ناچتے ناچتے محبوب کی چھب چاہتا ہے
عشق بازار میں مٹنے کا سبب چاہتا ہے
چیخ آنکھوں سے نکل آئی ہے لاوا بن کر
ہجر پھر گریہ کوئی آخرِ شب چاہتا ہے
میں تجلی سے تیری طور ہوئی جاتی ہوں
اور غضب یہ ہے کہ تو اور غضب چاہتا ہے
اْس کی خواہش ہی نہیں کوئی مجھے چھونے کی
چاہتا وصل ہے ،پر وصل عجب چاہتا ہے
دل کوئی محل بنا لیتا ہے صحراؤں میں
اور پھراس کے مضافات میں سب چاہتا ہے
دل میں آنے کی اجازت تو وہ دیتا ہے مگر
فاصلہ چاہتا ہے حدِ ادب چاہتا ہے
پہلے ہوتی ہے پرکھ سوز کی دنیا سے پرے
پھر اترتی ہے وہ انجیل جو رب چاہتا ہے