Home » قصہ » کانچ کے آنسو ۔۔۔۔ ثمینہ اشرف

کانچ کے آنسو ۔۔۔۔ ثمینہ اشرف

نومولود اپنی ماں کی گود میں۔۔۔ نومولود کے جسم سے نور کے ہالے اُٹھ رہے تھے۔ یہ ہالے کائنات میں رب دوجہاں کے بچے کی تخلیق کا معجزہ ہیں۔ دنیا میں ایک ماں کا بچہ پیدا کرنا معجزۂ خداوندی ہی تو ہے۔ ماں اس معجزے کی شریکِ کار۔ اپنے وجود میں سمٹا باریک بریک لبوں سے ماں کی چھاتی سے خوراک تلاش کررہا تھا۔ سونگھنے کی حِس کارگر ہے۔۔۔ اور ماں کا لمس سمندر کنارے لگی کشتی جیسا۔۔۔ نومولود کو دوپٹے میں چھپائے میٹھی میٹھی لوری سنانے پہ آمادہ۔۔۔ مگر ابھی دردِ ذہ کی ٹیسیں اس کے جسم کی باریک باریک نسوں کی آخری حدوں کو چھو رہی تھیں۔ وہ لالاّ ری کے اس ڈوپٹے کی طرح دوہری تہری ہوگئی تھی جسے پھنڈ کے تار پر ڈال دیا گیا ہو۔ مگر مجال ہے رنگ میں رتی برابر بھی فرق آیا ہو۔۔۔ بلکہ ممتا کے رنگ میں لت پت رنگینیاں قوس و قزح کو بھی مات دے رہی تھیں۔ چاند کہتی کبھی تارہ کبھی پھول۔ لگتا یہ تمام نام اس کی اپنائیت بیان کرنے میں ناکافی ہوں۔ میرا لڈو۔ میرا لڈو کہتے سمے ممتا کے من کا رانجھا راضی ہوجاتا۔ گنگناتی خود کلامی نے اس کے گرد میلہ سجا دیا تھا۔ نومولود کا باپ سُنار تھا۔ گندمی رنگت والا خاموش طبع، مدبر سا شوہر۔ امتیاز احمد۔ جس رات عظمی کو تکلیف شروع ہوئی۔ درد کے آتش فشاں کو عظمی کی آنکھوں میں اُبلتے دیکھا درودِ شریف پڑھ کے پھونک مار کر بری الذمہ ہوگیا تھا۔
آج عظمی کا لڈو دُنیا میں اپنی آمد کا پہلا دن گزار چکا تھا مگر باپ نے اسے آنکھ بھر کے نہ دیکھا تھا ماں کے اندر اتھل پتھل جاری تھی کہ وہ کب ماں کے اور بچے کے قریب آئے گا اور اس سے نگاہیں ملا کر ’’اپنے لڈو‘‘ کی سانجھ داری ’’منائے گا۔ امتیاز احمد کو تو ایک چپ لگ گئی تھی مگر عظمی کی ساس ’’حاجرہ بی بی‘‘ کی تو بڑ بڑاہٹ شدت اختیار کرچکی تھی۔ عظمی تو اپنے ’’لڈو‘‘ کے رونق میلے میں مست تھی وہ اپنی ساس اور خاوند کی بیزاریوں کا کیا کرتی۔
آدھی کروٹ لے کر سوتی جاگتی ماں کو بھی بشارت ہوجاتی ہے کہ بچے کو بھوک لگی اور کب اس کا جسم گیلا ہوا۔ لڈو کی خفیف سی جنبش سے اس کی طرف پلٹی۔ گود میں بھرا۔ کمرے سے باہر شور شرابہ۔ جیسے کسی میت کو ہسپتال سے لاکر گھر کے صحن میں رکھ دینے کے مرحلے کا اختتام اور اگلی مصروفیت کی تیاری کا آغاز۔ لڈو چھاتی سے چمٹ کر خوراک کی سیرابی تک نہ پہنچ پایا کہ ایک دیو ہیکل عورت نما مرد ساس اور خاوند کے ہمراہ کمرے میں آن دھمکا۔ چہرے پہ سختی اور نرمی ساتھ ساتھ مگر آنکھوں میں وحشت، ست بسمہ اللہ، ست بسمہ اللہ کہتا بچہ چھیننے سی عظمی کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ’’صدقے جاواں‘‘ہم اپنی امانت لے کر جارہے ہیں۔ عورت نما مرد کے ساتھی کی تالی کی گونج اور ڈھولکی کی تھاپ پر مبارک مبارک کی پکار کیساتھ گہری خاموشی چھا گئی۔
ممتا بستر کے تختے پہ۔ جیسے لکڑ منڈی میں نصب بڑھئی کے آرے سے ایک ہی وار سے دو لخت ہو گئی۔ ایک ٹکرا عوت نما مرد اپنے ہمراہ لے گیا اور دوسرا عظمی کی جان کنی کے تانے میں تن گیا۔ اور لڈو یک لخت ’’نیلی‘‘ بن گیا۔
لاہور دربار اکبر شہید چوک کے قریب چھوٹے سے ڈیرے پہ آج خوب رونق تھی۔ نیلی نے قرآن شریف ختم کرلیا تھا۔ حاجی مہنگا کی طرف سے چائے مٹھائی کا اہتمام بڑے چاؤ سے کیا جارہا تھا۔ حاجی مہنگا لڈو کا سرپرست کمیونٹی کے دوخوش قسمت گرو میں سے ایک تھا جسے حج جیسی مبارک سعادت نصیب ہوئی تھی۔ حاجی مہنگا کے ڈیرے پر 4 عدد چارپائیاں 2 نیم مردہ سے پلنگ ٹوٹے کناروں والا قد آدم آئینہ میک اپ کا سامان جسے جوتوں والے گتے کے ڈبے میں ڈھانپ کر رکھا گیا تھا۔ دیوار پہ ٹنگا ایک ٹی وی کپڑوں والے صندوق۔ 3 عدد چھوٹی اور دو عدد بڑی ڈھولکیاں۔ ٹیپ ریکارڈر اور اس سے جڑے غیر معمولی آواز والے 2 سپیکر ددیوار کی دوسری طرف سرسوں کے تیل کی بوتل۔ خضاب کی شیشاں۔ نئے پرانے 2-4 ریزرز، بلیچ کریم کی ان گنت شیشاں، بالوں اور رنگت کو سنہرا کرنے کیلئے۔ ہائیڈروجن اور ایمونیاکی درمیانے سائز کی بوتل ایک ریک میں ایک دوسرے پہ اوندھی پڑی تھیں!
گرو حاجی مہنگا نے بہت سارے چیلوں کی سرپرستی اور تربیت کی تھی۔ وہ صابر اور بڑے دل والا انسان تھا۔ نیلی کو وہ ’’نیلی چن‘‘ کہہ کر پکارتا۔ جب کبھی اُداسی کے سناٹے دل کی تنہائیوں پر زناٹوں کی طرح رِس پڑتے تو نیلی جھپا مارکر کہتا تو تو میرا ’’نیلی چن‘‘ ہے تیری ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں مجھے سکون دیتی ہے۔ نیلی سے خاص اُنس کی وجہ نیلی کی فطرت تھی۔ اس میں باقی چیلوں جیسی بغاوت کبھی نہ اُبھرتی۔ کسی شادی یا فنکشن میں شرکت کے بلاوے پہ وہ جھٹ سے معمول کے لباس سے ہینگر پہ لٹکے زنانہ زرق۔ برق لباس میں اپنے بے ضرر ابھاروں پہ مصنوعی جامہ چڑھا کر کیل کانٹوں سمیت تیار ہوکر چھن چھن کرنے لگتا۔ نیلی کے مزاج میں بلاکی دلجوئی تھی۔ گرو انہیں سمجھاتا۔ بلو، نرگس، شکیرا، وینا سب کو متوجہ کرکے بتلایا۔ مجمع کو قابو رکھا کرو۔ ہمارا دھندہ یکطرفہ تماشا نہیں۔ تماشائیوں کو تم بھی ایک نظارہ سمجھا کرو۔ پہلے رجھایا کرو۔ پھر گرمایا کرو۔ آخر میں آزمایا کرو۔ چاروں پاسے دھیان رکھا کرو۔ میرے چن تارو، رَل مِل کے رہیا کرو۔ اپنا آپ کنج کے نچیا کرو۔ تے نچایا کرو۔ ٹپہ، ماہیا، گانا، تالی تے اڈّی ورسیا کرو۔ اپنے بچوں جیسے چیلوں کو سمجھاتے سمے اس کا شخصی تدبر لشکارے مارنے لگ جاتا۔ اگلا سبق دیتا۔
پہلا اصول ہے نیت کی سچائی تے ستھرائی۔ مگر تمہاری طاقت تمہاری نظر ہے۔ کانوں میں رس گھول دیا کرو۔ غافل نہ ہونا۔ غفلت مجمع نکھیڑ دیتی ہے۔ پیسہ بہت ظالم چیز ہے۔ ویل سے غافل ہوگئے تو جیب اور ہاتھ کا فاصلہ ہی کتنا ہے؟
مرے مترو۔ ہم نے کونسا دھیاں رانیاں دے دیاہ کرنے نئیں تے جوائی پر چانے نئیں! پیٹ کی آگ ہی تو بجھانی ہے۔ ویل تمہارا انعام ہے۔ فخر سے لیا کرو۔ دُعا دل سے دیا کرو۔ تماشائی نہیں اللہ کی مخلوق سمجھ کر!
نیلی 22 سال کا ہوگیا تھا۔ حاجی مہنگا کی صحت دن بدن بگڑتی جارہی تھی۔ سب کے اصرار کے باوجود ڈاکٹر کے پاس نہ جاتا تھا۔ اس میں بھی کوئی سماجی اٹکل تھی۔ مرد اور عورت تو دھوپ چھاؤں کی طرح ایک دوسرے سے چھپن چھپائی کھیلتے ہی رہتے ہیں۔۔۔ حاجی مہنگا صنف متضاد سے اپنی جنسی بے سرو سامانی کی بھرم بازی۔۔۔ برقرار رکھنا چاہتا تھا۔۔۔ اُسے دارے نہ تھا کہ وہ تلاشی جیسی تشخیص کرواتاہلکی پھلکی دوّا کھاکر بیماری کا مقابلہ کرتا رہتا تھا۔
نرگس کی قیادت میں کامونکی سر کسی پہ فنکشن کرنے گئے تو وہاں پیسوں کی تقسیم پہ جھگڑا ہوگیا۔ حاجی مہنگا نے فیصلہ کیا۔ اب شہر سے باہر کوئی ڈیل نہیں ہوگی۔ بیماری کے باعث نیلی کو اپنے پاس ہی روک لیتا۔ خدمت گزار نیلی اور حاجی مہنگا سردیوں کی شاموں میں تنہا ہونے لگے تھے۔ حاجی مہنگا کی بیماری کے ہاتھوں بوجھل پن کے باعث ان کے ڈیرے پہ رونق میلہ نہ لگتا۔ نرگس حسبِ توفیق انہیں راشن پانی کا خرچہ دے دیتی! نیلی سلنڈر کے چولہے پہ رکھی کالی سیاہ پتیلی کے پانی کے اُبال سے تن من کے اُبالوں کو بھی سہہ رہا تھا۔ جیسے تپتے صحرا میں ننگے پاؤں کا سفر۔ نہ چھاؤں۔ نہ سایہ۔ نہ دیوار۔ بس ایک کاسۂ جاں۔۔۔ ایک زنانہ روپ بھروپ اور تھیا تھیا۔ حالانکہ گرو نے اکیلے میں ران پہ چٹکی کاٹتے ہوئے آنکھ دباکر اسے سمجھایا تھا کہ اللہ کا شکر کیا کر تیرے نسوانی اُبھار تجھے بھوکا نہیں مرنے دیں گے۔ قہوے کا ایک کپ حاجی مہنگا کو تھماکر اپنی چائے لیکر رضائی میں گھس کر سارا دھیان اپنے گرو کی طرف کردیا۔
اپنے لاڈلے چیلے نیلی کی رگ رگ سے واقف گرو بولا نیلی چن نہ سوچا کر۔ یہ بے سروسانی جنس کی ہی ہے۔ اللہ نے ہم سب کو مرد و عورت کے جسمانی ملن سے ہی پیدا کیا۔ وہ مرد اور عورت ہمارے ’’ماپے‘‘ ہی تھے۔ خالق تو ہم سے منکر نہیں! کھویا کھویا نیلی بولا۔ نہ آس نہ اُمید نہ گھر نہ گھاٹ۔ بس زندگی اک تماشا۔
سرد رات خاموشی اوڑھے سورہی تھی مگر دونوں اپنی اپنی جگہ جاگ رہے تھے۔ نیلی چن، حاجی مہنگا اپنے اندر کی ٹوٹتی پھوٹتی تہی داماں کیفیت کو انڈیلتے ہوئے کراہ کر بولا۔
ساندے کے بوہڑ والے چوک کے سجے پاسے پہلی گلی میں مسجد سے تیسرا گھر تیرے ماں باپ کا ہے۔ امتیاز احمد سنیارا تیرا باپ اور عظمی بی بی تیری ماں ہے۔ رات کٹ رہی تھی۔ حاجی مہنگا جس کروٹ سویا۔ اسی کروٹ آخری سانس لیکر دنیا سے اُوجھل ہوگیا۔
حاجی مہنگا کی وفات کے تیسرے دن نہادھوکر سفید رنگ کا مردانہ لباس پہن کر اپنے گرو کا ٹاسے کا سفید اور کالی دھاری دار ٹاسے کا رومال لپیٹ کر ساندے کی گلیوں کی طرف چل پڑا۔ نیلی اسی گھر کے عین دروازے پر کھڑا تھا۔
دروازہ آدھ کھلا تھا۔ آج نہ تو کوئی شادیانہ ناہی تازیانہ۔ ناہی موج میلہ۔ اک سور پہ سلگتی سانسوں کا اک بھانبھڑ دل میں دھڑکن کا حشر برپا۔ ایڑھیوں کی تال اور گھنگھرو کے ارتعاش سے جی چاہا دم بخود ہو کر تڑ تڑ کرتی تالیوں پہ دھمال ہوجاؤں۔ نہ جانے کب اور کیسے اس نے پکار لگائی۔ باجی نیلی آئی۔ باجی نیلی آئی۔ دروازے پہ پردہ سرکا۔ سامنے ایک سفید رنگ کی گھڑی پڑی تھی۔ متحرک سی گھڑی! یقیناًاس کی ماں تھی۔
ایک لڑکی دروازے تک آئی۔ ایک منٹ رکو کہتی ہوئی واپس آئی۔ تو اس کے ہاتھ میں 10 روپے کا نوٹ تھا۔ اجنبی لڑکی کی اجنبی آنکھیں 10 روپے کا نوٹ پکڑاتے سمے نیلی سے ٹکرا گئیں۔ اپنا ہمشکل دیکھ کر چیخیں مارتی سفید گٹھڑی کی طرف لپکی۔ حیرت زدہ پھٹی آنکھوں میں ماضی کے منظر نامے گزر رہے تھے بلک رہی تھی۔ امی لڈو۔۔۔ لڈو۔۔۔ لڈو۔۔۔ اے۔ سفید رنگ کی گٹھڑی بگولہ دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ ایک ہاتھ بلند ہوا ’’اپنی زبان بند رکھو‘‘ ٹھک سے لکڑی کے کواڑ اپنی فطری حالت میں ایک دوسرے میں پیوست ہوگئے۔ نیلی کی آنکھوں سے رواں پانی جیسے۔۔۔ کانچ کے آنسو اس کی رُوح کو زخم کررہے تھے۔ نیلی کی ٹانگیں جیسے دلدلی زمین میں دھنستی چلی گئیں اور ہاتھ میں میں پسیجا ہوا ہرا نوٹ۔۔۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

One comment

  1. Mr Mansoor HAssan

    One of the society Dilema that we not prepare to accept or make arrangements for this important issue. As a Human being, This is very important highlight.

Leave a Reply to Mr Mansoor HAssan Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *