شعلوں کو خواب سونپ کے پہچانتے ہیں لوگ
امید گر کِسے یہاں گردانتے ہیں لوگ
شہرِ سخن دریدہ، ذرا سا خیال کر
لہجے کے زہر سے تجھے اب جانتے ہیں لوگ
اپنی مثال دے کر وہ سمجھا گیا مجھے
بستی کو دشت جان کے کیوں چھانتے ہیں لوگ
بیٹھا ہے شاخِ جاں پہ سراپائے خوش کے ساتھ
اک طائرِ خیال جسے مانتے ہیں لوگ
وہ جن کو جان پائے نہ،ہم عمر بھر منیر
نہ جانے کس طرح سے انہیں جانتے ہیں لوگ