Home » پوھوزانت » محمد ابراہیم جویو  ۔۔۔ ڈاکٹرشاہ محمد مری

محمد ابراہیم جویو  ۔۔۔ ڈاکٹرشاہ محمد مری

مسٹر ’’بورڈ‘‘
۔31اگست 1915- 9.نومبر 2017

آج لکھوں گا، کل لکھوں گا۔۔۔ اور پھرمیں نے چند صفحے لکھ بھی دیے تھے۔ مگر ایک فضول عادت کہ ذرااورمفصل لکھوں گا، ذرا اِ س تحریر کو اوراچھا کروں گا۔ اور یہی بکواس عادت کی چاکری سالوں تک جاری رہی جب بالآخر جویو صاحب کا انتقال ہوگیا ۔ مضمون میرا منہ چڑانے موجود ہے۔
استاد ابراہیم جو یو تیسرا چوتھا شخص تھاجسے پتہ تھا کہ میں اُس پر لکھ رہا ہوں۔ مگر میں اپنے یہ دو ،چار صفحے اُسے نہ دکھاسکا۔مجھے اب بھی اندازہ ہے کہ میری اُکھڑی تحریر پڑھ کر اُس نے شام کو مجھے ضرور فون کر لینا تھا ۔ وہ اپنی بوڑھی آواز میں سندھی زبان کے اندراپنی انکساری ،مگر میری تحریر کی زبردست تعریف کرتا۔اُس میں حوصلہ افزائی کی خصوصیت، اپنے بارے میں انکساری سے دوتین گنا زیادہ تھی۔ اور ایسا وہ ایمانداری سے کرتا تھا، جھوٹ موٹ کی تعریفیں نہیں کرتا تھا۔ وہ اِس انداز سے آپ کی حوصلہ افزائی کرتا کہ غیر محسوس طور پر آپ کی خامیاں کوتاہیاں بیان بھی کرجاتا اور اُن کو درست کرنے کی راہیں بھی بتاجاتا۔ ایک دوست کی مانند۔آپ کا دل مزید کام کرنے کو چاہتا ۔ کاش میں یہ مضمون اُسے زندگی میں پڑھواتا۔
اُسے جب اندازہ ہوجاتا کہ سندھی کی اُس کی بات میری سندھی دانی سے بڑھ کر ہورہی ہے تووہ ایک دم اردو بولنے لگ جاتا ۔اُس کی انگلش تو بس سننے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہی جو پرانے انڈیا سے پڑھ کر آنے والوں کی ہوتی ہے۔ وہ جو سردار خان گشکوری کی ہوتی تھی، جو سو بھو گیا نچندانڑیں کی ہوئی تھی۔
جویو صاحب کو میں نے اُس وقت دیکھا جب وہ اب باقاعدہ بڑھاپے کی عمر میں تھا۔ لاغر، نحیف اور ذرا سا چھو ٹے قد کا آدمی ۔ لیکن میں نے اس کی جوانی میں بھی اس کے رستم وسہراب ہونے کا ذکر کہیں نہیں پڑھا۔اس کی جسمانی ساخت ہی یہی تھی۔
وہ بہت میٹھا اور خوش گفتار آدمی تھا ۔ ایک بزرگ کی سی شفقت سے لبریز ، دھیما انداز اور مسلسل وپیہم گفتگو۔
اُس سے گفتگو کرتے وقت ضرورت صرف اس بات کی ہوتی تھی کہ آپ بات کا سرا اپنے پاس ہی رکھیں۔ سوسال کی عمر کے انسان کا دماغ تو یادوں کانا مختتم میگا ہارڈ ڈسک ہوتا ہے۔ ایک بات چھڑتی ہے تو بیچ میں سوسو یادیں مداخلت کرتی جاتی ہیں۔ مگر استاد جویو ایسا بزرگ تھا جو یادوں یادداشتوں کی سواری میں بہت زیادہ دور نہیں بھٹکتا تھا ۔ اپنے موضوع سے ایک آدھ بار ہی، اور ایک آدھ میل ہی ہٹ جاتا۔ مگر فوراًہی غیر محسوس طور پر موڑ کا ٹ کر واپس موضوع پہ آجاتا ۔
ہندوستان بالعموم ،مگر سندھ بالخصوص اُس کا پسندیدہ موضوع ہوا کرتا تھا۔ تاریخ ثقافت، ادب، لسانیات، سماج جس موضوع پہ چاہو وہ بولتا جاتا۔
وہ اس بات کا خاص خیال رکھتا کہ اُس کی گفتگو یک طرفہ نہ ہو۔ وہ آپ کو ساتھ لے کر آگے بڑھتا جاتا۔
’’اندازاً ایک سال میںٍ بلوچی زبان میں کتنی کتابیں شائع ہوتی ہیں؟‘‘ ۔ اس نے دس بارہ برس قبل مجھ سے پوچھا تھا۔
میں نے ذرا سا سوچا اورمحتاط اندازہ کر کے کہا: ’’تیس یا چالیس‘‘ ۔
اُس نے مجھے حیران کردینے والی بات بتائی۔’’میں کوالٹی کی بات نہیں کررہا لیکن بہت محفوظ صورت میں کہہ سکتا ہوں کہ سندھی زبان میں اوسطاً روزانہ ایک کتاب چھپتی ہے‘‘
پہلی بار مجھے یوسف سندھی نے اُس سے ملوایا تھا۔ حیدر آباد کے ایک دو مزید چکر لگے تو اُس کی صحافیوں والی آبادی میں اُس کے ہاں حاضری دیتارہا۔ پھر تو ٹیلیفون ہی ملنے کا ذریعہ رہا۔ کچھ کسر سنگت رسالہ پوری کرتا رہا۔
جویو صاحب میرا رسالہ اِس سرے سے لے کر اُس سرے تک سارا پڑھتا تھا۔ اُسے اِس کی ہر بات سے دلچسپی تھی۔ اور اُس کی حوصلہ افزائی کرنے کی خصلت نہایت عمدہ ہوتی تھی۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ اُس نے کبھی کسی مضمون یا بات سے اختلاف کیا ہو یا اُسے برا کہا ہو۔ وہ خلیل صدیقی اور عبداللہ جان جمالدینی کی طرح بہت دھیرے سے بہت دور سے موڑ کاٹ کاٹ کر میری کلاس لیتا تھا ۔ اور یوں کوئی دکھ،تا سف اور پشیمانی پیدا کیے بغیروہ ہماری اصلاح کرتا تھا۔ اس کے ٹیلفون کالز کی رسی نے مجھے انسانی فلاح کے اشرف کاز کے ساتھ باندھے رکھنے میں بڑی مدد کی۔
صرف میں ہی کیا استاد جویوتو ایک ایسا روشن چراغ تھاجس کی روشنی سے جی ایم سید ،شیخ ایاز ،رسول بخش پلیجو ، سراج ، اور فاضل راہو سے لے کرنمیران نذیر عباسی تک، سندھ کے سارے سیاسی ادبی اور سماجی لوگ علم و دانش کے دانے چگتے رہے ۔وہ سندھی زبان و ادب ، ثقافت و سیاست اور عمومی طور پر روشن فکری کا امام المدرسین تھا۔ہم صرف سندھی میں جدید ترقی پسند ادب میں ایک راہبر کے حوالے سے اُس کی یہ توصیف نہیں کررہے بلکہ ایک سکول ٹیچرکی حیثیت سے بھی، جہاں وہ عمر بھر دماغوں کی آبیاری کرتا رہا۔جو یو صاحب نے سندھی ادب کو بے شمار جھلملاتے دمکتے ستارے عطا کیے ہیں۔
استاد جویو دراصل ضلع دادو کا فرزند ،میاں محمد ابراہیم کا بیٹا ،سندھ مدرستہ الاسلام ، ڈی جے کالج اور بمبئی یونیورسٹی کی اولاد تھا۔
اُس کے بچپن کی یادیں دلچسپ تھیں۔جویو صاحب کا دادا نمازی پرہیز گار دیہات کا سچا شہری انسان تھا۔ وہ خود کہتا تھا کہ اس کا دادافجر کے وقت اٹھ کر ذکر کرتا تھا،اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا اور نعتیں پڑھتا تھا جو مجھے بہت بھاتی تھیں اور میں دل ہی دل میں کہتا تھا کہ میرے دادا کو کس نے اتنے دکھ دیے ہیں کہ وہ اس قدر فریاد کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ جب بھی میں پڑھنے جاتا یا امتحان میں کامیاب ہوکر آتا تو مجھے وہ پیر نظر محمد کے پاس دعا کے لیے لے جاتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ محنت میں کروں، پڑھائے استاد اور دعا پیر کی، یہ بھلا کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔۔‘‘میٹھا ابراہیم جویو!!
آٹھ جماعتیں پڑھیں تو جی ایم سید نے اُسے کراچی کے سندھ مدرسہ میں داخل کرایا ۔ سکالر شپ بھی ملی لہذا وہ والدین پہ کوئی بوجھ ڈالے بغیر یکسوئی سے تعلیم کو سمیٹنے کا واحد کام کرتا رہا۔ وہ یہ کام وہاں چار برس تک کرتا رہا۔ میٹرک اچھے نمبروں سے کرلیا۔
ایک بار پھر جی ایم سید مدد کو آیا۔اُس نے اُسے تعلیم ختم کرنے نہ دی اور ڈی جے کالج کراچی میں داخل کر اکے دم لیا۔ جی ایم سید تیرا شکریہ :اس لیے بھی کہ تُوابراہیم جو یو کے کام آیااور اس لیے بھی کہ تُوسو بھو گیان چندانڑیں کا محسن ہے۔
یہاں کالج میں جویو کا ذہن مزید کھلا۔ مزید کتابیں ،مزید موضوعات ، مزید بحث مباحثے ، سمینار وکانفرنسیں اس کی دوست بنیں ۔ فلسفہ ،تاریخ ، ادب جو یو صاحب علم کے انباراپنے کندھوں پہ اٹھائے 1938میں ڈی جے کالج سے نکلا۔ اعزازی نمبروں کے ساتھ اب بی اے کی ڈگری اُس کے سینے کا تمغہ بن چکی تھی۔
زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ اُسے اُس کے اپنے سکول ، سندھ مدرسہ میں اسسٹنٹ ٹیچر کی ملازمت آفر ہوئی۔ جویو صاحب نے قبول کی۔ ٹیچنگ تو اُس کے مزاج کا پیشہ تھی۔
جویو صاحب بہت مطالعہ کا آدمی رہا ۔ بالخصوص جب اسے سکول میں ملازمت ملی چنانچہ تو اُس نے ’’ٹیچرز لائبریری ‘‘میں خوب کتابیں پڑھیں۔ اس نے دوبرس تک اسسٹنٹ ٹیچری کی ۔ قوانین کے تحت سکول نے اُسے 1940میں بیچلر آف ٹیچنگ (بی ٹی) کرنے بمبئی بھیجا ۔ یہ دو سالہ کورس ہوتا تھا ۔ سارا خرچہ سکول پہ تھا۔
وہاں بمبئی میں پڑھائی کے دوران ’’تھنکرز لائبریری‘‘ میں اچھی خاصی کتب بینی کی ۔ اُس کی نظر میں کتاب سے اچھا کوئی دوست نہیں ہے۔( اب اگر آپ بُک لور ہیں اورہیومن لور اور لائف لور نہ بن جائیں تو ایسا تو ممکن نہیں نا !)۔ جویو صاحب کو کتابوں سے عشق تھا ۔ انسانوں سے عشق تھا ، زندگی سے عشق تھا۔
اُسے وہاں ایم این رائے کو پڑھنے کا موقع ملا۔اُسے وہ اچھا لگا، اُس نے اسے خوب پڑھا ، اُس کے لیکچر اٹنڈ کیے۔ایم این رائے سے بھر پور طور پر متاثر اس کمیونسٹ و نیشنلسٹ کو، کام کا نشہ لگا ۔ اس کے بغیر وہ رہ نہیں سکتا۔(1)کام نے اُس اوائل جوانی میں ایم این رائے کی کتاب Historical Role of Islam کا سندھی میں ترجمہ کیا تھا۔
جویو صاحب اسی روایت ورفتار سے اچھے نمبروں میں بی ٹی بھی کر گیا۔ چنانچہ واپسی پر اُسے اب اسسٹنٹ کے بجائے باقاعدہ ٹیچر بنایا گیا ۔ فُل فلیجڈ ٹیچر۔مارکسسٹ ٹیچر۔
جو یو صاحب نے روشن خیال نظریے اور سندھی زبان کی بہت خاموشی سے (شاید سب سے زیادہ) خدمت کی ہے۔ اس نے سندھی ادیبوں کی کھیپ کی کھیپ تیار کیے ۔
اُسے سندھ، سندھی زبان اور سندھی ادب سے محبت رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ برتاؤ میں مزید میٹھا بنتا رہا اور اپنے عقائد میں زیادہ پختہ ہوتا گیا۔یوں اس نے پوری زندگی تھونپی گئی ریاستی فرقہ وارارانہ فکر کے خلاف جدوجہد کی ۔
ہمارے ہاں جو حالت آج سیاسی ورکر کی ہے وہ تو قابلِ ترس ہے۔ لیڈروں نے ٹانگے کے آگے بندھے گھوڑے کی طرح اپنے ورکروں کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ جنہیں یک سمتی بصارت ہی میسر ہے۔ اب و ہ سارے حقائق دیکھنے کے قابل نہیں رہنے دیا گیا۔
مثلاً سندھ کے سیاسی ورکر کو دیکھیے۔ سندھ پرست اور سندھی پرست ہونے میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے ۔ ہمارا آج کا سیاسی ورکر فاشزم کی حد تک نیشنلزم کی سرحدوں کی پر ستش تو کر رہا ہوتا ہے مگر اُن سرحدوں کے بیچ رہنے والے انسانوں کو ثانوی حیثیت دیے بیٹھا ہے ، اِس لیے کہ اُس کے بھوتار (مالک) کی یہی خواہش ہوتی ہے۔ایک ایسے ماحول میں تو وہ شخص کمال کرتا ہے جواِ ن ’’دونوں‘‘ کو ساتھ ساتھ رکھتا ہو۔ استاد جویو اپنی نفیس عادتوں ، نفس کشیوں اور ریاضتوں کے طفیل اِن دونوں خوش بختیوں کا اہل بنا۔ اس نے یہ نتیجہ بھی اخذکر کیا کہ یہ دونوں صفات ایک شخص میں آہی نہیں سکتیں اگر سوشلزم نامی، جوڑنے والا مصالحہ موجود نہ ہو۔ لہذا جویو صاحب اِن تینوں کو حیرت انگیز طور پر دل وجان سے عزیز اور یکجا رکھتا تھا۔
جویو ہمیشہ بے زمین کسانوں، مزدوروں اور محنت کرنے والے طبقے کا طرفدار دانشور رہا۔ اسے ہمہ وقت یہ فکر پریشان کرتی تھی کہ اِن طبقات کو باعزت مقام کیوں کر ملے گا۔
انگریز جانے کی تیاری کررہا تھا کہ ’’ سیو سندھ، سیودی کانٹی نینٹ ‘‘ نامی اس کی کتاب چھپی۔ اُس کے سرو رق پر سندھ کا نقشہ بنا ہوا تھا جہاں ایک موٹی تازی گائے کی تصویر بنی ہے جہاں پگڑیاں پہنے مہاجن دودھ دوھ کر بھری ہوئی بالٹیاں ایک طرف کرکے جنوب مشرق میں ہندوستان کی طرف بھاگے جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک قطار پنجاب کے طرّے والوں کی اس گائے کو دوہنے کے لئے چلی آرہی ہے۔ اس کتاب کا یہ پیراگراف پڑھیں تو جویو صاحب کی پوری شخصیت سمجھ میں آجائے گی:
’’ جب سماج خود کو ایک ایسے طریقے سے منظم کرنا شروع کردے کہ جہاں صرف باطل ہی انعام پائے، اور صرف برائی ہی بڑھتی رہے، تو پھر سچ اور نیکی کو لازماً زیرِ زمین جانا ہوتا ہے، میدان باطل کی بڑھوتری اور شر کے خوشحال ہونے کے لئے چھوڑنا ہوتا ہے۔ ایسا سماج بدی اور شیطانی رویوں کے سوا کچھ نہ ہوگا جہاں لوگ اسی کو اپنائیں گے اور اسی کی نقل کریں گے۔ ایسے موقعوں پر ایک نئی سیاست ، عوامی سیاست لازمی ہوجاتی ہے جو کہ بالائی طبقات کی سیاست سے الٹ ہو، تاکہ بدی اور نا انصافی کی رسی جس نے سماج کا گلا دبا رکھا ہے، ڈھیلی پڑ جائے۔ اور اس کی جگہ خیر ،نیکی اور انصاف کی قطعی حاکمیت لاگو ہو۔ میں عوام کی طرف سے کرنے والی اس طرح کی ایک عوامی سیاست کی وکالت کرتا ہوں‘‘(2)
اس کا یہی ایک پیراگراف اُسے ہماری مُرشدی کے لیے کو الیفائی کرتا ہے۔ اس او لین تحریر میں جویو صاحب کی فکر کی کونپلیں نظر آئیں گی۔ یہیں پہ سندھ کے طبقاتی سماج کا تذکرہ موجود ہے۔
ظاہر ہے حکمران طبقات اس کتاب سے سخت ناراض ہوگئے اوریوں جویو صاحب کو سندھ مدرستہ الاسلام میں استاد کی ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔اوراس برطرفی کے خلاف طلبا کی ہڑتال ہوئی۔چنانچہ اُس کی کتاب کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔خود جویو صاحب بھی سندھ کے کونے میں دانشور اور سیاستدان کے بطور مشہور ہوا ۔اب کے ہاری کانفرنس اُس کی جائے جدوجہد تھی۔
اسی زمانے میں اس کے ایک استاد کی مدد سے اس کا کہیں رشتہ طے ہوگیا اور جویو صاحب نے شادی کرلی ۔ مگر اس کی بیوی ایک بیٹا پیدا کرنے کے بعد ٹی بی کی بیماری میں فوت ہوگئی۔
کچھ عرصہ بعد اس نے مرحومہ کی چھوٹی بہن سے شادی کی۔بچے کی تربیت پرورش کا مسئلہ بھی حل ہوگیا ۔ دونوں میاں بیوی ٹھٹھہ بس گئے جہاں دونوں سکول ٹیچر ی کرتے تھے۔
اِس سکول کا نام تھا: ٹھٹھہ میونسپل ہائی سکول ۔ جویو صاحب یہاں صدر مدرس تھا۔ جویو صاحب دوسال یہاں رہا جس کے بعداس کا حیدر آباد تبادلہ ہوا۔
وہ یہیں حیدرآباد رہا ۔ اس نے 1951میں پبلک سروس کمیشن کے توسط سے سندھی ادبی بورڈ میں سیکریٹری کی حیثیت سے جوائن کرلیا۔ یہ سندھی زبان وادب کی ترقی وترویج کا ادارہ تھا۔ استادیہاں دس سال تک رہا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس محنتی اور انسان دوست شخص نے کتنے بڑے اورنابغہِ روز گار ادیبوں شاعروں دانشوروں کے ساتھ کام کیا اور کتنے نئے ستارے بنائے ۔ادیب ساز ادیب، شاعر ساز جویو!۔
اس درمیان 1957میں بورڈ کے سیکریٹری کی حیثیت سے وہ ایسے ہی ادارے دیکھنے اور سیکھنے امریکہ بھیجا گیا۔ایک دوسال ٹرانسفر وغیرہ کے بعد دوبارہ وہ بورڈ ہی میں رہا ۔ سمجھو ریٹائرمنٹ تک ، سمجھو موت تک۔ اور ہم تصور کرسکتے ہیں کہ اس نے کتنی کتابیں لکھیں ، ترجمہ کیں، ترجمہ کروائیں ۔ کتنے عالم لوگوں کو عالم وادیب بنایا اور کتنے عالموں ادیبوں کو اپنی ٹیم میں شامل کیا۔ جی ایم سید نے اس کا نام رکھ دیا: ’’بورڈ‘‘۔
وہ 1973میں ریٹائر ہوگیا۔مگر ادیب و محقق و سکالر واستاد کبھی ریٹائر نہیں ہوتاناں!۔ خود مجھے اس ’’ریٹائرڈ ‘‘آدمی ہی نے اُستاد بن کر بہت کچھ سکھایا ، پڑھایا۔
جویو صاحب بہت ہی ملنسارآدمی تھا۔ انکسار والا انسان۔بولنے کی طرح لکھنے میں بھی وہ بہت تفصیل سے ، بہت دھیمے انداز میں اور بہت ہی معلمانہ انداز میں سمجھاتا۔
البتہ سمجھاتا استحصالی نظام کے خلاف نفرت تھا۔ وہ فیوڈلزم کے خلاف جنگ سکھاتا تھا۔ وہ محبت بھرا آدمی طبقاتی اور قومی جبر کے خلاف اٹھ کر کھڑا ہونے کا درس دیتا تھا ۔ عوام کو منظم ہونے کا کہتا تھا۔ انہیں باشعور ہونے کی تلقین کرتا تھااور اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کرنے کی راہ دکھاتا تھا۔
اس کی انگریزی اتنی ہی اچھی تھی جتنی سندھی ۔میں نے’’شاہ،سچل اور سامی‘‘ کے عنوان سے اس کا ایک سٹیٹ آف آرٹ لیکچر سنا تھا۔ وہ دو گھنٹے تک بغیر کسی نوٹس کے فی البدیہہ بولتا رہا۔ استاد ، ایسی انگلش میں بولتا رہا جو بہت ہی مرصع تھی، رواں مسلسل اور پُر معنی تھی۔ یہ شخص علم کا دریا تھا اور خواہ انگلش ہوتی یا سندھی وہ مخاطب کے ذہن کو سیراب کرتا جاتا۔
اسی طرح وہ سندھی اور انگلش دونوں میں بہت ہی خوبصورت لکھتا تھا وہ ۔۔۔۔۔۔’’ انسان انسان کے ساتھ صرف انفرادی طور پر غیر انسانی نہ رہا بلکہ وہ تو سماج میں ایسا رہا ۔۔۔۔۔۔ ایک گروہ دوسرے سے، قبیلہ قبیلے سے، کمیونٹی کمیونٹی سے، اور قوم قوم سے ‘‘(3) ۔ وہ کہتا تھا کہ بنی نوع انسان کو ابھی تک خود کو یہ کہنے کے لیے مہذب بنانا ہے کہ سب سے بہترین گروہ وہ ہے جو سب سے زیادہ نیکی کرے، نہ کہ وہ جو سب سے زیادہ طاقتور ہو۔۔۔۔۔۔ طاقت۔۔۔۔۔۔ نہ صرف خود غرض ہوتا ہے بلکہ یہ ایک لت، ایک ہوس ہوتا ہے، اور اپنے آپ میں بے انتہا حریص ہوتا ہے ، لہٰذا یہ اپنے آپ سے ناخوش رہتا ہے اور دوسروں کو ناخوش بنانے میں لگارہتا ہے‘‘۔
اُس کے اس مزیدار مشاہدے میں آپ کو شریک کروں گا:
’’ہندوستان میں کانگریس کی قومی تحریک کا نعرہ تھا، ایک قوم یعنی ہندوستانی قوم ۔ مگر جب آزادی ملی تو ایک قوم کی بجائے جتنے صوبے تھے انہیں ریاستیں قرار دیا گیا۔ اور ہر ریاست کی زبان کو قومی زبان بنا دیا گیا۔ جبکہ پاکستان والی مسلم لیگ 1940 میں کہہ رہی تھی کہ پاکستان میں شامل ہونے والے علاقے ریاستیں کہلائیں گی۔ مگر ہم نے دیکھا جب آزادی ملی تو سارے موجود صوبے تک ختم کردیے گئے۔ ون یونٹ بنا اور اسے ’’یک ‘‘زبانی ملک بنا دیا گیا‘‘۔
جویو صاحب اِس سب کچھ کے خلاف تھا۔
وہ ایک بسیارنویس انسان تھا۔ موضوعات میں متنوع یہ لکھاری منطق ، فلسفہ ، تاریخ ،شاعری اور انقلابی ادب پہ زبردست دسترس رکھتا تھا۔
وہ ایک صاحبِ ا سلوب نثرنگار تھا۔
استاد ایک ماہر مترجم تھا۔ اس نے تراجم کے ذریعے سندھی زبان وادب کو جدید فکرو نظر سے مالا مال کردیا ۔اس نے بین الاقوامی ادب کے شہ پاروں کو بڑی چابک دستی اور زبان وبیان کی لطافت کے ساتھ سندھی ادب کا حصہ بنایا۔ اس سے اذہان سازی میں جو انقلاب پیدا ہوا وہ ترقی پسند تحریک، روشن خیالی اور انسان دوستی کی ایسی راہوں کی کشادگی کا سبب ہوا ۔ جس پر آج اِس دھرتی کاہر باشندہ محمد ابراہیم جویو کا احسان مند ہے۔
صرف یہ نہیں کہ وہ خود ایک کامیاب ترجمہ نگار تھا، اس نے تو پورے سندھ کو ترجموں پر لگادیا ۔ بہت سے آج کے نامور ادیب استاد جویو کے ہاتھوں تراجم کر کر کے ادب میں آکر نام بناگیے۔
اس کے موضوعات کے تنوع اور فکری جہد کا اندازہ ان عنوانات سے لگایا جاسکتا ہے:
اسلام کا تاریخی کارنامہ، بچوں کی تعلیم، فکر ی آزادی، گلیلیوکی زندگی، بچوں کا مسیح، مظلوموں کی تعلیم وتدریس، سماجی ابھیاس، شاعری کے سماجی تقاضے، جدید دور میں بین الاقوامی تعاون کا مسئلہ، باغی،شاہ سچل اور سامی، آدمی کا مقدر (کہانیاں) ، وحشی جیوت جانشان، غریبوں کا نجات دہندہ، بھٹو کی زندگی اور عہد۔ اور، پاکستان: خواب اور حقیقت۔مگر Save Sind Save Continentتو اس کی پہلی اور بھر پورنوجوان اڑان تھی۔
ابراہیم جویو نے شاہ لطیف پر بہت خوبصورت مضامین لکھے۔
اس نے دو جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ’’ ہُو جا ٹمکے باہڑی ( وہ جو شعلہ سا جلتا ہے)لکھی جو اپنی قوم کی شعوری بیداری پر ہے ۔ بیداری جس کے لئے تعلیم اہم ہے اور تعلیم کے لیے زبان اہم ہے۔ جس قدر زبان میں بہتری آئے گی اُسی قدر قسمت میں بہتری آئے گی ۔ قومی عمل کے ذریعے محنت کرکے قوم کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ جب تک مادری قومی زبان کو اہمیت نہیں ملتی، جب تک مادری زبان کے ذریعے تعلیم کا حق نہیں ملتا اور جب تک پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک مادری زبان ترجیحی بنیادوں پر نہیں بڑھائی جائے گی تب تک تعلیم میں بہتری ممکن نہیں۔
منظومات میں عنوانات کا پھیلاؤ دیکھیے، اْو سندھ، محنت کش کے غم محنت کش کے یا ر، آپ اپنی پرستش کرنے والے۔
اس نے اہم علمی وادبی شخصیات کے خاکے بھی لکھے ۔
محمد ابراہیم جویو بحیثیت نقاد اپنے پیش لفظ اور مقدمہ نگاری میں اْبھر کر سامنے آیا۔ وہ اُن میں مصنف کی حوصلہ افزائی تو کرتا ہی ہے مگر ساتھ میں فنی مستقبل کی پیش گوئی بھی کرتا ہے اور غیرجانبدارانہ اصلاحی اظہاربھی۔ اس کے لکھے ہوئے پیش لفظوں میں بین السطور اس کا نظریاتی پرچار واضح طور پر جھلکتا ہے۔خیال ولفظ کا رشتہ اس کے قلم سے قرطاس پر منتقل ہوکر نظریاتی ادب کا لطیف حصہ بنتاہے۔
ایک کمال بات ہوتی تھی اُس کی باتوں میں، مقالوں تحریروں میں : یقین ۔۔۔ یقین زندگی پر، مستقبل پر، خود پر، انسانیت پر ۔ اور یقین تو آپ کی گفتار اور کردار کو بہت جاندار ،شاندار بنادیتا ہے۔
آخر میں بس اُس کی اولین کتاب (کتابچے ) کا پورا نام لکھ دیتا ہوں ۔ اُس سے نہ صرف استاد جویو کا پورا فلسفہِ حیات سمجھ آئے گا بلکہ اُس بڑے انسان کی الہامی سوچ کا بھی اندازہ ہوگا ۔ ہم آج بھی اُس کتاب کے نام کے گرد پھیرے لگا نے پر مجبور ہیں۔ کتاب کا نام ہے:
“Save Sind, Save Continent From Feudal Lords, Capatists and Their Communalism”

حوالہ جات
۔1۔2005 میں سندھی ادیبن جی سہکاری سنگت کی جانب سے شائع کردہ .۔
۔-2 سراج نے جویو صاحب کی کتاب The Betrayal کے دیباچہ میں لکھا۔جو یو، ابراہیم۔2000-Save Sind Save the Continent سندھ ڈیموکریٹک پارٹی حیدر آباد ۔ صفحہ23
۔-3جویو، ابراہیم۔The Betrayal …….. جلد دوئم صفحہ67۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *