Home » پوھوزانت » ۔1992کا ہمارا اداریہ 

۔1992کا ہمارا اداریہ 

کرم خان ایمبولینس
(اُس کا ابھی 2018میں انتقال ہوگیا)

یہ حقیقت ہے کہ آج بھی فلسفی اور دانشور اس بحث کا کوئی نتیجہ نہیں نکال سکے کہ آخر انسان اس دنیا میں کیوں آیا ، اور دنیا میں ایک بار آ کر وہ کیا کام کرے۔ اسی بحث نے سارے مذاہب ، فلسفہ ہائے حیات اور نظریات کو جنم دیا ۔ اور تقریباً سارے مقبول نظریات نے خدمت الناس کو افضل الاشغال قرار دے کر اپنے پروگرام کا اہم ترین حصہ بنا دیا ۔
کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسان اپنی زندگی میں دو اہم فریضے ادا کر سکتا ہے: ایک تو یہ کہ وہ انسانی نسل کو بڑھائے تا کہ اس دنیا میں یہ نسل ختم نہ ہو ۔ دوسرا اہم کام یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا میں موجود انسانوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرے ، ان کی مشکلات کم کر دے اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں اور راحتیں پیدا کرے ۔
انسانوں کی اکثریت کی خدمت ہر مذہب اور ہر فلسفے کا مرکز ثقل رہی ہے ۔ ہر معاشی ، تاریخی دور اپنے اپنے حالات کے مطابق بہت سے مصلحوں ‘ ہمدردوں اور نکو کاروں کی تخلیق کرتا رہا جو خدمت انساں کے جذبے سے سرشار تھے ۔
مولانا عبدالستار ایدھی ہمارے ملک میں نیکی اور اچھائی کی پہچان ہیں۔ وہ کراچی میں رہتے ہیں ۔ کراچی ترقی یافتہ صنعتی شہر ہے ۔ یہ شہر مکمل طور پر بیگانگی ، ہنگامہ ، ہاؤ ہو اور نفا نفسی کا عکس ہے۔ اس ماحول میں مولانا عبدالستار ایدھی جنم لیتے ہیں اور انسانوں کی خدمت کے مشن پر لگ جاتے ہیں ۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے عوام کی کسی بھی سیاستدان سے زیادہ خدمت کی ہے ۔ وہ سماجی کارکن ہیں ۔ ضرور تمندوں کی امداد کرتے ہیں ۔ حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں۔ اس کام میں وہ خود کو وقف کر چکے ہیں ۔ کراچی کے پر ہول شہر میں ایدھی ہر گھر اور ہر گھرانے کے مونس و غمخوار ہیں ۔
دوسری جانب قبائلی معاشرہ بہت پسماندہ ، غیر ترقی یافتہ اور سفاک معاشرہ ہوتا ہے ۔ اپنی ساخت کے اعتبار سے بہت سادہ ۔ اس کے نظریات و عقائد بہت زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی ہر عمل کے پیچھے الفاظ کا بڑا ذخیرہ پہرے دیتا ہے ۔
ہمارے قبائل میں بھی ایک ایدھی موجود ہے ۔۔۔۔ کرم خان سالارانی ۔ وہ ستر سال کا سادہ لوح معمر شخص ہے ۔ اس کی سفید لمبی داڑھی اس کے مسکراتے چہرے پرخوب سجتی ہے ۔ وہ ماوند کے علاقے کارہنے والا ہے ۔ اس کے دو بیٹے ہیں ۔ ذریعہ پیداواربارانی علاقے کی کاشت کاری ہے ۔
وہ گذشتہ بیس پچیس برس سے مستقل طور پر کوئٹہ سبی ، ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے ہسپتالوں میں دیکھا جاتا ہے ۔ وہ ان ہسپتالوں کے ماہر ڈاکٹروں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے ۔ ایک ایک وارڈ کی معلومات اُسے حاصل ہیں ۔ وہ ہر مریض کے بارے میں یہ ادراک بھی رکھتا ہے کہ اس کا علاج کہاں اور کس ڈاکٹر کے پاس ہو سکتا ہے۔ کونسا ڈاکٹر شفیق ہے ، اچھا ہے اور کونسا ڈاکٹر مہنگاہے ۔
پہاڑوں میں رہنے والے قبائلیوں کے مسائل بھی انوکھے ہوتے ہیں۔ ایک مسئلہ شہر جانے کا بھی ہے ۔ کسی قبائلی کو شہر جانے کا کہا جائے تو اس کی جان نکل جاتی ہے۔ اس کی آزاد ، سادہ اور مختصر سی دنیا کے برعکس شہریت ہنگامہ خیز ، بہت تیزرفتار ، آلودگی سے پُراور بہت پیچیدہ ہوتا ہے ۔ وہ اس کی بھول بھلیوں میں خود کو بہت محبوس اور بے بس سمجھتا ہے ۔ شہر کی سڑکوں ، گلیوں میں مقامات کھو جاتے ہیں ۔ اس کے خیالات منتشر ہو جاتے ہیں ۔ شہر کی بولیاں اس کی بلوچی کو پچھاڑ دیتی ہیں ۔وہاں کامختصر لباس اس کی پگڑی اور کھلی ڈلی قمیص شلوار کا مذاق اڑاتا ہے ۔ شہر کی ٹریفک اس کی گردن کی اکڑ کو نکال پھینکتی ہے۔ ہوٹلوں کی ربڑ نما روٹی اس کی بھوک کو یکسرمٹا ڈالتی ہے ۔ شہر میں کمروں کی بھر مار اس کی سمتیں گم کرتی ہے۔ پہاڑ کی عدم موجودگی کے باعث وہ اپنے قبلے کا تعین نہیں کر سکتا۔ گھڑے کا پانی اس کی پیاس بجھانے کی بجائے کئی گناہ بڑ ھاتا ہے ۔
لہٰذا اس کے نزدیک شہر گندی جگہ ہوتا ہے ۔ شہر کے مکیں گندگی میں پلتے برھتے ہیں ۔اسی لیے تو اس کی بد دعاؤں میں سے بڑی بد دعا یہ ہوتی ہے کہ ’’جاؤ تمہیں خدا شہر میں گلائے سڑائے ‘‘ ۔
قبائلی لوگ شہر کی ہر چیز کو برا سمجھتے ہیں ۔ وہاں کی مصنوعات کو ملاوٹ بھرا گردانتے ہیں ۔ وہاں کی روایت کو حقیر اور کمتر سمجھتے ہیں اور ہر ہلکے پن کو بازاری پن کہنا روز مرہ کا لفظ بن چکا ہے ۔ اس قبائلی فلسفے کو قبائلی سردار خوب استعمال کرتا ہے تا کہ شہر سے علم و ادب اور سماجی معاشی ترقی کا کوئی تازہ جھونکا اس کی جاہ و جلال کو پریشان نہ کر سکے ۔
مگر زند گانی کے حقائق موضوعی خواہشات کی تابعداری کہاں کرتے ہیں ۔ چلتی پھرتی ، متحرک انسانیت ، جمود کو کہاں بخشتی ہے ۔ کاروبارِ حیات رکاوٹ کے تصور کے خلاف ہوتا ہے ۔ لہٰذا معاشی و معاشرتی ترقی رواں دواں رہتی ہے ۔ اس روانی کے لئے ‘وہ مراکز بناتی چلی جاتی ہے ۔ جنہیں شہر کہتے ہیں ۔ یہ مراکز یا شہر مضافات پہ پلتے بھی ہیں اور جواباً مضافات کو پالتے بھی ہیں ۔ شہر بہت ہی غیر محسوس طریقے سے بندھن کا ایک جال بُن لیتے ہیں اور نہ چاہنے کے باوجود لوگ وہاں جاتے بھی ہیں اور اپنی ضروریات کی برآوری کرتے ہیں ۔ ہسپتال اس جال کا ایک تار ہوتا ہے ۔ جہاں ہرقبائلی شہر اور شہریت سے اپنی بھر پور نفرت کے باوجود اپنے پیاروں کی بیماریوں کا علاج کرانے چلا آتا ہے ۔
کرم خان ہر ضرورتمند مریض کے ساتھ ہوتا ہے ۔ وہ شہر کی بھول بھلیوں میں سے مریض اور اس کے لواحقین کو بحفاظت ہسپتال تک پہنچاتا ہے ۔ متعلقہ ڈاکٹر کی او پی ڈی کی حشر سامانیوں سے گزر کر ڈاکٹر تک رسائی حاصل کرتا ہے اور مریض کو داخل کرتا ہے ۔ وہ وارڈ میں مریض کا بہترین خدمتگار ہے ۔ ایک باپ کی طرح ، ایک بھائی کی مانند ۔ لواحقین بے شک آرام فرما رہے ہوں یا بازار میں’’ نظارے ‘‘کررہے ہوں ۔ کرم سالارانی ہسپتال میں مریض کے بستر کے پاس ہو گا ، اس کی خدمت کر رہا ہو گا۔ کوئی نہیں جان سکتا کہ وہ مریض کا سگا بھائی ہے یا محض ایک سماجی کارکن ۔ مریض کے اپنے لواحقین بے شک بازار میں کڑھائی گوشت تناول فرما رہے ہوں مگر کرم خان ہسپتال ہی کے کھانے پر اکتفا کرتا ہے ۔ مریض کی خدمت اس کی نماز بھی ہے ، اس کی تلاوت بھی ۔ اگر اپنا مریض قدرے بہتر ہے تو وارڈ میں دیگر ضرورتمند مریضوں کی دیکھ بھال کرے گا ۔ کرم خان عملاً ایک چست اور ہمدرد وارڈ بوائے کا روپ دھار لیتا ہے ۔ ایک مسکراتا ، نہ تھکنے والا اور بوڑھا وارڈ بوائے ۔
مریض شہر میں تیمار داری کے علاوہ اور بھی خدمت چاہتے ہیں ۔ ’’ایمبولینس‘‘ ایک اچھا گائیڈ بھی ہے ۔ اسے پتہ ہے کہ ملیشیا یا حلوان کا کپڑا کہاں سستا بکتا ہے ۔ اچھا نڑ (نے) کہاں ملتا ہے ۔ پشم کا خریدار کہاں بیٹھتا ہے ، پائیدار اور سستے جوتے کہاں ملتے ہیں ۔ وہ واقف کار ہے ‘ بولی جانتا ہے اور مول تول کر سکتا ہے ۔ وہ یہ خدمات بھی بغیر کسی صلہ یامعاوضہ کے نذر کر دیتا ہے ۔
وہ جب علاقے میں ہوتا ہے تو ضرورتمند آسانی کے ساتھ اس تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔ جو بھی حاجت مند آئے کرم خان اپنی سفید چائے جوش میں اس کے لئے چائے کی تین پیالیاں لیے اس کا استقبال کرتا ہے ۔ حال احوال کرتا ہے ، مرض کی نوعیت سنتا ہے اور فیصلہ کن انداز میں ہسپتال منتخب کرتا ہے ۔ اپنے گھر جاتا ہے ، دھلے ہوئے کپڑوں کا جوڑا اٹھاتا ہے ، اپنی چادر جھٹک کر کندھے پر ڈال دیتا ہے ، زاد راہ کے لئے اپنے تڑے مڑے نوٹ جیب میں اڑس لیتا ہے اور راہبری اور خدمت گزاری کی غرض سے اسی منتخب شہر کی طرف مریض کے ساتھ ہو لیتا ہے ۔
وہ اپنے پرائے کی تمیز نہیں کر تا ۔وہ ہر مریض کا ایمبولینس ہے ۔ ایمبولینس اب عوام الناس کی طرف سے اس کے نام کا حصہ بن چکا ہے ۔ اب کرم خان کے نام سے اسے کوئی نہیں جانتا۔ ’’ ایمبولینس ‘‘ نے ’’ خان ‘‘ کی جگہ لے لی ، اور’’ کرم ایمبولینس‘‘ یا صرف’’ ایمبولینس‘‘ لوگوں میں مانوس نام بن گیا ۔ لوگوں کو کسی اور شخصیت کا پتہ ہو یا نہ ہو ، یہ پتہ ہوتا ہے کہ ایمبولینس گھر میں ہے یا کسی ہسپتال میں ۔ وہ لوگوں کی ضرورت بن گیا ہے ۔ اس کی تیاری کے وقت آس پاس کے بیمار لوگ بھی تیار ہوتے ہیں اور’’ اجتماعِ مریضان ‘‘ کا ایمبولینس بن کر ان کا علاج کرواتا ہے ۔ وہ علاقے کا وی آئی پی ہے ۔
کرم ایمبولینس کوئی معاوضہ نہیں لیتا ۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ دیتا ہے ۔ بس خدا کی رضا کے لئے کرتا ہوں ۔ مگر وہ کوئی رومانٹک شخصیت بھی نہیں ہے کہ اگر واپسی پر صحت یاب مریض نے اس کے کپڑے نئے کرنے چاہے یا نئی چپل لے دینے کی خواہش کی ، یا بچوں کے لئے گڑ چائے خریدنے کے لئے دس ، پچاس روپے تھما دیئے تو وہ مصنوعی طریقے سے انکار کرتا رہے۔ نہیں، نہیں۔ وہ تو بے ساختگی کا مجسم نمونہ ہے ۔ بالکل وہ لے لے گا۔ شرط یہ ہے کہ آپ اسے خود سے علیحدہ نہ سمجھیں ۔ ایمبولینس کو نام و نمود سے نفرت ہے (اس طرح تو اس کا ثواب کم ہو گا) ۔ وہ اجتماع اور جرگوں سے دور بھاگتا ہے ۔ وہ ایک درویش ہے ۔ وہ قبائل کا ایدھی ہے ۔ مگر کسے معلوم کہ اس ایدھی کی جمع کردہ کھالیں کب چھین لی جاتی ہیں ، کب اس کی داڑھی نوچ لی جاتی ہے ، کب اس کی تذلیل ہو گی۔ کہ ہم غیر منتخب حاکموں کو تو قبول کر سکتے ہیں ، ڈاکو اور قاتل کو ہیرو تو قرار دے سکتے ہیں مگر کسی ایدھی ، کسی ایمبولینس کو ہم برداشت نہیں کر سکتے ۔ اور جب پچھلے دنوں ہمارے معاشرے کے افتخار ، اچھائی و سچائی کے مینار اور انسان کے سب سے بڑے غمخوار مولانا ستار ایدھی کی جمع کردہ کھالیں چھین لی گئیں ، ان کی بے عزتی کی گئی تو پی ایچ ڈی اوں کے شہر کراچی (جو بلوچستان کی آبادی سے چار گنابڑا ہے ) میں نہ اس کے لئے جلوس نکلا ، نہ جلسے ہوئے ، نہ بھوک ہڑتال اور نہ مذمت ہوئی ۔۔ اخلاقی انحطاط کی یہ پست ترین سطح ہے جو ہمارے موجودہ معاشی سیاسی نظام کے بحران کی عمیق ترین سطح کی نشانی ہے ۔ ایدھی اور ایمبولینس ہماری ساری سماجی برائیوں کا پردہ ہیں ۔ ایسے لوگ ہمارے کریہہ جسم کے خوبصورت چہرے ہیں ، ہمارے اعمال صالح ہیں ۔
ہمارا یہ اداریہ مولانا ایدھی کی بے عزتی کرنے والوں سے انتہائی نفرت کا اظہار بھی ہے اور ایمبولینس کے لئے نیک تمناؤں کی دعا بھی ، کہ وہ ہمارے وحشی اور ہلاکت انگیز قبائلی نظام میں انسان دوستی اور جذبہِ ہمدردی کا روشن مشعل ہے ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *