Home » شیرانی رلی » غزل  ۔۔۔ آسناتھ کنول

غزل  ۔۔۔ آسناتھ کنول

کیسی اُفتاد آپڑی دل پر
اب ادھر کے ہیں نہ اُدھر کے ہیں

اپنا کوئی پتہ نہیں ملتا
دل کہاں کا ہے ہم کدھر کے ہیں

کون سمجھائے گا ہمارا کچھ
اُن سے روٹھے ہیں بس جدھر کے ہیں

سلسلہ ربط کا کہاں تک ہے
واقعے ضابطے کدھر کے ہیں

دنیا یہ خامشی نہیں اچھی
تم بتاؤ کہ ہم کدھر کے ہیں

اپنی ہی کھوج بھی ادھوری ہے
کس گلی کے ہیں کس شہر کے ہیں

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *