Home » شیرانی رلی » افتخار عارف

افتخار عارف

30 October 2018

پیارے دوست شاہ محمدمری!۔
سلام و رحمت
جس زمانے میں ابھی ہم جوانی کی سرحدوں میں تھے جان لینن کا گایا ہوا ایک مقبول انگریزی گاناجان کو آگیا تھا۔مکھڑے کا ایک مصرعہ تھا:۔
” They say, I am a dreamer but I am not the only one” ۔
یہ گیت امن کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک نذرانہ تھا۔ میں جب بھی بہت اداس ہوتا ہوں تو اپنی بے سری آواز میں اس کو گنگنا نے لگتا ہوں۔ پچھتر(75) برس کی عمر میں پیچھے مڑ کے دیکھوں تو مشرق و مغرب کے کتنے ہی خواب دیکھنے والے یاد آتے چلے جاتے ہیں۔ تاریخ کی تو بات ہی کیا کہ ہم تو صدیوں کو پہچانتے بھی انہی آنکھوں کے حوالے سے ہیں جو خوابوں میں شاداب و آباد رہتی تھیں۔ اپنے اطراف ہُوکا عالم ہے ۔ ایسے میں کوئی کلمہِ حق کہتی ہوئی آشنا اور مانوس آواز سنائی دے جائے تو اس کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ ’’سنگت‘‘ ہمارے لیے ایک ایسی ہی آواز کا نام ہے ۔
کئی عشروں پہلے جب میں پاکستان ٹیلی وژن میں کام کرتا تھا ’’کسوٹی‘‘ پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے کوئٹہ آیا کرتا تھا ۔ یادش بخیر یار جانی عطا شادمیزبان ہوتے تھے ۔ سرکاری ملازمتوں میں جُتے ہوئے دوکارندے رات کو ایک دوسرے کے شعرسنتے ،ہنستے ، ہنساتے اور محفل کا اختتام عطا کی غصے میں بھری اور آنسوؤں سے رندھی ہوئی آواز کے ساتھ ہوتا۔ رات گئے عطا نے اپنی ایک نظم سنائی۔ ( یہ نظم بعد میں مکمل صورت میں شائع ہوئی)۔
یہ نظم ختم ہوئی تو ہم دونوں ایک عجیب عالم میں ایک دوسرے سے رخصت ہوئے ۔ رات مجھے نیند نہیں آسکی۔ میں کوئی بہت اچھا شاعر نہیں ہوں مگر عطا کے مصرعے مجھے اندر اندر زخمی کیے جار ہے تھے۔ ایک آواز وجود میں گونجے چلی جارہی تھی ۔ ’’ تم نے پوچھا ، تم نے جانا، تم نے سوچا، تم نے سوچانہ دیکھا نہ جانا‘‘۔ میں اپنے ہوٹل کے کمرے سے نکل کر صبح ہوتے ہوئے جب واپس آیا تو میں نے عطا شاد کے نام ایک نظم لکھی تھی:
وقت بدل گیا ، حالات بدل گئے مگر ایک صورتِ حال ہے کہ بدلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کے کسی بھی شاعر نے اس سے پیشتر اس صورت حال پر اردو میں اظہار خیال کیاہو۔ میں اپنی ملازمت کے عین عروج پر لگا ہوا میلہ چھوڑ کر ٹیلی وژن سے چلا گیا تھا۔لندن میں عطا سے ملاقات ہوئی۔ وہ بدلا ہوا عطا شاد تھا۔ جیسے کسی نے اس کی روح، اس کے قالب سے نکال لی ہو۔ مگر اس کا اضطراب اور بے چینی اب بھی وہی تھی۔ کچھ دنوں بعد وہیں لندن میں زہری صاحب کے فلیٹ میں نواب اکبر بگٹی مرحوم سے ملاقات ہوئی۔ احمد فراز اور شہرت بخاری صاحب بھی ساتھ تھے ۔ عطا کا ذکر رہا۔ پاکستان واپسی ہوئی تو نعمت کی طرح بابا عبداللہ جان جمالدینی سے ملاقات ہوئی ۔ انعام کی صورت تم میسر آئے ۔ ایوب بلوچ ، منیر بادینی ، نعمت اللہ گچکی ، نادر قمبرانی ، مگر پھر ادھر آنا کم کم ہوگیا ۔ ’’سنگت‘‘ نے ملاقات کے سلسلے کو بحال کیا ہے ۔
میں نے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف روایتی مذہبی منظر کے ساتھ ایک نظم لکھی تھی حجر بن عدیٰ کے نام ۔یہ آں حضور ﷺ کے ایک صحابی تھے جنہیں ملکویت کے خلاف آواز اٹھانے پر اور امام علی ابن ابی طالبؓ کا ساتھ دینے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *