Home » قصہ » ایک بھولی ہوئی کہانی ۔۔۔۔ فہمیدہ ریاض

ایک بھولی ہوئی کہانی ۔۔۔۔ فہمیدہ ریاض

مجید نے مجھے جو داستان سنائی تھی وہ اتنی دلچسپ لگی تھی کہ میں اسے فوراً لکھ ڈالنا چاہتی تھی ۔ پھر نہ جانے کیوں یہ کہانی لکھنے کا ڈول ہی نہ ڈولا اور وقت گزرتا چلا گیا ۔ یہ بات اتنی پرانی ہے کہ اب تو معلوم ہوتا ہے صدیاں بیت گئیں ہوں ۔ صدیاں توخیر نہیں پھر بھی کافی عرصہ ہوگیا۔ یوں سمجھیے کہ یہ بھٹو صاحب کے آخری برسوں کا واقعہ ہے ۔ سن ستر یا اٹھتر کی بات کہ مجید مجھ سے ملنے آیا تھا۔ چند مہینے پہلے مجھے اس نے کوئٹہ میں اپنے عزیز کے گھر دیکھا تھا جہاں وہ دفتر کا کچھ سامان پہنچانے آیا تھا۔ اس نے مجھ سے کراچی کے بارے میں اشتیاق سے سوال پوچھے تھے۔ شاید میں نے اسے اپنا پتہ بھی دے دیا ہو۔
وہ ستر ہ اٹھارہ برس کا چھر یرے بدن کا بلوچ لڑکا تھا۔ گندمی رنگ ، خاصا دراز قامت ، ہاڑ چوڑا نہیں تھا مگر مضبوط لگتا تھا۔ وہ ایک معزول شدہ سرکاری ملازم تھا اور میرے پاس کوئٹہ سے اس آسرے میں آیا تھا کہ یا تو میں جادو کی کوئی چھڑی گھما کر اس کی ملازمت بحال کروا دوں، اور یا روزگار کا کوئی دوسرا بندوبست ہوجائے ۔ اب یہ مجھے بالکل یاد نہیں کہ اس سلسلے میں وہ آخر مجھ سے کیوں ملنا چاہتا تھا ؟۔ دماغ پر زور دینے سے خیال آتا ہے کہ غالباً اس کی وجہ یہ ہو کہ میرے یہ بہت قریبی عزیز جیالوجیکل سروے آف پاکستان میں اعلیٰ افسر تھے ۔ مجید اسی محکمے میں اردلی تھا اور اسے معزول کردیا گیا تھا۔ یہ سوال پوچھنے پر کہ اسے معزول کیوں کردیا گیا ، اس نے جو قصہ مجھے سنایا تھا وہ مجھے اتنا پرلطف لگا تھا کہ میں اسے لکھنا چاہتی تھی ۔ پھر شاید بھول بھال گئی ۔ حالانکہ مجید کا چند برس اس طرح ساتھ رہا تھا کہ میں نے اُسے اپنی خاصی خوشحال بہن کے گھر ملازمت دلوادی تھی۔
میری بہن کا گھر اس زمانے میں اسی گلی میں تھا جہاں میں رہتی تھی۔ مجید کو ہلکا پھلکا کام دیا گیا تھا ۔ بچوں کا ہاتھ منہ دھلانا اور انہیں سکول چھوڑنا اور گھر کی جھاڑ پونچھ ، یا برتن دھونا۔ اسے رہنے کے لیے کواٹر بھی مل گیا تھا۔ تنخواہ بہت اچھی تو نہیں تھی لیکن آپ اسے گزارے لائق کہہ سکتے ہیں۔ ایک ایسے زمانے کے لیے جو اس کے اور ہم سب کے خیال میں ایک باقاعدہ ملازمت سے دوسری ملازمت کے درمیان پڑ رہا تھا۔
بانکا چھریر ا بلوچ اتنے تھوڑے سے کام سے کہاں مطمئن ہونے والا تھا۔ بہت جلد وہ باروچی خانے میں دخیل ہوگیا اور فٹا فٹ کھانا بھی پکانے لگا۔ پھر اس نے کپڑے دھونے شروع کر دیئے ۔ اور ایک دومہینوں میں کھرپی سنبھال کر چھوٹے سے باغیچے میں باغبانی کرنے لگا۔ چھ مہینوں میں اس نے میری بہن کے گھر کا تقریباً تمام کام سنبھال لیا۔ہر نئی ذمہ داری کے ساتھ اس کی تنخواہ میں اضافہ ہوتا گیا جس پر گویا ہر مہینہ نظر ثانی کی جارہی تھی۔ چھٹے مہینے کے آخیر تک وہ تقریباً اتنا کمانے لگا جتنی تنخواہ اسے سرکاری اردلی کی حیثیت سے ملتی تھی۔سب سے اہم بات یہ تھی کہ گھر کے دونوں بچے اس سے بہت مانوس ہوگئے تھے ، بلکہ انہیں مجید سے لگاؤ ہوگیا تھا ۔ اس کی مستعدی اور خوش مزاجی نے سب گھر والوں کا دل موہ لیا تھا۔ وہ ایک قابل بھروسہ شخص ثابت ہوا تھا۔ اب میری بہن اور بہنوئی اپنے بچوں کو اس پر چھوڑ کر کہیں جاسکتے تھے اور اس کے ساتھ بچوں کو گھومنے کے لیے پارک میں بھی بھیج دیتے تھے ۔ انہیں کوئٹہ میں اس کے گھر کا پتہ بھی معلوم ہوگیا تھا کیونکہ جو منی آرڈر وہ ہر مہینے اپنی بیوہ ماں کو بھیجتا تھا اس پر انگریزی میں نام اور پتہ وہ ہی لکھتے تھے۔
مجید کا باپ خضدار کا رہنے والا تھا جو حالات کے کسی پھیر میں آکر کوئٹہ آنکلا تھا۔ جیالوجیکل سروے آف پاکستان کا دفتر اسی زمانے میں کوئٹہ میں قائم ہورہا تھا۔ اس محکمے نے دفتر کی طرف آنے والی دو تین سڑکوں کے لیے روڑے کوٹنے کے کام پر کچھ مزدور بھرتی کیے تھے۔ یہاں مجید کے باپ کو کنٹریکٹ کی ملازمت مل گئی۔ وہ ایک جاندار محنتی ، اَن تھک کام کرنے والا اور ساتھ ہی ساتھ شریف النفس مزدور نکلا جو مزدوری پر جھگڑا نہیں کرتا تھا۔ ایڈوانس کا مطالبہ کیے بغیر صبر سے معاوضہ ملنے کا انتظار کرتا اور پانچ دس دن کی دیر سو یر پر اُدھم نہیں مچاتا۔ اسے سمجھا دیا گیا تھا کہ سرکاری ادائیگی ایک پیچیدہ کام ہوتی ہے ۔ بہت سے افسروں کو بہت سے کاغذوں پر دستخط کرنی پڑتی ہے ۔ تب کہیں جاکر بینک سے پیسے نکال کر مزدوروں میں باٹنے جاتے ہیں۔ پھر بھی سرکاری مزدوری میں فائدہ یہ ہے کہ پیسے مل ضرور جاتے ہیں۔ آج نہیں تو کل۔ افسروں کومجید کے باپ کا کام پسند تھا۔ وہ سڑکیں بننے کے بعد بھی اسے کوئی نہ کوئی ملازمت دے دیتے یا کنٹریکٹ کی کسی اور مد میں توسیع کرتے جاتے۔ لیکن کسی کندپھاوڑے سے اس کی پنڈلی میں زخم آگیا اور پوری ٹانگ میں گینگرین پھیل گئی، مجید کا باپ دنوں میں چٹ پٹ ہوگیا۔
اس کی ناگہانی موت کا اس کے سب ساتھیوں اور افسروں کو بہت افسوس ہوا۔ وہ تعزیت کے لیے اس کی ٹین اور گتے کی جھونپڑی میں بھی گئے جو انہوں نے شہر سے باہر ایک ریلوے لائن کے کنارے ڈال لی تھی اور جہاں مجید کی ماں ایک سیاہ سوتی گکھے میں کہ جس میں اس کے اپنے ہاتھ کے کڑھے سرخ اور سبز دھاگوں کے حلقوں میں آئینے جگمگا رہے تھے کھبانوں کی بہت سی مینڈھیاں اور کسی ہوئی دو چوٹیاں گوندھے انہیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی عقل کا پہلے بھی زمانہ قائل نہ تھا اور اب تو اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔ اب وہ کیا کرے گی؟۔مجید کا کیا ہوگا؟ ۔کیا وہ خضدار واپس چلی جائے جہاں اس کے کچھ سگے رشتہ دار ہیں؟۔ وہاں سے تو وہ دس اونٹوں کے قافلے کے ساتھ منزلیں مارتے آئے تھے ؟ ۔سنا ہے لوگ ریل گاڑی سے بھی جاتے ہیں جو بہت بڑے سٹیشن سے جاتی ہے ۔ سٹیشن کہاں ہے ؟ اسے راستہ کون بتائے گا؟ اپنی جھونپڑی کے سامنے ریل گاڑیاں گزرتے تو وہ روز دیکھتی تھی ۔ کبھی ان میں لکڑیوں کے بڑے بڑے لٹھے لدے ہوئے ، کبھی کوئلہ۔ اور کبھی سبز ٹرین گزرتی جس کی کھڑکیوں کی لمبی قطار سے عورتیں اور مرد اور بچے جھانکتے نظر آتے ، لیکن ان میں سے کوئی بھی ریل گاڑی اس کی جھونپڑی کے پاس نہیں رُکتی تھی ۔ لکڑی اور کوئلے سے بھری گاڑیاں آہستہ چلتی تھیں، بعض دفعہ تو اتنی آہستہ کہ دوڑتے بھاگتے مردان پر آسانی سے چڑھ جاتے تھے ، لیکن مجید کے ساتھ چلتی ریل گاڑی پر وہ کیسے چڑھ پائے گی۔ یہ سوچ کر وہ مجید کا ہاتھ زور سے پکڑ لیتی ۔
’’نہیں نہیں!‘‘ وہ سوچتی ،’’اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتی ۔ اس کا پیر پھسل گیا تو ۔۔ نہیں نہیں نہیں ! پھر کیا خبر کہ یہ ریل گاڑیاں دھچر دھچر کرتی کہاں جارہی ہیں؟ کیا خضدار ؟ ‘‘ سچ تو یہ ہے کہ اسے خضدار میں اپنے سگوں کا پتہ بھی نہیں یاد تھا۔
’’ ارے نہیں ماں! توں کدرجائے گی ۔ ادھر ہی بیٹھ۔‘‘ پاس رہنے والی دوسری بلوچنوں نے اسے سمجھایا ۔ ’’جوان ہوتا بیٹا ہے ۔ تیرے پاس تو خزانہ ہے۔ تجھے کیا فکر؟ بس ایک دو برس کی بات ہے ۔پھر یہ کمائے گا کھلائے گا‘‘۔
’’پر ابھی میں اسے کیدر سے کھلاؤں ‘‘ اس نے بے بسی سے پوچھا تھا۔
’’ایدر سے ۔۔‘‘ انہوں نے ریلوے لائن کی طرف اشارہ کیا تھا۔
’’روزی تو ہمارے پاس خود چل کر آتی ہے ۔ اُٹھاٹوکری اور چل ہمارے ساتھ۔‘‘
مجید کو اس کی ماں نے ریلوے ٹریک کے ساتھ بکھرے ہوئے کوئلے چن چن کر ، کھانا کھلایا اور پانی پلایا ۔ پانی ، جو انہیں بہت دور سے لانا پڑتا تھا۔ شہر شروع ہوجانے پر سڑک کے کسی ٹوٹے نلکے سے وہ اپنے برتن بھر کر گھر لوٹتیں ۔ پانی کے یہ نلکے جو شہر کے گھروں اور دوسری عمارتوں کے اندر جاتے تھے انہیں خوش قسمتی سے اکثر ٹوٹے ہوئے مل جاتے تھے ۔ جب ان کی مرمت ہوجاتی تو پھر دوسرے نلکے کی تلاش شروع ہوتی ۔نہیں تو رات برات ان کا کوئی پھر تیلی انگلیوں والا مرد ایک چھوٹے سے اوزار سے نلکے کے کسی جوڑ کا پیچ کھولتا اور صاف ستھرا پانی ڈھل ڈھل بہنے لگتا ۔ ریلوائی بلوچنوں کے برتن پھر بھرنے لگتے۔ جب تک کوئی شکایت کرے، جب تک واٹر بورڈ کے کارندے وہاں اوزار کھڑ کاتے پہنچیں ، تب تک ٹین اور گتے کی جھونپڑی والوں کا مسئلہ حل ہوجاتا۔
دفتروں میں صاحب لوگ مُنھ بناتے ۔
’’یہ نہیں سدھریں گے ۔ مجرمانہ ذہنیت ! لوہے کا پینچ چرانے کے لیے پورا سسٹم بگاڑ دیتے ہیں۔‘‘
روڑی کوٹنے والے مزدوروں کے کان میں بھی یہ باتیں پڑتیں۔ وہ عقل مندی سے سرہلاتے۔
’’بہت بری بات !صاحب بہت بری بات!‘‘
وہ کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے۔
بھلا سوچو ! ہمیں بھرتی کر لیتے ہو۔ تم کو روزی کٹوانا ہے اس لیے۔ ابی ہم رہے گا کہاں، پانی کہاں سے پیئے گا ہمارا بچہ۔۔۔ ایسا کبھی سوچا ؟ نہیں!‘‘
مجید کا لڑکپن اسی ریلوے لائن کے آس پاس گزرا جہاں بھاپ اور کوئلے اور لوہے کی ملی جلی سوندھی مہک پھیلی رہتی تھی۔ میلوں تک پتھریلی زمین پر اکا دکا جھاڑیوں کے ساتھ کہیں کہیں جنگلی گلاب کی کانٹوں بھری بیل بھی نظر آجاتی ۔ باپ کی زندگی تک وہ ایک بس سے لٹک کر شہر کی مضافات میں ایک پیلی چار دیواری کے سکول چلا جاتا تھا۔ باپ نے اس کا سرکاری سکول میں داخلہ کرادیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ یہ تعلیم بھی جاری نہیں رکھ سکا۔ مگر اس نے چار جماعت تک پڑھا تھا۔ وہ اردو لکھ پڑھ سکتا تھا اور جمع اور نفی کا سادہ حساب بھی کر لیتا تھا۔ وہ انگریزی کے چند الفاظ بھی نکال لیتا تھا۔
جب مجید نوکری کے لیے جیالوجیکل سروے میں گیا تو اس کے باپ کے شناسا نچلے درجے کے ملازموں نے اس کے سرپر ہاتھ رکھا۔ وہ اسے صاحب کے پاس لے گئے اور جب ملازمت کے اشتہار اخبار میں نکلے تو مجید کو اردلی کی نوکری مل گئی۔ وہی نوکری جس سے اُسے نکال دیا گیا تھا۔ اس کا بھی ایک قصہ ہے ۔
وہ کچھ ایسا زمانہ تھا جب بلوچستان میں ایک قسم کی بغاوت جاری تھی۔ مری مینگل اور ان سے منسلک قبائل جھالاوان اور ساراوان کے پہاڑوں میں چلے گئے تھے اور ان کے گاؤں پر بمباری کی جارہی تھی۔ یہ تمام صورتحال وہاں کی حکومت معطل کرنے کے بعد پیدا ہوئی تھی۔مگر مجید ان بلوچوں میں شامل نہیں تھا جو حکومتِ وقت سے نبرد آزما تھے ۔ شاید یہ اس کے باپ کے خیالات کا اثر ہو ، جس کے بارے میں اس نے مجھے بتایا تھا۔ ’’ سرداروں کا ساتھ دیں ، یعنی کیا؟۔ بابا کہتا تھا ، اور ٹیک کہتا تھا اماں ، یہ کیوں ہم سے ششک وصول کرتے رہتے ہیں ؟ بابا کہتا تھا، بٹو صاحب ٹیک کہتا ہے ۔۔ بالکل ٹیک! ’’
میری ہمدردیاں ان بلوچوں کے ساتھ تھیں جن کی رہنمائی میر غوث بخش بزنجو کر رہے تھے۔ میں نے ایک بار مجید سے کہا تھا، ‘‘زیادہ بلوچ لوگ تو ان کے ساتھ ہیں۔‘‘
’’ہاں !خبر نہیں کیوں‘‘۔ اس نے نیم دلانہ جواب دیا تھا۔
’’پھر بھی ۔۔‘‘ میں نے ضد سے کہا۔’’ تم جیسے کتنے بلوچ لڑکے جیل میں پڑے ہیں اور تم۔۔‘‘ ان نوجوان بلوچ طلباء کو عموماً قوم پرست کہا جاتا تھا۔ حالانکہ میں سوچتی ، یہ پرستش تو نہ تھی۔ ایک طرح کی شناخت تھی ۔ ایسے راقم الحروف کے وچار تھے۔
’’ہاں‘‘ مجید نے افسوس سے سرہلایا ۔ پھر میری بہن کا ویڈیو پلیئر ٹھیک کرنے میں لگ گیا۔’’خواہ مخواہ ‘‘اس نے سر ہلاتے ہوئے پھر کہا تھا۔
میری بہن کے گھر کا سارا کام کرنے کے بعد بھی مجید کو اتنا وقت مل جاتا کہ وہ پاس کے بازار میں وقت گزارے ۔ اسے بجلی ٹھیک کرنے والے چھوٹے موٹے کاریگروں سے خصوصی دلچسپی تھی۔اس نے تیزی سے بجلی کا کافی کام سیکھ لیا۔ اب وہ میری بہن کے چھوٹے موٹے بجلی کے کام کافی اعتماد سے خود کر لیتا تھا۔ میری بہن کبھی کبھی حیرت سے کہتی ۔’’یہ ایسا لڑکا ہے جو کچھ بھی کرسکتا ہے‘‘۔
کوئی سال بھر بعد مجید چھٹی لے کر وطن گیا۔ اس کی ماں کوئٹہ کے کسی گھر سے میری بہن کے گھر کے ٹیلی فون پر اس سے کبھی کبھی بات کر لیتی تھی ۔ اس نے مجید کا رشتہ طے کر دیا تھا۔ مجید شادی کرنے کے لیے کوئٹہ جارہا تھا۔
وہ مجھ سے رخصت ہونے آیا ۔’’میں آپ کے عزیز سے ملوں گا‘‘ اس نے کہا۔’’ضرور ‘‘میں مسکرائی۔
بلوچوں سے گفتگو کر کے ان کے صاف لہجے پر مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا تھا۔ پاکستان میں یہ اُردو سے نزدیک تر تھا۔ یقیناًیہ فارسی کا اثر ہوگا جو ان کی بولی میں وافر مقدار میں گھلی ملی تھی۔ ان کے لہجے اور رکھ رکھاؤ کی شائستگی پر بھی ایرانی اثر نظر آتا ہے جو ان کے پڑھے لکھے طبقے میں خصوصاً نمایاں ہے ۔ ایرانی اثر۔۔ میں مسکرا کر سوچتی جو دشمن کو ’’جناب دشمن صاحب ‘‘ کہتے تھے ۔ مجھے قرۃ العین حیدر کا سفر نامہ ایران یا د آتا جہاں ان کی تحریر کے مطابق تھانے میں رپورٹ یوں درج کی جاتی ہے ۔ ’’جناب چور صاحب فلاں وقت مکان میں داخل ہوئے اور سامان اُٹھانے کی زحمت فرمائی‘‘
مجید کی چھٹی دو مہینوں تک کھنچ گئی۔ اتنے دن ملازم کے بغیر نہیں رہا جاسکتا ۔ میری بہن نے ناچار دوسرا ملازم ڈھونڈا اور اسے ایک لڑکا مل بھی گیا۔ پھر مجید واپس آیا ۔ آنکھوں میں سرمہ اور ہاتھوں میں مہندی ، وہ ایک خوبرو بلوچ دولہا لگ رہا تھا۔ میری بہن کے لیے وہ ایک ٹیفٹا کا خوبصورت کڑھائی سے مزین گگھا لایا اور بچوں کے لیے چاند کی قوس جیسی کٹاؤ والی بلوچی ٹوپیاں۔بچے اس سے لپٹ گئے ۔ انہوں نے سر پر ٹوپیاں جما کر مجید کو دکھائیں۔ گھر بھرنے اس کا سواگت کیا۔ کیا وہ اپنے کام پر واپس آنا چاہے گا؟ اس سے پوچھا گیا ۔’’واپس؟ یعنی کیا؟‘‘ اس نے کہا ۔
’’نہیں اماں!‘‘ مجید نے کہا۔ ’’میں کسی دوسرے کے پیٹ پر لات نہیں ماروں گا۔ بس کچھ دن اس کواٹر میں سر چھپانے کی جگہ مل جائے۔‘‘
دراصل مجید کوئٹہ سے ہی آئندہ کا پروگرام طے کر کے آیا تھا۔ اس کی جان پہچان کے کئی لڑکے ان دنوں ٹھیکے داروں کی وساطت سے مشرق وسطیٰ جارہے تھے ۔ مہینہ گزرنے سے پہلے مجید گھر والوں کو ایک آنسو بھری گرم جوش الوداع کہہ کر ایک کشتی میں بیٹھ کر مسقط کے لیے روانہ ہوگیا ۔ اس کے پاس پاسپورٹ یا ویزا جیسی کوئی چیز نہ تھی۔ ’’پاسپورٹ ؟ یعنی کیا؟‘‘ (یہ اس کا دلچسپ تکیہ کلام تھا) ۔ پھر اس نے کہا۔
’’اماں یہ سب تو بڑے لوگوں کی باتیں ہیں‘‘۔ اس نے میری بہن کی تفتیش پر کہا۔ ‘‘ اور ہماری نوکری پکی ہے ‘‘۔
’’اتنی دور جارہے ہو مجید!‘‘ میری بہن نے محبت سے کہا۔ ’’تمہیں وطن یاد نہ آئے گا؟‘‘ مجید مسکرانے لگا۔ اس نے کہا’’اماں ہم مزدور ہے ۔ ہمارا کیا وطن ؟ جدر روٹی لے جائے اُدر جائے گا۔ ہزاروں گئے ہیں۔ اُدر اچّا کمائی ہے ‘‘۔
’’اور بیوی؟‘‘
’’بیوی بچوں کے پاس آتے ہیں سال دو سال میں ’’اس نے کہا۔
پھر طویل عرصے تک مجید کی خبر نہ آئی۔

اتنے عرصے میں اِدھر کیا کچھ نہ ہوگیا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔ پاکستان ایسے سوگ میں ڈوبا کہ دیکھانہ جاتا تھا۔ میرے رسالے پر تابڑ توڑ مقدمات دائر ہوئے ۔ بڑی مشکل سے قبل از گرفتاری ضمانت دے کر اپنے آپ کو جیل جانے سے بچا پائی۔ میرے شوہر مزدوروں اور کسانوں کی جس سیاسی جماعت میں شامل تھے اس کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ اس کے سربراہ جیل چلے گئے ۔
بعض لوگوں کوشک تھا کہ وہ حکومت کی مخالفت کے اقدام اٹھانے سے بچنے کے لیے رضا کارانہ طور پر جیل چلے گئے۔ ان کی مزدور کسان جماعت انہیں فوجی حکومت کی مخالفت پر مجبور کر رہی تھی اور اس کا نتیجہ جیل سے کہیں بڑھ کر بھیانک ہوسکتا تھا۔ وہ خوف وہراس کے برس تھے۔ اس سے بھی بد تر شک اور شہے کے طویل برس۔۔ جب سڑکوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے تھے۔ جب مسلح برہنہ طاقت نے اپنا مہیب رُخ دکھایا تو لوگوں نے ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا۔ ہر شخص دوسرے شخص پر شک کرنے لگا۔ اعتبار او ربھروسہ ایسے لفظ تھے جو اس زمانے میں ہماری چھوٹی زندگیوں سے رُخصت ہوگئے تھے۔
میرے خاندان نے جلاوطنی اختیار کی ۔ سات طویل برس پڑوسی ملک میں گزار کر میں واپس آئی تو بلوچستان میں جیسے دنیا ہی بدل چکی تھی۔ صرف پاکستان میں نہیں ، دنیا سچ مچ بدل چکی تھی۔ افغانستان میں شکست کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ سوویت یونین تحلیل ہورہا تھا۔ گلاسنوسٹ ایک نیا لفظ تھا جو بیڈمنٹن کی شٹل کاک کی طرح ہلکے پھلکے پروں سے ہواؤں میں چھوٹے چھوٹے فاصلے طے کرتا اڑتا پھر رہا تھا۔
گلاسٹوسٹ!ہاں کیوں نہیں؟ آزادی ، بندشوں کا خاتمہ ، یہ تو کسے پسند نہ ہوگا؟ ذہن کی بندشیں ، معیشت پر بند شیں، کلچر پر بند شیں۔‘‘
سب ختم ہورہی تھیں۔ شاید ، شاید۔۔۔
وطن واپس لوٹ کر میں نے ایک اخبار میں کام کرنا شروع کیا جس کا مرکزی دفتر پشاور میں تھا ۔ اس کے لیے ایک اخباری کہانی بنانے میں پشاور سے کچھ دُور افغان پناہ گزینوں کے کیمپ گئی۔ ایڈیٹر نے کہا تھا کہ میں پناہ گزین خواتین سے بات چیت کروں اور ان کے مسائل معلوم کروں ۔
دفتر کا ایک شخص مجھے موٹر سائیکل پر بٹھا کر لے جانے کے لیے مقرر کیا گیا۔
’’لیکن ۔ ۔ ‘‘ اس نے راستے میں تشویش سے کہا۔’’ آپ چادر تو اوڑھ لیجئے۔‘‘
’’چادر میرے پاس کہاں!‘‘میں نے کہا۔’’میں تو چادر نہیں اوڑھتی‘‘۔
’’اوہو!‘‘ وہ مزید پریشان ہوا۔ پھر کہنے لگا۔ ’’راستے میں میرا گھر پڑتا ہے ۔ وہاں سے ایک چادر لینی پڑے گی‘‘۔
اخباری دفتر کے کارکن کے گھر سے ایک بستر کی دھلی ہوئی سفید چادر لپیٹ کر میں واپس موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ، اناڑی پن سے چادر لپیٹے اور بے حد خائف کہ چادر کا سرا پہیے میں پھنس کر ابھی میرا گلا گھونٹ دے گا۔ کوئی نصف گھنٹے بعد خیموں کی قطاریں نظر آئی شروع ہوگئیں۔ انہیں دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہورہے تھے ۔ تو یہ ہیں وہ افغان پناہ گزینوں کے کیمپ دُنیا بھر کے اخباروں اورٹی وی چینلوں پر جن کے چرچے ہورہے ہیں!۔ یہ 1988کی بات ہے ۔ افغان جنگ اب نیا موڑ لے رہی تھی۔ شمالی اتحاد سے نبرد آزما مجاہدین کے گروہوں کا باہمی ٹکراؤ آہستہ آہستہ واضح ہورہا تھا، جیسے دھول کا بادل رفتہ رفتہ بیٹھنے کے ساتھ زمین کے خط و خال ، ٹوٹی ہوئی عمارتیں اور جھاڑ جھنکاڑ نمایاں ہونے لگیں۔
اخبار کے کارکن کی سعیت میں موٹر سائیکل سے اُتر کر میں نے خیموں کے باہر ادھر اُدھر ایستادہ یا چار پائیوں پر بیٹھے افغانوں سے بات چیت کرنے کی کوشش کی ۔ میرے ساتھی نے پشتو میں انہیں ہمارے آنے کا مقصد بتایا۔ وہ سب مسلح تھے اور کسی وقت بھی کلاشنکوف چلانے کے لیے تیار ۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہمارے پٹھانوں کی طرح افغان بھی ایک نہایت وجیہہ اور خوبرو قوم ہے ۔ دراز قد، کسرتی بدن، سرخ و سفید رنگت، سرخ لب، ترشے ہوئے خدوخال ، صاف ستھرے کپڑے، سروں پر کلاہ اور پگڑیوں کی لہر یہ چُنٹیں، ایسی پرکشش کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جائیں ، کیا ہو:
اگر اس طرہِ پر پیچ وخم کا پیچ وخم نکلے
نگران زرّیں کلاہوں کے نیچے ، ان وجیہہ چہروں پرسبز اور نیلی اور بھوری آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں۔ چوکسی اور خشونت کے سوا ان میں کسی تاثر کی جھلک تک نہ تھی۔
’’ نہیں!‘‘
’’ نہیں!‘‘
’’ نہیں!‘‘
ان کے سر نفی میں سختی سے جنبش کرنے لگے ۔ وہ مجھے اپنی خواتین سے باتیں کرنے ، بلکہ خیموں میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔ میں فکر مندی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اور وہ کرختگی سے میری نگاہوں کا تعاقب کر رہے تھے۔ میری نگاہوں نے خیموں میں کوئی درز ڈھونڈنے کی کوشش کی ، کوئی جھانکتی ہوئی صورت ، متجسس آنکھوں کا کوئی جوڑ ا، مگر وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ کوئی آواز تک ان خیموں سے نہیں آرہی تھی۔ کیایہاں سچ مچ کوئی رہتا ہے ؟۔ قطار اندر قطار خیمے دم سادھے کھڑے تھے ۔ گھنٹہ بھر کی ناکام کوشش کے بعد میں نے اس چادر کو وہیں اتار دیا، اسے تہہ کیا اور تھینک یوکہہ کر اخباری کارکن کو پیش کردی جس نے بے حد گھبرا کر اسے موٹر سائیکل کی باسکٹ میں ٹھونسا اور اندھا دھند تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلاتا واپسی کے سفر پر چل پڑا۔
اچھا تو گلاسنوسٹ ۔۔۔یعنی گلاسنوسٹ ! یہاں تک تو نہیں پہنچا!
افغانستان ، اور اس کے بعد سوویت یونین کے جابر کمیونزم کو شکست دینے والی قوت کا دیدار کر کے میں اخبار کے دفتر واپس لوٹ رہی تھی۔ تو کیا جبر اور گھٹن کو شکست اس سے کئی گناہ زیادہ جبر اور گھٹن نے دی ؟، آزادی نے نہیں دی؟۔
ان برسوں میں اور کیا کیا میں نے ؟ اپنے بھر ادھر اُدھر کی کہانیاں نظمیں لکھتی چلی گئی۔ کچھ تراجم بھی کیے۔ آہ کیا سچی ، دلر باشاعرہ ! اور کیسی جواں مرگ۔ ! مشکل سے بتیس تینتیس برس کی ہوگی۔ جب وہ کار کے حادثے کا شکار ہوگئی۔ گوبعد میں ایرانی انقلاب کے دوران ، میں آنسو پیتی اسے یاد کرتی تھی اور سوچتی تھی ، اچھا ہی تو ہوا وہ آج نہیں ہے ۔ ورنہ ان نوجوان پاسداران کے ہاتھوں خاک و خون میں لٹائی جاتی ۔ ہر صورت میں خون میں لت پت انجام ہی اس کا مقدر تھا۔ مگر وہ تو ہین سے بچ گئی۔ فروغ فرخ زادا! کچھ برسوں بعد اس کا چہیتا بھائی بھی جرمنی میں اسلامی انقلابیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا۔ وہاں شاید وہ ٹی وی کے کسی چینل پر کوئی میوزک شوکر تا تھا۔ وہ پراسرار حالات میں مارا گیا تھا جن کا کسی کو بعد بھی علم نہ ہوسکا۔ اخباروں وغیرہ کی نظریں ایران کے اندرونی حالات پر جمی ہوئی تھی ۔ فرخ زاد کے بھائی پر کون دماغ کھپاتا۔ جس کے لیے اس نے لکھا تھا۔ ’’ اور وہ اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ قومی درد جیب میں ڈالے گھومتا ہے ۔ ‘‘
جلاوطنی سے واپسی کے بعد میں نے مجید کے بارے میں دو دلچسپ خبریں سنیں تھیں۔ کراچی کے کسی بے نام ساحل سے ایک گمنام کشتی میں رُخصت کے دو برس بعد میری بہن کو مجید کا ایک خط ملا۔ ٹوٹے پھوٹے حرفوں میں لکھا تھا۔
جنابہ اماں آپا ( وہ میری بہن کو اسی شتر گر بہ القاب سے مخاطب کرتا تھا)
میں یہاں خیریت سے ہوں اور آپ کی خیریت نیک مطلوب ہوں ۔ یہ خط میں آپ کو مسقط کی جیل سے لکھ رہا ہوں ۔ آپ سب لوگ مجھ کو بہت یاد رہتے ہیں۔ صاحب کو بچوں کو اور اماں کو میرا دعا سلام دینا۔
آپ کا وفادار
مجید
خط وصول کر کے میری بہن اور بہنوئی سہم گئے تھے ۔ ’’یا اللہ پاک ! یہ بدنصیب جیل کہاں جا پہنچا۔ او پر سے وہاں سے ہم کو خط لکھ رہا ہے ۔ کہیں ہمیں نہ پھنسائے ‘‘۔میری بہن نے سوچا تھا ۔
لیکن کوئی برس بھر بعد ایک دن دروازے پر دستک ہوئی اور مجید خوش وخرم دہلیز پر کھڑا تھا۔ وہ واپس آگیا تھا ۔ قید شاید مختصر تھی اور اس کی کمائی بھی کسی معجزے سے بچ گئی تھی۔ وہ میری بہن کے لیے چار موم کی شفون کا دوپٹہ لایا تھا اور بچوں کے لیے دو ریسنگ کاریں جو بٹن دبانے پر بیڑی سے چلتے ہوئے شوں شوں سیٹیاں بجاتی تھیں اور ان کی ہیڈ لائیٹوں سے سرخ شعلے نکلتے نظر آتے تھے۔ بچوں کی تو عید ہوگئی۔
اس بار وہ زیادہ دیر نہیں رُکا کیونکہ اگلی ٹرین پکڑ کر اسے کوئٹہ جانا تھا۔
’’اب تم کیا کرو گے مجید؟‘‘۔ میری بہن نے اس سے پوچھا۔
’’دُکان کرے گا اماں‘‘۔ اس نے اپنا ارادہ بتایا۔ ’’بجلی کا سامان ٹھیک بھی کرے گا اور بیچے کا بھی‘‘۔
یہ قصہ سن کر مجھے پھر خیال آیا تھا کہ میں اس کی وہ کہانی لکھوں ، لیکن پھر دوسری مصروفیتوں میں یہ ارادہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچا۔
وقت گزرتا چلا گیا۔ افغان جنگ ختم ہوئی اور کچھ ہی برس بعد نائن الیون آگیا۔ ساری دنیا یکسر بدل گئی۔ شہر کراچی میں دودھ اب چھپن روپے کلو ہوگیا ہے ۔ میرا بجلی کا پچھلا بل اٹھائیس ہزار روپے کا آیا تھا۔ میں کے ای ایس سی کے دفتر گئی اور میں نے ہاتھ پیر جوڑ کر عرض گزاری کہ یہ کیسے ممکن ہوا۔ پچھلا بل تو چھ ہزار روپے کا تھا جبکہ بجلی آدھے دن اور آدھی رات ہوتی بھی نہیں ہے ۔
ملک بھر میں بجلی کا شدید بحران ہے ۔ بار بار کئی شہروں میں جو خودکش بم دھماکے ہوتے ہیں جن میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں ، اس کے باعث بجلی کے بحران سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور بجلی کے بحران کی وجہ سے خودکش دھماکوں سے توجہ ہٹ جاتی ہے ۔ پھر ہوش رُبادن پر دن ، بلکہ شاید ساعتوں کے حساب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی ہر چیز سے توجہ ہٹا دیتی ہے ۔ پھر لوگ اُسے بھی بھول جاتے ہیں۔
چند دن پہلے ہندوستان سے آئی ہوئی ایک جواں سال ذہین اور کچھ بوہیمین سی لڑکی مجھ سے ملی۔ میں ایک شام اس کے ساتھ گزارنے کے لیے بہت اشتیاق سے نکل کھڑی ہوئی۔ ہم سی ویو پر چہل قدمی کے لیے گئے وہاں اس قدر بھیڑ تھی کہ ساحل سمندر ایک تفریح گاہ سے زیادہ کوئی جائے واردات معلوم ہورہا تھا ، جہاں سے زخمیوں کو اٹھالے جانے کے بعد مجمع دیر تک کھڑا رہتا ہے ۔چاند کی پچھلی راتوں میں بے خروش سمندر کی آہیں بھرتی آواز اس بھنبھناہٹ پر غالب نہیں آسکتی تھی جو چاروں طرف موجود تھی۔ مدھم روشنی میں قابل شناخت انواع و اقسام کی دکانوں پر لوگ ٹوٹے پڑ رہے تھے اور چائے یا کافی کے کاغذی پیالوں ، مونگ پھلیوں ، آلو کے قتلوں کے لیے قطاریں توڑ کر کہنیاں مار کر آگے بڑھ رہے تھے۔ مرد ، عورتیں، بوڑھے ، بچے ۔ بیشر میلے کپڑوں میں جن کی پسینے کی باس سمندری ہوا میں تحلیل ہورہی تھی۔ یہ سب سمندر کے کنارے آئے تھے، کراچی کے باسیوں کی ایسی قدرتی تفریح گاہ ، جہاں آنے کا کوئی ٹکٹ نہیں لگتا ۔ اس دن بھی کسی خود کش دھماکے میں بہت سے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ سیاہ ریت پر بکھرے کوڑے سے بچتے بچاتے ہم سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ اور رُک رُک کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ میرا دل و دماغ ایک کہنہ پژمرد گی سے سن رہنے لگا ہے ۔ اکثر اپنی کہی ہوئی ہر بات فوراً احمقانہ لگنے لگتی ہے جس پر پچھتانے تک کی نہ پرواباتی رہی ہے اور نہ طاقت۔ اس وقت بھی منہ بسور بسور کر میں خودکش حملوں کی تباہوں کا ذکر کرتے ہوئے ۔ ‘‘ یہ کیاہو رہا ہے ؟ کیوں ہو رہا ہے یہ!’’قسم کے لغواور لایعنی جملے دہر ارہی تھی( یعنی بیس برس سے جاری ایک قائم ، محکم ، ظاہر، مطلق صورت حال پر دانش مندی کے موتی نہیں رول رہی تھی ) کہ اس نے اسے کوئی سنجیدہ سوال سمجھ کر کہا۔’’ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ۔۔ کپٹلزم آرہا ہے ۔‘‘
یہ سن کر میں چونک گئی ، پھر ہنسنے لگی اور سوچ میں پڑگئی۔ ’’یقیناًیہ ایک طویل عمل ہے ‘‘۔ میں نے سوچا ’’سست رفتار اور پر پیچ ! یہ لڑکی پاکستانی نہیں۔ وہ ہمیں ایک جذباتی فاصلے سے دیکھ سکتی ہے ، جبکہ شاید ہم ، جیسا کہ انگریزی میں کہتے ہیں، درختوں کے باعث جنگل کو نہیں دیکھ سکتے۔ کیسے دیکھیں؟ ان ہی درختوں سے تو پھانسی پر لٹکے ہوئے ہیں سب کے سب۔‘‘ اور سوچا تھا کہ میں مجید کا سنایا ہوا قصہ لکھ ڈالوں جو اس لڑکی کے تبصرے کے باعث مجھے اچانک یاد آگیا ہے ۔
میں اپنے تین کمروں کے مکان میں رہتی تھی جب مجید مجھ سے ملنے آیا ( اب چار کمروں کے مکان میں رہتی ہوں۔ ) ایک پرانا سا پنکھا گھر گھر کر رہا تھا۔ (اب میرے گھر میں ایئر کنڈیشنر لگا ہے۔ ہے تو سیکنڈ ہینڈ ، مگر کام کرتا ہے ۔)
’’تو کیا ہوا تھا؟ تم کو نوکری سے الگ کیوں کردیا گیا؟ ‘‘۔ میں نے اس سے پوچھا تھا۔
’’اماں وہ قصہ ہے ۔ ۔‘‘ اس نے بتایا
مجید جیالوجیکل سروے میں اردلی تھا۔ اس کے ایک بابو صاحب زمین کاگز بنے فیتوں سے زمین ناپتے اور مختلف زادیوں کا حساب لگاتے گھومتے تھے ۔ دو اردلی، چاکر خان اور مجیداُن کی حاضری میں رہتے تھے۔ تب وہ جو ہنّہ یا اُڑک نامی چشمہ ہے ، اسے بھی پار کرتے۔ (کون سا چشمہ بتایا تھا اب یاد نہیں)۔ انہوں نے اپنا یہ دستور بنایا تھا کہ چشمے کے کنارے پہنچ کر کسی ایک اردلی کے کاندھے پر سوار ہوجاتے تھے جو انہیں چشمہ پار کر ادیتا تھا۔
’’اماں اُدر پانی گوڈے گوڈے تلک تھا‘‘ مجید نے گھٹنوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ ’’بابو صاحب آرام سے نیکرتھوڑا اونچا کر کے خود پار کرسکتا تھا۔ اراضی ماپنے کے لیے بابو صاحب نیکر پہن کر ہی آتا تھا ۔ مگر بس وہ جوتے اتارنا نہیں چاہتا تھا۔‘‘
تو پھر کیا ہوا؟
’’ہم لوگ بہت عاجز تھا۔ میں نے چاکر خان سے ایک دن کہا کہ میں تو اسے اپنے کندھے پر نہیں لادوں گا۔ اس نے کہا کیسے نہیں لادے گا۔ کیا انکار کردے گا؟۔ میں نے کہا ہاں!‘‘
’’بس اماں، دوسرے ہی دن میری باری تھی۔ صاحب نے مجھ سے کہا مجید بیٹھ جا میں تجھ پر سوار ہوتا ہوں ہم چشمہ پار کریں گے‘‘
’’تو کیا تم نے انکار کردیا؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اماں سچی بات ہے کہ انکار کرنے کی توہمت نہیں پڑی۔ آخر وہ ہمارا صاحب تھا۔ اس سے مُنھ ماری کی عادت ہی نہیں تھی۔ میں نے اسے کندھے پر بٹھالیا۔ مگر امارا روح ناراض ہو رہا تھا۔ میں نے بلوچی میں چپکے سے چاکر خان سے کہا ’’دیکھنا میں اسے چشمہ پار نہیں کراؤں گا۔‘‘
’’اوہو!‘‘ اب تو میرا اشتیاق بڑھا۔’’ تو تم نے کیا کیا ۔‘‘
مجید ہنسنے لگا۔ اس نے کہا۔
’’ میں اس دس من کے جثے کو لاد کر چشمے میں تو اُتر گیا اور تھوڑی دور چلا۔ مگر بیچ میں پہنچ کر میں نے اس کی ٹانگوں کے بیچ سے اپنی گردن نکال لی اور چشمے میں ڈبکی لگادی۔ ساتھ ساتھ یہ چلّانے بھی لگا ۔ ارے ارے میرا پیر پھسل گیا!‘‘
آنکھیں پھاڑے میں سن رہی تھی۔ ہنسی میرے بشرے سے ضرور مترشح ہوگی۔ ‘‘ تو صاحب گر پڑا !‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں! ‘‘ اس نے ہنستے ہنستے بتایا۔’’ خوب غڑپ غراپ ہوا۔ پھر میں نے اور چاکر نے گھسیٹ کر اسے کنارے تک پہنچایا۔ دوسرے کنارے نہیں گئے ۔ پہلے کنارے تک واپس پہنچا دیا ۔ ادرہی تو جیپ کھڑی تھی جس میں بیٹھ کر دفتر واپس جانا تھا۔ بابو صاحب کا حال برا تھا۔ مُنھ میں پانی کا گھانس بھر گیا تھا۔ جوتے تو پانی میں نکل ہی گئے تھے ۔ اس نے ہم سے کہا جوتے ڈھونڈ کر لاؤ۔ مگروہ ہمیں ملے ہی نہیں‘‘۔
بس جیسے تیسے بابو صاحب کو اس کے گھر پہنچایا۔ وہ دو دن دفتر نہیں آیا۔ پھر آیا۔ میری بہت شکایت لگائی۔ ہفتے بھر میں ہمارا چھٹی کردیا۔ ہم نے لاکھ بولا بھائی پیر پھسل گیا تھا۔ لیکن کسی نے نہیں سنا۔ بولے احتیاط کیوں نہیں کرتا تھا۔‘‘
میں نے مجید کی نوکری بحال کروانے کے لیے اپنے عزیز سے سفارش کی تھی جو کامیاب نہیں ہوسکی۔
پھر برس گزرتے گئے ۔ تنا طویل عرصہ بیت گیا ۔ بلوچستان کے حالات عجیب طرح سے بدلے اور بدل کر پھر پہلے جیسے ہوگئے۔ پرانے سوشلسٹ قوم پرست کچھ مرکھپ گئے ، کچھ گم ہوگئے۔ خوں ریزی متواتر جاری ہے۔ اور اب نئے بلوچ قوم پرست ، پرانے قوم پرست بلوچوں کو قتل کررہے ہیں۔
مجید نہ جانے کہاں ہوگا۔ کیا کر رہا ہوگا!
کوئٹہ میں کہیں الیکٹرونک چیزوں کی فروخت اور مرمت کی دکان کھولنے کے ارادے سے گیاتھا۔ وہ شاید کامیاب رہا ہو۔ وہ محنتی ، بشاش طبیعت اور اپنی دھن کا پکا تھا۔ میری بہن نے ایک بار اس کے لیے کہا تھا۔’’ارے باجی مجید ایسا ہے کہ وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔‘‘
’’اور ایسا ہوتا ہے
کچھ لوگ بچ جاتے ہیں
اور کچھ مارے جاتے ہیں‘‘
فروغ فرخ زاد کی کسی نظم کی یہ سطریں، دماغ میں نہ جانے کہاں اٹکی ہوئی، کسی نیلے سیال میں تیرتی ہوئی یا د آتی ہیں۔ شاید مجید بچ جانے والوں میں سے ہو۔
یہ کہانی لکھتے ہوئے میں نے دل ہی دل مین اس سے پوچھا۔
’’کیوں مجید اس کہانی پر ہم ہنسے تھے نا؟؟
’’ہاں باجی آپا‘‘۔ اس نے خوش وخرم لہجے میں کہا۔
مگر یہ تو وقت بتائے گا کہ آخری قہقہہ کس کا ہوگا! میں نے اداسی سے کہا۔
مجید نے اپنی بادامی آنکھوں سے مجھے غور سے دیکھا۔ پھراس نے کہا ’’آخری ؟ یعنی کیا ؟‘‘۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *