Home » پوھوزانت » دیمارووک اُلس ۔۔۔ غلام جان شاہوانی

دیمارووک اُلس ۔۔۔ غلام جان شاہوانی

بلوچ نوجوانوں نے حال ہی میں ینگ ڈیموکریٹس ’’دیمار دوک اُلس ‘‘ کے نام سے بلوچوں کے لیے تہذیبی و تمدنی بنیادوں پر پاکستان میں ایک ایسی جمہوری وحدت قائم کرنے کے لیے جس میں کسی بھی فرد کو امتیازی حقوق حاصل نہ ہوں اور جو پاکستان کی دیگر وحدتوں کے حقوق ، مراعات اور اختیارات سے بہرہ مند ہو، ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی ہے۔ ایک تابناک مستقبل ودلکش ودلفریب ساحل اور منور درخشاں منزل کا انتخاب عام طور پر وہی لوگ کیا کرتے ہیں ۔ جن کے ذہن صاف ، جن کی ہمت بلند اور جن کا ارادہ اٹل ہوتا ہے۔ جو سود وزیان سے بے نیاز اور خوف وہراس سے بے پرواہ ہوتے ہیں۔ ان پر نہ تو مصلحت کا سحرا اثر انداز ہوتا ہے اور نہ ہی وقتی حالات کے جادو سے مسحور ہوتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان نوجوانوں نے جن کا تجربہ خام سہی ، جن کی ذہنی پختگی ہر اعتبار سے شک وشبہ کی گنجائش سے بالاتر ہے، یہ قدم اُٹھانے سے قبل اس راہ کی دشواریوں مشکلات اور مصائب پر ہر پہلو سے غور کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا ہے جو بذات خود ان کی جراَت وہمت اور بلندی فکر و نظر کی دلالت کرتی ہے ۔ لہذا ہر اعتبار سے ہم ان نوجوانوں کو قابل صدر مبارک باد قرار دیتے ہوئے اس نیک اور مبارک مقصد میں ان کی کامیابی کی پرخلوص دُعا کرتے ہیں۔
تاریخ کے زرین باب ذہین طبقہ کے چند روشن خیال افراد کی کاوشوں کے مرہونِ منت ہیں، اس لیے ’’ دیمارووک اُلس ‘‘ کے داعیوں کی محدود تعداد کے پیشِ نظر اس تحریک کی اہمیت کو نظر انداز کرنا یا اس کی ہر دلعزیزی کے متعلق غلط انداز سے قائم کرنا ہمارے نزدیک دُرست نہیں۔ کیونکہ فکرو نظر کا یہ نیا زاویہ حُسنِ حقیقت کی وجہ سے اپنی ہمہ گیر افادیت اور زمانے کی ارتقا کی تقاضوں کی بنا پر ہر خاص وعام کو اپنی طرف راغب کرنے کا اعجاز رکھتا ہے۔ اس میں تخیل کا فریب اور تصور کی رنگینی کو دخل نہیں بلکہ اس میں حقیقت کی سادہ کشش کار فرماہے جس سے انکار کی جرات ناممکن نہیں ہے تو مشکل ضرور ہے۔
قبائلی دور ختم ہوچکا ہے ، ریاستی مطلق العنانی آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ ماضی ومستقبل دست بگریباں ہیں۔ روشنی وتاریکی اور شیرینی وتلخی کی حسین آمیزش ہی لاکھوں عوام کے دکھوں کا مداوا، اُن کی اُمیدوں ، آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ۔۔۔ ان کے حسین وجمیل خوابوں کی تعبیر اور ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا پیغام ثابت ہوسکتی ہے۔ اس تشخیص وتجزیہ کے بعد اس کا واحد علاج وراثت میں حاصل کردہ ماضی کی تہذیب وتمدن اور مستقبل کی جمہوری مساوات کو ہمکنار کرنے میں پوشیدہ ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طریقِ علاج اور قبائلی وریاستی دور کے قدرتی خاتمہ کے بعد اجتماعی زندگی کے نئے دور کا آغاز بعض لوگوں سے بھاری قربانیوں کا طلبگار ہے ۔ اگر یہ لوگ دانشمندی کا ثبوت دیں تو اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب ان کی گریز اور فرار کی تمام راہیں مسددد ہوگئی ہوں گی اور لوگ اپنے حقوق چھین لینے پر مجبور ہوگئے ہوں گے ۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ وہ اس وقت اپنے حقوق سے اجتماعی مفاد کی خاطر رضا کارانہ طور پر دست بردار ہوجائیں جسے عام طور لوگ ان کی طرف سے عظیم قربانی تصور کر کے نئے ماحول میں بھی اُنہیں یک بلند مقام بخشنے کی کوشش کریں گے۔ ورنہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کے کسی کار آمد عضو میں بھی ایسا ناسُور پڑجائے جس سے جان کے لالے پڑنے کا احتمال ہوتو وہ اس عضو کو کاٹ پھینکنے میں قطعاً دریغ نہیں کرتا۔ تراشنے اور پرستش کے بعد توڑنے میں بھی انسان بہت کم پس وپیش کرتا ہے۔ اور اسی لیے بلوچ نوجوانوں کی اس جمہوری تحریک کی کامیابی پر ہمیں کامل اعتماد ہے۔
ایک فرسودہ نظام سے جسے ہانکا جارہا ہے ، لوگ غیر مطمئن ہونے کی وجہ سے بے چینی اور پریشانی کا شکار ہیں۔ مایوسی اور بے اعتمادی کا دور دورہ ہے۔ پسماندگی اور اقتصادی بدحالی کی گرفت مضبوط ہے ۔ اکثر لوگ موجودہ نظام میں فوری تبدیلی کی ضرورت کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خود حکومت کے ارباب بست وکشاد بھی اس شدید ضرورت کے احساس سے بے نیاز نہیں اور وہ بھی اپنے طور پر اس مسئلہ کو سلجھانے کی کوشش میں ہمہ تن مصروف ہیں ۔لیکن جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے ۔ اُن سے کسی واضح نصب العین کے تعین کی توقع ہی بیکار ہے۔ اصحاب فکر ورائے یا تو کسی الجھن کی بنا پر کوئی صحیح حل پیش کرنے سے قاصر ہیں یا پھر مصلحت انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ بہر حال نوجوانوں نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دے کر نعرہِ حق بلند کیا ہے جس کی زود یا بدیر ہر طرف تائید و حمایت ضروری ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ ان نوجوانوں کے ذرائع وسائل ، تعداد غرضیکہ ہر چیز محدود ہے ۔ لیکن یہ تمام چیزیں کسی مقصد کو حاصل کرنے کی لوازمات ہوں تو ہوں خود مقصد نہیں ہوسکتے اور جن لوگوں کو مقصد عزیز ہوتا ہے ۔ ان کا یقین محکم، ان کی پیہم جدوجہد اور عزمِ صمیم اخلاص کی رہنمائی میں کوتاہیوں کا ازالہ کر دیتے ہیں اور وہ اپنی بے سرو سامانی کے باوجود ان خوبیوں کی بدولت دن بہ دن منزل مقصود سے قریب تر ہوتے جاتے ہیں۔
اس موقعہ پر ہم ان نوجوانوں کو بھی تنبیہہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اب وہ لوگوں کی راہنمائی کے لیے آگے آگئے ہیں اور اگر اب ان کے پائے استحکام میں لغزش آئی، انہوں نے کوئی ٹھوکر کھائی یا کسی قسم کی کمزوری کا ثبوت دیا تو یہ ان کی طرف سے اپنے مقصد سے غداری کے مترادف ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ وہ کسی کی دل آزادی کیے بغیر مخالفین کے جذبات کو صدمہ اور احساسات کو ٹھیس پہنچانے سے احتراز کر کے اپنے پروگرام کو آگے بڑھا کر مقبول بنانے کی کوشش کریں گے اور مخالفین کا احترام کرتے ہوئے اپنے قول وعمل اور افکار وکردار سے انہیں اپنا ہم خیال بنانے کی سعی کریں گے ۔اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں گے کہ آج کا کٹر مخالف کل کا بہترین ساتھی بن سکتا ہے۔ اُنہیں ہر اعتبار سے نئی روایتیں اور نئی مثالیں قائم کرنی ہیں ۔جس کے لیے فہم وفراست ، عقل وتدبر ، فراخدلی اور بلند حوصلے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے خیال میں یہ نوجوان اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے بے خبر نہیں ہوسکتے۔ اس لیے آخر میں ایک بار پھر ہم ان کی کامیابی کی پُر خلوص دُعا کرتے ہیں۔
نوائے وطن ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *