسے کا جائز ترین مصرف مخصوص مہمان نوازی کا مظاہرہ( نقد نذرانہ پیش کرنے کی صورت میں) کو نہیں سمجھتے ، قوم کے بچوں کی تعلیم کیلئے پیسہ صرف کرنے میں دلیری سے کام لینے پر آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ تو ان بلوچستان کے آدمیوں کے متعلق تھا جو ہندوستان کی ریاستوں کی طرح اپنے حکمرانوں کے زیر نگرانی میں تھے۔ باقی بلوچستان کے ان اضلاع مثلاً سبی وغیرہ نے تعلیم حاصل کرنے میں کیوں کوتاہی کی؟۔ اس کے اسباب اظہر من الشمس ہیں۔
اولین سبب تو یہ کہ سکول ایسے مقامات پر تھے کہ وہاں تک گردونواح کے لوگوں کو اپنے بچوں کو بھیجنا ذرا مشکل نظر آیا۔ سب سے زبردست رکاوٹ تو وہی تھی جو سارے ہندوستان میں اپنا اثر یکساں رکھتی تھی، مسلمانانِ ہند نے سیاسی وجوہات کی بنا پر انگریزوں کے تمام مدارس کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا اور اپنے قطع تعلق کو فرض سمجھا۔
خیال کیجیے غدرد ہلی کا نزلہ سارے کا سارا مسلمانوں پر ہی پڑا۔ گویا انہی ہاتھوں سے ان کی ’’عزت و عظمت کا چراغ گل ہوا اور ان کے ہی کھولے ہوئے مدارس میں مسلمان بچے تعلیم پائیں ! ناممکن!!۔‘‘ آپ نے دیکھا کہ جہاں جہاں انگریزی مدارس کھلے ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ اولین جذبہ جواُن سکولوں میں جانے سے مانع تھا، وہ مقدس جذبہ غیرت وخود داری تھا۔ غیور مسلمان علماء نے بے سروسامانی کی کچھ پرواہ نہیں کی، بلا خوف ترددان مدرسوں پر پڑھنے والوں کو روکنا شروع کردیا۔ اور پھر توبعض حالات کو دیکھتے کفر کی فتوائیں بھی دے دیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ان میں سب کے سب سچے تھے۔لیکن اکثریت ان کی تھی جو انگریزی پڑھنے کو سچے دل سے گناہ سمجھتے تھے۔ کیسی غلط اور گمراہ کن تشریح ہے یہ اس جذبہِ خود داری کی کہ مسلمان پڑھے اس لیے نہیں کہ ان کا مذہب اُن کو دوسری زبان سیکھنے سے روکتا ہے ۔ یا یہ کہ علمائے دین نے زبان انگریزی کی مخالفت کی۔ میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے انگریزی تعلیم کی مخالفت شروع میں کی ان میں 95فیصد آزادی وحریت کے دلدادہ تھے ۔ خود سرسید کی ذات ان چیزوں سے پاک نہ تھی جس سے اس وقت کے قطع تعلقاتی ملّا مبر ا تھے۔ کم از کم سرسید کی سیاسی زندگی ان آلا ئشوں سے محفوظ نہیں کہی جاسکتی جس آواز کی گونج دورانِ تحریکِ عدم تعاون ہندوستان کے گوشہ گوشہ کو نہ کونہ تک پہنچی کہ کالجوں کو چھوڑ دو۔ گاندھی آشرم میں جاؤ۔ جامع ملیہ میں پڑھو وغیرہ ۔ وہ اس صدا ئے احتجاج کی باز گشت تھی جو دل میں ایمان کی تڑپ رکھنے والے ملاؤں نے غدر 1857میں بلند کی تھی۔ کاش !

کم نظربے تابیِ جانم ندید
آشکارم دیدو پنہا نم ندید

کوئی یہ اعتراض کرے کہ جو چیز متعصب ملّانے مذہبی رنگ دے کر مکروہ قرار دی۔ میرے پاس کیا دلیل ہے کہ میں اُسے سیاسی ہنگامہ خیزی سے تعبیر کرتا ہوں۔ اس اعتراض کا جواب خود اِس وقت کے مسلمانوں کی حالت ہے۔ ہندوستان کے مسلمان نہیں بلکہ دنیا کے مسلمانوں کے مذہبی پیشو ااور سیاسی رہبر یہی علمائے دین تھے ۔ سیاست اور مذہب کو مسلمانوں نے کبھی علیحدہ (بجز تر کی کے ) دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں جو انقلاب ایک مسلم ملک میں ہوتا ہے اس بات پر شاہد ہے کہ مذہبی پیشواؤں کا اخراج مسلمانوں کے دلوں میں کہاں تک ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے یا بری ۔ ایک ملک کی بہتری کیلئے سیاست کو اور مذہب کو علیحدہ کرنا چاہیے یا نہیں اس سے میری بحث نہیں۔ بہر صورت یہ حقیقت ہے کہ غدردہلی کے بعد مسلمانوں کے ایک جلیل القدر باخبر پڑھے لکھے گروہ نے ’’نوکریوں‘‘ کی کچھ پرواہ کی نہ انگریز کے سامنے جبیں سائی کرنے کا اس نے موقع ڈھونڈا، نہ وہ انگریزی تعلیم کی مخالفت سے رکے۔ یہاں پر اس بات کا اظہار بہت دلچسپ ہوگا کہ لارڈ میکالے نے آگے چل کر مشرقی علوم وفنون کا وہ مضحکہ اڑایا۔ جس کو کوئی غیورآدمی برداشت نہیں کرسکتا۔ کاش کہ قطع تعلقاتی جذبات عملی صورت پکڑنہ سکے۔ کیونکہ ہندو حضرات جنہوں نے بنگال ، میسور، وغیرہ وغیرہ فتح کرنے میں اپنے سفید آقاؤں کی امداد کی تھی۔ وہ انگریزی تعلیم پر ایسے جھکے کہ بچارے مسلمان کی غیرت وغیرہ دھری رہ گئی۔جب اس نے آنکھیں کھولیں تو انگریز کے بجا ئے ’’مہاشہ جی‘‘ اس پر حکومت کر رہا تھا۔ یہاں پر ہم سر سید کے مرہون منت ہیں کہ اس نے اپنے پڑو سیوں کی ذہنیت کا خوب اندازہ کیا ہوا تھا۔ سر سید نہ ہوتے تو معلوم نہیں مسلمان بیچارہ کی کیا حالت ہوجاتی۔ سرسید نے نہ صرف مسلمانوں پر احسان کیا۔ بلکہ سارے ملک پر! ۔
خیر ہم بلوچستان کی تعلیمی حالت پر غور کر رہے تھے ۔ جب ہندوستان میں یہ کچھ ہورہا تھا۔ تو بلوچستان میں کیا توقع ہوسکتی ہے ۔ جاہل سردار آدھے لکھے پڑھے سردار کے ماننے والے جاہل ہی اچھے!۔
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
جیسے ہندوستان میں ’’بابو لوگ‘‘ گھڑ نے کی ضرورت سرکار کو پیش آئی وہ بلوچستان میں نہ تھا۔ پنجاب میں بھی شروع میں یہی ہوا کہ بنگالی بابو بھرتی ہوئے لیکن بہت جلد پنجابی صاحب تیار ہوگئے۔
بلوچستان میں شروع میں ہی لالہ جی صاحبان کچھ کم نہ تھے ۔ لہذا سرکار کو دماغ سوزی کی ضرورت کیا تھی کہ’’ ستڑے مہ سے، اور، داڑے برک‘‘ کو پڑھانے تک ٹھہرجاتے۔ ایک لالہ جی دوسرے لالہ جی کو لایا۔ ایک سردار جی دوسرے سردار جی کا رہبر بنا۔ ایک بابو جی دوسرے کا پشت بنا۔ یہاں تک کہ بلوچستانیوں کے حق میں وہ مصرع ٹھیک اترتا ہے کہ:
طاقتِ مہمان نداشت خانہِ مہماں گذاشت
باہر سے آنے والے حضرات کے خواب میں بھی یہ خیال نہیں گزرا ہوگا کہ کوئی دن ایسا آئے گا کہ جہالت اور ذلالت کو ’’میں بلوچ ہوں‘‘ کے لباس میں چھپانے والا بلوچستانی داڑھی مونچھ چٹ ہیٹ ونکٹا ئی پہن کر ’’سرکاری ملازمتیں ہمارا حق ہے ‘‘ کا نعرہ بلند کرے گا۔ ان بچاروں نے گھونسلوں یا قصر نما ’’ جھونپڑیوں‘‘ کی بنا ڈال دی ۔ اب کوئٹہ میں پوتوں نواسوں ، اور کاٹیجوں cottageکو دیکھ دیکھ کر ہر بلوچستانی کے دل جیسے ہر محکمہ دست بابو جی کا محتاج تھا۔ ویسے ہی نظامِ تعلیم۔ آپ خود خیال کیجئے اس باہر سے آئے ہوئے آدمی کے کندھے پر کونسی ایسی مصیبت آن کر پڑی تھی کہ وہ زیارت کے پہاڑوں میں بسنے والے افغانوں یا دنبے چرانے کے شغل میں رہنے والے مریوں کو تعلیم دلانے پر سارا قیمتی صرف کرتا!۔
’’پڑھیں نہ پڑھیں جائیں کھڈے میں ‘‘ اس قسم کا کوئی خیال اس کے دماغ میں چکر لگاتا ہوگا۔ اس طرف بے توجہی کی یہ حالت اور اس جانب بے خودی کا یہ عالم کہ کسی چیز کی پرواہ نہیں ۔لیکن آخر یہ زمانہ کب تک چلتا ۔وہ وقت بھی آیا کہ بلوچستان کی سنگلاخ اور شوریدہ زمین سے دور ’’پڑھے لکھے‘‘ آدمی بھی اگنے لگے۔ لیکن کس ماحول میں کہ پانی ، ہوا،ر وشنی پر باہر سے آئے بھائیوں کا مکمل قبضہ تھا۔ اب شروع ہوتا سلسلہ تنازع للبقا کا!
ایک بلوچستانی ’’ملکی ملکی‘‘ کے سُرالاپتا ہے تو چند سال یہ ترنم ریزیاں اس کی قائم رہیں۔ ’’غیر ملکی‘‘ کو بھی آخر پیٹ پالنا ہے ۔وہ اس چیخ وپکار کو سنتا کیوں ہے اور نوکریوں کو حتی الوسع اپنے بھوکے پیٹ کے کسی نہ کسی کو سپرد کرنے کیلئے نوالہ کی صورت میں اگلتا جاتا ہے ۔ اس لطف ومزا سے کہ بلوچستانی غصہ سے جل کر دانت پیس کر گلا پہاڑ پہاڑ کر چلاتا ہے ’’اے بودی والے ! اے تسی تسی، مینوں بولی بولنے والے۔ اے میاں سیاں بکنے والے ذرا نکل بلوچستان سے ،کہ گھر کا مالک آیا‘‘۔
ہم ان دونوں کو اس حالت میں چھوڑ کر بلوچستان کی تعلیم پراس مقابلہ کے اثرات کو واضح کرتے ہیں۔ یہ تو دہرانے کی بات نہیں کہ مروجہ طریق تعلیم ہندوستان میں لارڈمیکالے نے سوچاتھا تو اسے گاندھی ، محمد علی اور جواہر لال نہرو پیداکرنا مقصود نہیں تھا۔اس نے تو کلرک سازمشین کی ایجاد کی تھی ۔ اور ہوا بھی ایساہی۔ لوگ جوق درجوق کا لجوں سے نکلتے اور ڈپٹی کلکٹر وغیرہ کی تمنائیں لے کر نکلتے۔تعلیم، تعلیم کے غرض سے تھی ہی نہیں تودی کیسے دی جاتی۔ کالجوں کی ڈگریاں غلامی یانوکریوں کے طوق زریں کے علاوہ اور کس کام کی ؟۔ چنانچہ بلوچستانی جو تعلیم کی طرف پلٹے تو یہ سمجھ کر کہ میٹرک ہونے کے بعد ای۔ ایس ۔ سی تو ضرورہی ہوں گے۔ اگر نہیں تو تحصیلدار۔ تحصیلدار نہیں تو نائب۔ وہ نہیں تو پٹواری ۔غرض یہ کہ کچھ نہ کچھ اس دردولت کے دربانوں میں ہوکے رہیں گے ۔
لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور نکلا۔ ان کی امیدیں خاک آلودہ ہو گئیں۔ اور ہونی چاہیے تھیں۔ بلوچستان سے باہر آنے والے بجائے خود ایک طبقہ Classہے ۔ اُسے حق حاصل ہے کہ جیسے آسودہ طبقہ کی خوشی کا انحصار غریب کے رنج والم پر ہے ویسے وہ بھی ملکیوں کو مبتلائے مصیبت رکھ کر پیٹ پالتے رہیں۔ جس طرح امر اطبقہ غرباپر ظلم وتشدد کا اضافہ کرتا رہتا ہے۔ویسے ہی ضروری ہے کہ یہ حضرات ’’ملکی ملکی‘‘ رٹ لگانے والوں کی طرف دستِ عنایت ونوازش دراز کریں۔
بات تو قابلِ غور یہ ہے کہ نوکریوں سے جہاں جواب ملا وہاں آخر یہ بیکاروبے روزگار نیکٹائی میں سرشارسوٹ بار صاحب نماآدمی کیا کرے گا؟۔
نوکریوں کا یہی حال رہا تو چچا غالبؔ صاحب کے سوال کا جواب دینا پڑے گا۔
تمہی کہو کہ گذارہ صنم پرستوں کا
بتوں کی ہوا گرایسی ہی خوتو کیونکر ہو
لامحالہ بے چینی ملک میں پھیلانے کے اسباب میں ایک اور کااضافہ ہوجائے گا ۔کبھی سیاسیات مشغلہ ہوگا تو کبھی اخلاقیات وفلکیات پر طبع آزمائی ہوگی۔
’’نوکریاں بلوچستانیوں کا حق ہیں‘‘۔ اس کا فیصلہ حکام بلوچستان کریں ۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ ملکی اور غیر ملکی میں سمجھوتہ ہوجائے ناممکن ! بلوچستانی نوجوان کو پہلے کے مانند اندھیرے میں رکھنا کارے دارد۔ جو تحریک ہندوستان کے طول وعرض میں کامیاب نتائج دکھا چکی اس کے اثرات کو ان چالبازیوں سے روکنا ذرا مشکل نظر آتا ہے ۔اگر ہمی طریق کار اور ہمی بے روزگاری ہے تو جلد ایک قومی پارٹی کا ظہور ہونے والا ہے۔

حوالہ جات

۔1۔لیمبرک ۔ 1960۔جان جیکب آف جیکب آباد ۔ صفحہ 650
۔2۔ماہنامہ سنگت، مئی 2018۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *