Home » شیرانی رلی » فیض محمد شیخ

فیض محمد شیخ

سیل

خاموشی ہے لیکن نام نہاد خموشی
گھڑی کی سوئی ٹک ٹک کرتے کان کا پردہ پھاڑ رہی ہے
دل کی دھڑکن شور مچا کر ذہن پہ پتھر مار رہی ہے
بے چینی ہے
جسم کے خلیے اک دوجے کو نوچ رہے ہیں
زخم ہیں جن پر مرہم بھی اب زہر لگے ہے
تنہائی ہے
رات اندھیری چھائی ہے
اور آنکھوں سے نیند اڑی ہے
اندر آگ میں جلتا اک مایوس بشر ہے
باہر خواب کی سیل لگی ہے

چہرہِ الفت

نیلی جھیل سی گہری آنکھیں
ان آنکھوں میں خون جما ہے
خواب کسی میت کے جیسے
تیر رہے ہیں پتے بن کر
رخساروں پر جیسے شعلے
دیپ کی صورت دہک رہے ہیں
نرم گلاب سے ہونٹ ہیں جن پر
خاموشی کا قفل پڑا ہے
ہاتھوں میں زنجیر بندھی ہے
پیشانی پر لفظ ”محبت”
کوئی لکھ کر بھول گیا ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *