Home » شیرانی رلی » وصاف باسط

وصاف باسط

دھواں

زمین سے اٹھتا ہوا دھواں
آسمان پر نظم لکھ کر مٹا دیتا ہے
کبھی دل کی بات چھپا کر کھو جاتا ہے

دھواں بلکل اس کی محبوبہ کی طرح ہے
وہ بھی دھواں ہے
اسے دیکھا جاسکتا ہے
محسوس کیا جاسکتا ہے
لیکن یقین نہیں کیا جاسکتا

کبھی دھواں خواب بن جاتا ہے
لیکن خواب بھی در حقیقت، حقیقت سے بہت دور کی چیز ہے
میرے کمرے میں تنہائی کا دھواں ہے
کبھی چیختا ہے کبھی دوست بن جاتا ہے
لیکن میں اسے چھو نہیں سکتا
مجھے خوف ہے میں بھی دھواں ہوں
ایک دن آسمان کی طرف چلا جاؤں گا
اک نظم بن کر………..۔
مٹ جاؤں گا

کوئٹہ کے لیے

دن طے ہیں
وقت مقرر ہے
خون کی نہروں کا راستہ کھول دیا گیا ہے
وقت سے تمام رابطے منقطع ہوگئے ہیں
راہ میں خواب پڑے ہیں
اور آنکھیں….
جو اب دیکھنے کے قابل نہیں
کچھ امیدیں ختم ہوگئیں
کچھ امیدیں باقی ہیں
کوئٹہ میں ایک بار ہر دھماکہ ہوا ہے

ویران آنکھیں

میں اپنا خوف دیکھ سکتا ہوں
اپنی ویران آنکھوں سے
بدن کے اس پار
وجود کے اندر
ایک حسین لڑکی
اور……۔

نہیں میں اپنا خوف نہیں دیکھ سکتا
میری آنکھیں مجھ میں جھانک نہیں سکتی
میری انگلیاں لکھنے سے ڈرتی ہیں
برہنہ حقیقتوں میں
کڑواہٹ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے

میں اس لڑکی سے اپنی ویران آنکھیں بدلنا چاہتا ہوں
تاکہ وہ اپنے اندر جھانک سکے
دیکھ سکے

وہ لڑکی
جو میرے خوف کی علامت ہے
وہ مجھ میں زندہ ہے
سانسیں لے رہی ہے
اور اس قدر نمایاں ہے جیسے کوئی پہاڑ
بہت دور سے بھی دکھ جاتا ہے

اور پھر ایک دن
ہم نے اپنی آنکھیں بدل لیں
اور میری ویران آنکھوں سے اس نے اپنے اندر جھانکا
تو اسے پتہ چلا
میں اس میں مردہ لاش کی مانند برسوں سے پڑا ہوا ہوں

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *