Home » پوھوزانت » سائنس اور ادب۔۔۔۔۔۔۔عمران اختر

سائنس اور ادب۔۔۔۔۔۔۔عمران اختر

سائنس اور ادب ہماری زندگی میں رابطے کا مشترکہ تصور پیش کرتے ہیں جبکہ سائنس اور ادب کے یہ مشترکہ تصورات ہماری زندگی کو نئے معنی اور مفاہیم بہم پہنچانے کا سبب بھی بن رہے ہےں۔ اس ضمن میں یہ اقتباس ملاحظہ ہو: تجربہ ، جذبات اور رحجانات سے بنتا ہے۔ جذبات ہی وہ محرک ہےں جو جسمانی تبدیلیوں میں بازگشت کے ساتھ ردِ عمل کے طو رپر پیدا ہوتے ہیں جبکہ رحجانات و محرکات ہیں جو ایک قسم یا دوسرے قسم کے طرزِ عمل کے جواب یا ردِ عمل کی مدد سے پیدا ہوتے ہیں۔
ہر ادیب اور سائنسدان کی ذہنی سطح اپنے اپنے فکری ماحول میں پروان چڑھتی ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہیجانات اور اضطراری کیفیات کے سوا کیا سائنسی تصور کائنات کا انسانی جذبات سے کوئی سنگم ہے؟۔ جذبات ہر ذی شعور شخص کی زندگی میں بنیادی محرکات کا درجہ رکھتے ہیں۔ حالانکہ انسان خود آگاہی اور تفکر پسندی کی جبلت لےے اس دنیا میں آیا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ پُر تجسس(Inquisitive) بھی ہے۔ احساسات، روےے اور زندگی میں در آنے والے واقعات انسانی شعور کو متاثر کرتے ہیں۔ ہماری معاشرتی ضروریات بسا اوقات ہماری فکر پر حاوی ہوجاتی ہیںتو چاہے ادیب ہو یا سائنسدان وہ اس فکری خلفشار میں ادب یا سائنس کے میدان میں اپنی فکر کے دائمی اظہار و ابلاغ میں کچھ پریشان سا نظر آتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس کی فکر و ادراک کے دھارے ایسی کشمکش میں اس کے لےے فکر کے نئے راستے کھولنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ سائنٹیفک اور جذباتی بیان و عمل میں تفاوت ہوتا ہے۔ سائنس ” سچائی“کو تجربہ گاہ میں جانچنا چاہتی ہے جبکہ ادب اس کو رویوں اور افکار کی روشنی میں دیکھنے کا خواہاں ہے۔ فرضی اور خیالی دنیا میں تخیل خود آپ اپنی دنیا پیدا کرتا ہے۔ غیر حقیقی باتیں(Fiction) ادیب اور سائنسدان دونوں کے فکری رویوں میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ ”سچائی “اور ”سائنسی سچائی“ دونوں میں خاصا فرق ہے مگر دونوں اپنے اپنے افکار و نظریات کی ذیل میں درست معنی رکھتے ہیں جبکہ روےے اور عوامل ادیب اور سائنسدانوں کو اپنے اپنے فکری اور منطقی رشتے میں باندھے ہوئے ہیں ۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
یہ ضروری ہے کہ بیماری کی صحیح تشخیص ہو ۔ عام طور پر سائنس کی نام نہاد ’ مادیت ‘ کو الزام دیا جاتا ہے ۔ یہ غلطی ایک حد تک بھونڈی بے ہنگم فکر کی وجہ سے ہے لیکن خاص طور پر جادوئی نظرےے کی یادگاروں میں سے ایک ہے کیونکہ اگر کائنات کو پورے طور پر ’ رومانی‘ سمجھا جائے تو یہ بات اسے انسانی رویوں کے مطابق نہیں بناتی۔ یہ نہیں کہ کائنات کن چیزوں کا مرکب ہے بلکہ یہ کہ وہ کیسے کام کرتی ہے؟ ۔وہ کونسا قانون ہے جس کی وہ پابندی کرتی ہے ؟ ۔یہ چیزیں جو علم کو ہمارے جذبات ابھارنے سے قاصر کردیتی ہیں اور پھر بذات خود علم کی نوعیت بھی اسے ناکافی بنا دیتی ہے۔
موجودہ صدی میں جدلیات اور Noumena نے انسان کو سائنسی فکر اور استقرائی طریق پر سوچنے پر مجبور کردیا ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ مادیت کی جانب پیش قدمی نے انسان کو داخلی ارتقا اور اپنی ذات کو بیگانگی کے بھنور سے نکالنے کی راہ کو بھی ہموار کیا ہے ۔ ادب اور سائنس زندگی کا ایسا حسین امتزاج ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہمیں اپنی زندگی کی تمام تر مشکلات کو اپنے فکر اور فہم و ادراک سے حل کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے ۔ مادیت زندگی گزارنے کے لےے ہمارے اندازِ فکر کو مادی حوالوں سے پرکھنے کا نام ہے جبکہ مادیت پسندی کو بورژوا طبقہ فکر نے معیوب شکل دے رکھی ہے حالانکہ اس مادیت پسندی میں فلسفیانہ اور عملی پہلودونوں ہمیں حقیقت پسندی کی جانب لے جاتے ہیں۔ یہاں پر انسان حقیقت کی آنکھ سے تصویر کے دونوں پہلوﺅں پر غور و فکر کرتا ہے ۔ گویا ادب اور سائنس ہماری فکری کینوس پر ایک مکمل تصویر مکمل سچائی کے ساتھ پیش کرنے کا نام ہے ۔جیسے جیسے جدید علوم کی جانب ارتقا کا عمل وقوع پذیر ہورہا ہے ویسے ویسے ادب اور سائنس اپنے اپنے فکری میلانات میں وسعت پیدا کرتے جارہے ہےں۔ سائنسی طرزِ فکر ایک انسان اور معاشرے کو سراب (ILLUSION) سے نکال کر متحارب اور مستحکم قوت عطا کرتی ہے جبکہ مادی جدلیات اور انسانی فکر و فہم معاشرہ کے لےے زندگی کے بنیادی اسباب پیدا کرنے کا موجب بھی ہے ۔ تصورِ کائنات ایک بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور تمام تر کائنات عقل، وجدان اور تخیل کا سہارا لے کر تخلیقی عمل جیسے کٹھن مرحلے سے گزرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ سائنس میں حواس فکر کے دائرے کو زندگی عطا کرتے ہیں۔ الغرض تخلیقی عمل چاہے ایک ادیب کی فکر کا عکاس ہو یا سائنسدان کے سائنسی تصورات کا ، مترادف سمتوں میں سفر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں یہ اقتباس ادیب اور سائنسدان کو معاشرتی مسائل اور ان کے حل کی ذیل میں سوچنے پر مجبور کرتا دکھائی دیتا ہے :
“The Enlightenment a period in the eighteenth century when many writers and scientists believed that science and knowledge, could improve peoples lives”.
سائنسی طرزِ فکر نے فلسفہ کی افادیت کو کم کرنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی بھی علم اپنے افادی پہلوﺅں پر ہی کھڑا ہوتا ہے ۔ سگمنڈ فرایڈ نے علم نفسیات اور سائنسی فکر و فلسفہ کو ہم معنی قرار دیا ہے جبکہ جدید فلسفہ نے قدیم فلسفہ کے آفاقی پہلوﺅں کو نئے اسلوب و معنی بھی عطا کےے ہیں ۔ ان مفکروں میں آئن سٹائن اور گلیلیو سرفہرست ہیں۔ گلیلیو نے سائنسی فکر و شعور کی بناءپر نظام شمسی سے متعلق قدیم فلسفیانہ فکر کے تمام بُرج الٹ کررکھ دئیے اور بطلےموسی عقائد کا خاتمہ کردیا ۔ قدیم یونانی فلسفے کے افادی پہلوﺅں میں ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ اس فلسفہ نے تمام قدیم مذاہب کو فکری ہم آہنگی کا راستہ دکھایا ہے۔ سو فسطائی طبقہ فکر کے معلمین کے بارے میں پانچویں صدی میں تحریک عقلیت ‘ یونانی فکر و فلسفہ کو بہترین صورت میں ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ الغرض ادب اور سائنس تاریخی و تہذیبی تناظرات اور روابط و اشتراکات کا ایک ایسا حسین امتزاج ہمارے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں جہاں جسم اور روح باہم مربوط و منظم دکھائی دیتے ہیں۔ سائنس اور ادب کے باہمی اشتراک اور نقطہ آغاز و اختتام کی ذےل میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی لکھتے ہیں کہ :
” سائنس نے اپنی آخری حدود کی جھلک بھی نہیں دیکھی ہے۔ یہ منزل ایک نئے سفر کا نقطہ آغاز ، ہر دریافت ایک نئے تجسس کی نقیب اور ہر تحقیق ایک نئے مسئلے کو جنم دے رہی ہے“۔
سائنسی روےے کی طرح ہمارا ادبی مزاج بھی کائنات میں بکھرے ہوئے تلخ و شیریں حقائق اور واقعات ِ زمانہ کو فطری رنگ میں پیش کرنے کا بنیادی فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ انسانی جبلت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ آزاد ہو اور فکر بذات خود بھی لگے بندھے اصولوں کے ماتحت کام نہیں کرسکتی ۔ الغرض فکر، سائنسی یا غیر سائنسی طرزِ عمل کے اظہار کا نام نہیں بلکہ زندگی میں درپیش مسائل ، حوادث اور مسرتوں سے متعلق آگہی و شعور کا نام ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
” سائنس علم ہونے کی وجہ سے فلسفے کا ہی ایک حصہ تھا ۔ چنانچہ سائنس کے باقاعدہ الگ سے علم کے تعین سے بہت پہلے فلسفے نے جو طریقے حصول ِ علم کے دریافت کےے تھے وہی طریقے سائنس پر بھی لاگو تھے …….. اس لےے سائنس میں تجربے کو بنیاد قرار دینے کے باوجود منطق کا راستہ بھی ترک نہیں کیا جاسکتا“۔
سائنس و ادب کے باہمی اشتراک کے حوالے سے چند ایک کتابیں بھی ادبی چاشنی بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ سائنسی زرخیزی کی ذیل میں بھی خصوصی اہمیت کی حامل رہی ہیں ۔ اس ضمن میں یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
” ادبی تصنیفات نے بلاشبہ قارئین پر اثرات مرتب کےے ہیں ۔ دلیل دی جاسکتی ہے کہ گوئٹے کا ناول’ نوجوان و رتھر کے دکھ ‘، اس لےے بااثر تھا کیونکہ اس نے متعدد نوجوانوں کو خودکشی پر مائل کیا۔ یہی حال میخائل آرتسی باشیف کے ناول ‘Sanin’ کا تھا …….. بہر حال تخیلاتی ادب کے مصنف خود بھی مخصوص قسم کے پیش روﺅں کے زیرِ اثر ہوتے ہیں…….. اس قسم کے پیش روﺅں …….. جیسے افلاطون اور ارسطو اور پھر ہیوم اور کانٹ…….. نے اپنا ذاتی نقطہ¿ نظر بیان کرنے کی بجائے اس دنیا کا تعین کرنے کی کوشش کی جس میں ہم زندہ ہیں“۔
ہر سائنسدان بنیادی طور پر سائنس سے متعلق ہی شعور و آگہی رکھتا ہے تاہم ادیب کے ہاں بھی سائنسی فکرکے دائرے محدود پیمانے پر ہی سہی مگر موجود ہوسکتے ہیں۔ انسان نے ہمیشہ کائنات میں بکھرے ہوئے حقائق کو بیان کرنا اور ان حقائق کی روشنی میں فکر کے زاویوں کو مربوط صورت میں پیش کرنے کو ہی سائنس تصور کیا۔ حالانکہ سائنس کائنات میں بکھرے پوشیدہ حقائق کے مشاہدے، تجربات اور نظرےے کے ایک مربوط نظام کا نام ہے ۔ اس ذیل میں یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
” سائنسی رویہ ایک حد تک انسان کے لےے غیر فطری ہوتا ہے اور اپنے مخصوص میدان سے باہر ہماری بیشتر آراWishful Filment کا نتیجہ ہوتی ہےں ۔ تجربے اور مشاہدے سے برٹرینڈرسل کی یہ رائے بھی بالکل درست ثابت ہوجاتی ہے کہ تقریباً سبھی سائنسدان اپنے مخصوص میدان سے باہر عموماً نہ تو سائنسی طریقہ کار اپناتے ہیں اور نہ ہی سائنسی روےے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی آراء میں اس تقلید ِ محض کی کار فرمائی ہوتی ہے جسے وہ اپنے مخصوص میدان تحقیق میں کبھی راہ نہیں دیتے۔ رسل نے اس صورتحال کو فطری قرار دیا اور کہا کہ انسان کو زندگی بھی تو کرنا ہے اور کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ان تمام عقائد کو عقل و استدلال سے پرکھے جو ہمارے رویوں کا تعین کرتے ہیں“۔
تخیل اور شعور دو مختلف قوتیں ہیں جو انسانی جبلت اور فطرت کے رنگ میں اپنا اپنا اظہار مختلف طریقوں سے کرتی دکھائی دیتی ہےں۔ تاہم صرف یہ کہنا کہ تخیل صرف شاعرانہ طرزِ عمل کے اظہار کا نام ہے سراسر غلط ہوگا۔ تخیل سائنسی فکر کے دیگر پہلوﺅں میں سے ایک پہلو ہے جبکہ فکر کو فلسفی سے منسوب کرنے کا مقصد محض فکر کو محدود کرنے کے مترادف ہوگا ۔ اس ذیل میں یہ اقتباس اپنی بُنت میں ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے:
” ادب میں تحریک بدستورموجود ہے …….. اور اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ادب پر جمود طاری ہے ، اگرچہ واقعہ صرف یہ ہے کہ ہم ہنگامے سے یک لخت خاموشی میں آگئے ہیں اور اسی لےے ہمیں یہ خاموشی بڑی طویل ، شدید اور بے پایاں محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ اگر ہم ہمہ تن گوش ہوکر سُنیں تو ہمیں صاف معلوم ہوجائے گا کہ اس خاموشی کی بھی اپنی چند آوازیں ہیں ، اور ہم ہزار کوشش پر بھی اس سے انکار نہیں کرسکتے“۔
سائنس اور ادب اپنے تخیل کے الگ الگ جہان رکھنے کے باوجود کائنات کی شہ رگ میں خود کی طرح دوراں ہیں اور جہاں کہیں ان دونوں میں تفریق کا سوال اٹھتا ہے تو اپنے موجود ہونے کی گواہی خود زبانِ حال سے یوں بیان کرتے ہیں :
” جس طرح کائنات اور زندگی کی دو سطحیں ہیں…….. ایک انتشار، تفریق، الجھاﺅ اور بے ترتیبی کی سطح اور دوسری ایک داخلی تنظیم، توازن اور یکتا کی سطح …….. بالکل اسی طرح حُسن کی بھی دو صورتیں ہیں…….. ایک لکیروں، لہروں، رنگوں وغیرہ کی صورت میں جو خارجی مظاہر میںمتشکل ہوتی ہے اور دوسری ان لکیروں ، لہروں اور رنگوں کے امتزاج سے ابھری ہوئی ایک لطیف سی نورانی صورت جو گویا حسن کو اپنے آغوش میں لےے ہوتی ہے…….. اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حُسن اپنے اراضی خدوخال کے علاوہ ایک لطیف سی روحانی اور جمالیاتی پر تو کو بھی جنم دیتا ہے ۔ تاہم یہ تو اس دل اور اس آنکھ تک ہی پوری طور پر منتقل ہوتا ہے جس میں اس کا خیر مقدم کرنے کی صلاحیت اور سکت ہوتی ہے۔
سائنسی شعور ادب کی زندگی میں بھی آہستہ آہستہ دخیل ہوتا جارہا ہے ۔ شعور انسان کے Objective طرزِ فکر کو معنی عطا کرتا ہے جبکہ مکمل طور پر Objective طرزِ عمل بھی ہمارے معروض کی دنیا کو دھند لا کر دینے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ سائنس ہی ہے جو حقائق کو تجربات کی بنیاد پر پرکھنے کے سارے عمل کو کنٹرول کےے ہوئے ہے۔ یہ اقتباس اسی سائنسی طرزِ فکر کی جانب ایک خفیف سا اشارہ بہم پہنچاتاہے :
” گو مختلف اوقات میں بعض اور دبستانوں کو بھی سائنٹیفک قرار دیا جارہا ہے ۔ لیکن اِس ضمن میں تجزیاتی تنقید(Analytical Criticism) اور استقرائی تنقید(Inductive) زیادہ اہم ہےں، اور ہر دبستان کے امام نے بھی اپنے اپنے طریقہ کو سائنٹیفک قرار دیتے ہوئے اپنی تنقید کو ’ سائنسی تنقید ‘ سے موسوم کیا “۔
معاشرہ اور اس کے افراد بہم مل کر کائنات کو روشن کرنے میں ہمہ وقت محو ہیں۔ انفرادی طور پر ہر انسان کے اعمال اس کی فطرت کے طابع ہوتے ہوتے ہیں جبکہ تجسس و تحیر انسانی فطرت میں یکسوئی کے ساتھ اپنا کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں جہاں خواہشات جزوی حیثیت رکھتی ہیں۔
ہم جس سائنسی دور میں سانس لے رہے ہےں وہاں قدم قدم پر سائنسی ایجادات ہمارے فکر کے نئے نئے زاوےے جبکہ ہمارے ادبی رجحانات وقت کے ساتھ ساتھ نت نئے تخلیقی جہان پیدا کرتے جارہے ہےں۔ الغرض ادب اور سائنس کے بیچ جو خلیج حائل تھی اب وہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہے اور شاید وہ وقت دور نہیں جب ادب کو سائنس کی زبان میں اور سا ئنس کو ادبی لب و لہجہ میں لکھا اور پڑھا جانے لگے گا۔

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *