Home » شیرانی رلی » افضل مرادؔ 

افضل مرادؔ 

نظم

ایک کمزور بنیاد پر ایستادہ
یہ بوسیدہ دیوار ، جو
اپنے سائے سے محروم ہوتے ہوئے
اپنے نابود ہونے سے بھی
بے خبر۔۔۔!۔
جس کے چار وں طرف
وحشتوں کا نگر
جن کے اعصاب پر
میرے ہونے کا ڈر ۔۔۔!۔

روز آتا ہے وہ
روز اپنا تماشا دکھاتا ہے وہ
میرا صبر وسکوں
چھین جاتا ہے وہ
خستہ دیوار کو
ایک دھکا لگاتا ہے وہ

مجھ کو میرا ہی قاتل بناکر
مجھے
میرا اپنا ہی دشمن بناتا ہے وہ

دست بردار ہونا نہیں دوستو ۔۔۔!۔
اپنے پرکھوں کی اس سر زمین کو
ہمیں اور کھونا نہیں دوستو

آہو ں اور سسکیوں سے ذرا
ہم کو فرصت ملے
آنسوؤں کی لڑی کچھ تھمے

پھر ذرا سوچیں گے
پھر ذرا دیکھیں گے
اپنی تہذیب کو اپنی توفیق کو

آج اک بے کسی
بے بسی ہے تو کیا
تھوڑے بکھرے سے ہیں
تھوڑے بھٹکے سے ہیں
پھر سنور جائیں
ایک دوجے سے باہم چلے آئیں گے
اس زمیں کے لئے ، اس زماں کے لئے

آج برہم ہیں ہم
غم کی تصویر ہیں
جو نہ دیکھے کبھی
ایسے خوابوں کی تعبیر ہیں

اب ذرا فاتحہ خوانیوں
اور نوحوں سے
قبروں سے
تازہ لہو رنگ پھولوں سے فرصت ملے

پھر ذرا سوچیں گے ۔۔۔ اپنے ہونے کو
تازہ لہو سے نئے رنگ کے پھول ہونے کو

اور آتے زمانوں میں
پیاروں کو کھونے پہ
اس سر زمین پر تر ا فخر ہونے پہ

اب تھوڑے دن باقی ہیں

عطا بھائی سے ملتے تھے 

دشمن جاں تیرے اب تھوڑے دن باقی ہیں

عطا بھائی سے ملتے تھے زمین و آسمان کے را ز کھلتے تھے
تمازت برف کی اور چاندنی کی پیاس
خشکابہ کی ترسی گرم زار جاں کا نوحہ
تب سمجھ میں آنے لگتا تھا
عطا بھائی بتاتے تھے
یہ چشمہ جس کے پانی میں غبار آیا ہے
یہ صدیوں پرانے
ان جلے رستوں میں مدفن پتھروں کی راکھ ہے
مگر
یہ تم نہ سمجھو گے
کبھی تم نے شکستہ روپ میں کتابوں کی لکھی
خیموں کی وہ تحریریں دیکھی ہے
کہ
جس میںآگ پانی کی سہیلی ہے
چلے آؤ تمہیں سیلاب میں اب کہ
لب دریا کھڑے لوگوں کا
جا کر گھر بسانا ہے

تمہاری پارسائی سے سر بازار رسوائی تو ہوگی
مگر ہم جان پائیں گے

تمہیں پہچان پائیں گے
یہ حبس بے کراں تھمنے ہی والا ہے
جو خاموشی کو کوہساروں کوتوڑے
او ریہ بہتا ہوا چشمہ
ترے ساکت سے ہونٹوں سے
کسی طوفان سی تحریر سے سبزہ اگا دے گا
صدف چہرہ رخ مہتاب سے انجم مثال
حرفوں کو ایسا دلکشا رنگوں میں بنا دے گا
عطا بھائی بتاتے تھے
محبت کی بدن کی ایک جیسی ہی کہانی ہے
جوقرب گرم سے انگا ر جاں
نظر کی آشنائی دے کے جائے گا
طلب زار عرض طلب کو لیے اس خیمہ جان سے
ملنے کو آئیں گے
اگرچہ تمہاری یوں عمر کا ارمان رہ جائے
میرے بولان پر اک حسن کا احسان رہ جائے
مشک کی پہچان رہ جائے

بیاباں کی ہوا خوشبو کا اک پیغام بن جائے
گھٹازلفوں کی جاگے
تیری تصویر بن جائے
میرے بولان کی خوابوں کی
اک تعبیر بن جائے
نئی تصویر بن جائے
عطا بھائی بتاتے تھے ۔۔۔!!!۔

یہ خاکِ دشت ہے آب آشنا
شفق کے رنگ سورج کی ضیاء
یہ سارے نقش قرنوں کی کہانی
وفا تاب زمانہ ہے
ہوا باسی نہیں ہوتی

تیری خواہش کی خوشبو میں صدا باسی نہیں ہوتی
ہوا باسی نہیں ہوتی
عطا بھائی بتاتے تھے ۔۔۔!!!۔
ہمیں سنگاب کے رستے
سجاتے تھے ۔۔۔!!!۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *