Home » شیرانی رلی » ڈاکٹر منیر رئیسانی

ڈاکٹر منیر رئیسانی

PARASITE CLASS

بستی بستی نام ہے جن کا
جن کے چرچے قریہ قریہ
جن کے گرد بنے ہیں ہالے
تیز سنہرے رنگوں والے
جن کے پاس ہیں جال نرالے
مقناطیسی دھاگوں والے
جن کے پاس طلسم ہیں ایسے
جو بھی ان کی جانب دیکھے
بس وہ ان کی جانب دیکھے
جو بھی دیکھ وہ یہ بولے
اور نہیں ہیں ان کے جیسے
عزت والے عظمت والے

ایک معمہ ہے سادہ سا
پھر بھی لیکن سمجھ نہ آؤ
جانے کیسے لوگ ہیں لوگو!!۔
کہاں کے ہیں یہ لوگ کہ جن کے
سر پر پگڑی بہت ہی اونچی
پر جن کا لنگوٹ کھلا ہے

ہونے کے خواب

سُنا ہے دور بہت دور بہت فاصلے پر
گھنے اندھیروں کے جنگل کے پار گر جائیں
تو ایک چشمہ ہے ایسا کہ
جس کے پانی کا
بس ایک گھونٹ پیئے جو امر وہ ہوجاؤ

گر اس جہان سے
(جو جھوٹ اور دھوکہ ہے)
چلے بھی جائیں تو کیا ہے
پلٹ کے آئیں گے
نئے بدن میں
نیا نام اور روپ لیے
اگر پلٹ کے نہیں آؤ

اس جہان میں تو
نئے جہان کے دروازے کھلیں گے ہم پر
تمام ذائقوں
سب لذتوں کے ڈھیر لیے
جہاں رہیں گے ہمیشہ کے واسطے ہم لوگ!۔

 

دل کا کیا کیجئے

(توکلی مست سے ماخوذ)

دل ہے
دل کا کیا کیجئے
کرتا ہے بالک ہٹ
دیوانوں سی ضد کرتا ہے
دل کا کیا کیجئے
وادی کے
سب سے اونچے
پربت کی سب سے اونچی
چوٹی اور سب سے دشوار
ڈھلانوں پر
جو پھول کھلے
وہ مانگتا ہے
بیٹوں جیسی ضد کرتا ہے
دل کا کیا کیجئے

دل کا کیا کیجئے
کہ دل ہے

قریۂ غیر آباد

کچھ طویل گلیاں تھیں
جن میں اب بسیرا تھا
ایک ہجر کا جس نے ختم ہی نہیں ہونا
کچھ اداس دیواریں
جن کے زرد چہروں پر
بن کے سرد سناٹے
تھیں لکھی ہوئی باتیں
ان تمام لوگوں کی
جو یہاں پہ رہتے تھے
مختلف زمانوں میں
مختلف مکانوں میں
جو یہاں پہ رہتے تھے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *