Home » حال حوال » سنگت پوہ زانت  ۔۔۔ رپورٹ: ذاکر قادرؔ 

سنگت پوہ زانت  ۔۔۔ رپورٹ: ذاکر قادرؔ 

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ پوہ زانت نشست کا انعقادمارچ کے آخری اتوار ساڑے گیارہ بجے پروفیشنل اکیڈمی میں ہوا ۔جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر بیرم غوری نے کی۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض جناب ڈاکٹر عطاء اﷲ بزنجو نے انجام دیئے۔ابتداء میں سنگت اکیڈمی کی مرکزی کمیٹی ممبر عابدہ رحمان کی والدہ ،کامریڈ جام ساقی ،سٹیفن ہاکنگ اور پروفیسر فضل حق میر کے لیے دعا کی گئی جو حال میں ہمارا ساتھ چھوڑ گئے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز ساحر کے ان اشعار سے کیا گیا۔

میرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں ، مفلسوں کو ، بے کسوں کو ، بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو ، تڑپتے نوجوانوں کو

ڈاکٹر عطاء اﷲ بزنجو نے کا مریڈ جام ساقی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’کامریڈ ساقی کی سیاسی جدوجہد ، محنت کش طبقے کی تاریخ میں ایک بے مثال مقام اور قابل احترام حوالے کی حامل ہے ۔ اس کی قربانیاں ، سیاسی و جمہوری جدوجہد ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ تھرپارکر کے اس عظیم بیٹے نے سخت اور کٹھن قید تنہائی میں اپنی زندگی کے بیشتر برس گزار دئیے لیکن کبھی جابر کے سامنے سر خم تسلیم نہیں کیا۔”
پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کلچر پالیسی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ’’کلچر سے مراد افزائش حسن نہیں نہ کہ یہ ایک الگ شعبہ ہے بلکہ یہ رہن سہن کا نام ہے۔ کلچر سارے جانوروں میں سے صرف انسان کا خاصا ہے ہر کلچر میں ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو بین الاقوامی بھی ہیں۔ اس وقت دریافت کیا ہوا سب سے قدیم کلچر مہر گڑھ کا ہے۔ یوں ہمیں بلوچ کلچر کے گیارہ ہزار سال کی تاریخ معلوم ہے۔ کلچر ایک زندہ جاندار کی طرح ہروقت بدلتا رہتا ہے۔ بلوچ ہر قوم کی طرح اپنے کلچر کا بھوکا ہے جس کے لیے سب سے اہم ’’زبان‘‘ ہے اور عورت کے لیے قابل احترام مقام۔ صوبے اپنے عوام کے کلچر کو روان رکھنے کی پالیسی بنالیں‘‘۔
شیام کمار نے غوث بخش بزنجو کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’وہ بلوچستان کی ٹاورنگ پر سنالٹی ‘‘ تھے جنہوں نے اپنی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ لوگ مرتے نہیں ہمیشہ زندہ ہیں۔ جام ساقی ہم میں زندہ ہے۔ اگر ہم جام کی طرح ہیں تو ہم جام ہیں۔ ‘‘
پروفیسر جاوید اختر نے سنگت ایجوکیشن ڈرافٹ کے حوالے سے ایک مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے کہا ’’سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے تعلیمی پس ماندگی کے حوالے سے یکم مئی 2016میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس کمیٹی نے مختلف اجلاس کے بعد سنگت ایجوکیشن پالیسی کا مسودہ تیار کیا جسے سنگت کی جنرل باڈی اور مرکزی کمیٹی نے منظور کیا۔ اور ترامیم کے بعد حتمی شکل دے دی جسے بذریعہ ای میل سنگت کے تمام ارکان کو پیش کیا جائے گا‘‘۔
عابد میر نے سنگت پبلی کیشن کی کارکردگی پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے حاضرین مجلس کو سنگت کی طرف سے تازہ شائع ہونے والے کتب اور کتاب ’’بلوچستان کی ادبی تحریک ‘‘ کا تعارف پیش کیا۔ جس میں بلوچستان میں 1920ء کی روشن فکر ادب سے لیکر 1949ء کی پراگریسورائٹرز ایسوسی ایشن ، 1950ء کی بلوچی زبان و ادبی دیوان اور 1997ء میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز کا ذکر ہے۔ اور یہ سنگت کے ہر رکن سے خصوصاً مطالعہ کا تقاضا کرتی ہے۔
عبداﷲ شوہاز نے البرٹ کامیو کے ناول A Happy Death کا ترجمہ ’’مرگ ئے وشی‘‘ کے نا م سے کیا ہے۔ انہوں نے اس ترجمے کے پس منظر پہ مختصر گفتگو کی اور ذاکر قادر نے بلوچی صحافت سے متعلق اپنی تحقیق کے بارے میں بتایا۔
ڈاکٹر منیر رئیسانی نے اپنی غزلیں اور ایک نظم سنائی اور حاضرین مجلس سے داد سمیٹا۔ ڈاکٹر عطاء اﷲ بزنجو نے جوان مرگ شاعر دانیال طریرؔ کے یہ اشعار سُنا کر سامعین کے دلوں میں ان کی گزشتہ یادوں کو تازہ کیا۔

یہ سب لکھے ہوئے اور اق رکھ کر چل پڑوں گا میں
ترے خس خانے میں خاشاک رکھ کر چل پڑوں گا میں

اور اس طرح دانیال طریرؔ کے نوجوان بھائی بلال اسودؔ کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے اشعار سنائے۔
زاہد دشتی نے ’’وت واجہی‘‘ کے عنوان سے بلوچی نظم پیش کیا ۔ نوجوان شعراء وصاف باسط، رضوان فاخر، جمال بشیر اور فاضل بشیر نے اپنے اشعار سنائے اور حاضرین کو محظوظ کیا۔

وہ انگلیوں سے ستارے زمیں پہ پینٹ کرے
کنارے بیٹھ کے میں اس کا یہ ہنر دیکھوں
وصاف باسطؔ

میں کوئی قرض ہوں کاندھوں پہ وقت کے شاید
کہ لمحہ لمحہ مسلسل چُکا رہا ہے مجھے
رضوان فاخرؔ

ڈاکٹر بیرم غوری نے آخر میں صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا’’ہم آج کے اس نشست میں پڑھی گئی توانا شاعری سنی ،کلچر پالیسی کے حوالے سے ڈاکٹر (شاہ محمد مری کامقالہ ، اور بہت کچھ۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک بہت ہی اچھی نشست رہی۔ اس نشست میں کراچی سے آئی ہوئی مہمان پروین ناز اور کافی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی۔اور آخر میں وحید زہیر نے مندرجہ ذیل قرار داد یں پیش کیں۔

1۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کا یہ پوہ زانت اجلاس سٹیفن ہاکنگ کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتا ہے اور اس کی موت کو سائنس کے بہت بڑے نقصان سے تعبیر کرتا ہے۔ نیز اس عظیم سائنس دان کی بنی نوع انسان کے لیے گراں قدر سائنسی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔
2۔ یہ اجلاس جام ساقی کی وفات کو پاکستان کی سیاست ، مزدور تحریک اور انقلابی طبقاتی جدوجہد کے لیے ایک سانحہ قرار دیتا ہے۔ جام ساقی کی نصف صدی سے زائد سیاسی ، جمہوری ، طبقاتی اور نقلابی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔
3۔ یہ اجلاس محترمہ عابدہ رحمان کی والدہ ماجدہ کی وفات پر دکھ کا اظہار کرتا ہے۔
4۔ یہ اجلاس ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے۔ اس کا کوئی جنگی اور فوجی حل نہیں ہے۔
5۔ یہ اجلاس ملک میں بڑھتی ہوئی ہوش ربا مہنگائی کی شدید مزمت کرتا ہے۔
6۔ یہ اجلاس ہر سال کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے طلباء و طالبات کے لیے روزگار کے بند دروازے دیکھ کر سخت مایوسی اور تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ اور اسے حکومت کی نااہلی اور ناکامی سے تعبیر کرتا ہے۔ نیز مطالبہ کرتا ہے کہ ان پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے روزگار کو یقینی بنایا جائے اور اس کی ضمانت دی جائے۔

Spread the love

Check Also

سنگت پوہ زانت ۔۔۔ جمیل بزدار

سنگت اکیڈمی آف سائنسزکوئٹہ کی  پوہ زانت نشست 25 ستمبر 2022 کو صبح  گیارہ بجے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *